میاں نواز شریف ان دنوں "ووٹ کو عزت دو " مہم پوری شدت
سے چلارہے ہیں ۔عمران خان نے اس پر خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے کہا ووٹ کو عزت
تب مل سکتی ہے جب ووٹر کو بھی عزت ملے گی ۔جہاں تک عمران خان کی اس بات کا
تعلق ہے اس سے کوئی بھی شخص انکار نہیں کرسکتا ۔ کیونکہ نواز شریف کو ووٹ
کی عزت کا اس وقت خیال آیا جب انہیں ایک عدالتی فیصلے کی صورت میں اقتدار
سے ہاتھ دھونا پڑے ۔ وگرنہ ایسا خیال انہیں پہلے کبھی نہ آیا ۔ جہاں تک
ووٹر کی عزت کا معاملہ ہے ۔تو اس حوالے سے مسلم لیگی حکمران اور سیاسی
رہنماسب کے سب صفر دکھائی دیتے ہیں ۔ یہ صرف الیکشن سے پہلے مسکراتے ہیں
بعد میں اپنی گاڑیوں کے شیشے نیچے رکھنا بھی گوارا نہیں کرتے ۔کچھ لوگ ایسے
بھی موجود ہیں جو منتخب ہونے کے بعد اپنے گھروں میں خوفناک شکل کے کتے
باندھ لیتے ہیں تاکہ کوئی ووٹر ان سے رابطہ کرنے کی جرات نہ کرے ۔ووٹر سے
ملنا اوران کے مسائل حل کرنا تو دور کی بات ہے ‘ ہاتھ ملانے سے بھی
گریزکیاجاتا ہے ۔بات کو آگے بڑھانے سے پہلے میں بطور مثال اپنے حلقے کی بات
کرنا چاہتا ہوں میں گزشتہ چار سال سے حلقہ این اے 125‘ صوبائی حلقہ 155 میں
رہائش پذیر ہوں ۔اس حلقے کے ایم این اے خواجہ سعد رفیق اور ایم پی اے میاں
نصیر احمد ہیں ۔ اس علاقے کے اہم ترین مسائل میں پینے کے صاف پانی کی عدم
دستیابی ‘ باب پاکستان کی از سر نو تعمیر ‘ قبرستان کی جگہ کی عدم فراہمی ‘
سرکاری ہسپتال کی عدم موجودگی‘ گندے نالے کی ری ماڈلنگ ‘ والٹن روڈ کی خستہ
حالی اور نئی تعمیر ‘صحت و صفائی کا عدم انتظام ‘ سٹریٹ لائٹ کی عدم بحالی
‘ شامل ہیں۔ کونسلر سمیت کوئی بھی منتخب نمائندہ والٹن روڈ کے گرد ونواح کی
آبادیوں کا رخ اس لیے نہیں کرتا کہ ووٹر انہیں اپنے مسائل نہ سنانا شروع
کردیں ۔مسلم لیگ کے منتخب نمائندے اپنے ووٹرز کی کتنی عزت کرتے ہیں ۔ان
رویوں کودیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔جہاں تک نواز شریف اور مسلم
لیگی حکومت کا تعلق ہے ۔نواز شریف دور کے سنہری کارناموں میں جی ایس ٹی کی
شرح میں حد درجہ اضافہ اور درجن سے زیادہ ظالمانہ ٹیکس بھی شامل ہیں۔انہی
ٹیکسوں کی بنا پر ہر چیز کی قیمت آسمان پر پہنچ چکی ہے ۔ ایک بزرگ نے روتے
ہوئے بتایا کہ مجھے کسی دفتر سے چار ہزار روپے ماہانہ اعزازیہ ملتا ہے میں
جب وہ پیسے لینے جاتا ہوں تو دس فیصدکے حساب سے ٹیکس کاٹ کر مجھے 3600 تھما
دیئے جاتے ہیں جبکہ وہ لوگ جو روزانہ ہزاروں روپے کماتے ہیں وہ ٹیکس دینا
بھی گناہ تصور کرتے ہیں بلکہ ٹیکس کلیکشن کرنے والا عملہ خود انہیں ٹیکس سے
بچنے کے راستے بتا کر اپنی جیبیں بھرتے ہیں۔ ٹیلی فون ‘ بجلی ‘ پانی کے
بلوں پر چھ سات ڈیوٹیوں اور ٹیکسوں کی بھر مار ظالمانہ حکمرانی کی ایک منہ
بولتی مثال ہے ۔ پٹرول کی ایک لیٹر قیمت میں تقریبا 35 روپے لیوی ٹیکس عائد
کررکھاہے ۔ اب پٹرول کی قیمتوں میں ہر ماہ اضافہ کرنے کا معمول بنالیا گیا
ہے ۔ یہ وہی ووٹر ہیں جنہوں نے نواز شریف کو ووٹ دے کر اقتدار کے ایوانوں
میں بھیجا تھا ۔بنک سے پچاس ہزار روپے سے نکلوانے پر ٹیکس ادا کرنا پڑتا ہے
جبکہ جائیداد اور زمین کی خرید و فروخت پر بھاری ٹیکس اور ڈیوٹیاں عائد کی
جاچکی ہیں ۔ موبائل کے بیلنس پر بھی 35 سے 40 فیصد ٹیکس عائد کرکے اپنے ہی
ووٹروں کا جینا حرام کررکھا ہے ۔ اشیائے خورد نوش اور سبزیوں کی قیمتیں
آسمان سے باتیں کررہی ہیں جبکہ ملاوٹ نے انسانی استعمال کی ہر چیز کو اپنی
گرفت میں لے رکھا ہے ۔پینے کا صاف پانی قدرت کاایک انمول تحفہ ہے لیکن
انتظامیہ کی نااہلی کی بنا پر لاہور جیسے شہر کاپانی بھی ہر جگہ آلودہ
ہوچکا ہے ۔حکومت وقت کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ کم ازکم صاف پانی اور
معیاری غذا اپنے ووٹروں کو سستے داموں فراہم کرسکے۔ سرکاری ہسپتالوں کی
جانب دیکھیں تو وہاں بھی ووٹر لمبی قطاروں میں کھڑے ذلیل و خوار ہوتے
دکھائی دیتے ہیں۔ ایک ایک بستر پردو دو مریضوں کو لٹانا تو عام سی بات ہے
لیکن مریض کی جان بچانے والے آلات بھی بوقت ضرورت میسر نہیں آتے ۔شعبہ صحت
کے ساتھ ساتھ تعلیم کا شعبہ بھی اب کاروبار بن چکا ہے ۔آدھے سے زیادہ
سرکاری سکول جن میں آج بھی جانور باندھے دکھائی دیتے ہیں ۔ جو پرائیویٹ
سکولز موجودہیں انہوں نے تعلیم کو ہی منافع بخش کاروبار میں تبدیل کرلیا ہے
۔ پلے گروپ کا ایک بچہ داخل کروانے پر پندرہ سے بیس ہزار روپے مانگ لیے
جاتے ہیں گویا بچہ پلے گروپ سے نرسری ‘ پریپ سے ہوتا ہوا جب اول جماعت میں
پہنچے گا تو اس وقت تک سکول والے صر ف ایک بچے کی فیس ایک لاکھ سے بھی
زیادہ وصول کرچکے ہوں گے ۔محکمہ تعلیم کے حکام اس لیے پرائیویٹ سکولوں کے
فیسوں اور سہولتوں کا جائز ہ لینے کے لیے نہیں جاتے کہ انہیں طے شدہ منتھلی
گھر بیٹھے پہنچ جاتی ہے۔جو والدین چھٹی کے وقت بچوں کو لینے جاتے ہیں انہیں
دانستہ کڑکتی دھوپ میں کھڑا رکھاجاتاہے ۔بھاری فیسیں لینے والے سکول مالکان
اتنی زحمت نہیں کرتے کہ سکول کے سامنے ٹھنڈے پانی اور شامیانے کا انتظام
کردیں۔جگہ جگہ ذلیل و خوار ہونے والے بھی تو کسی نہ کسی کے ووٹر ہوں گے ۔
مختصر بات تو یہ ہے کہ ووٹ کی عزت مانگنے والے ووٹرکی عزت کرنا اور ان کے
مسائل کو حل کرنا کب سیکھیں گے ۔ اس میں شک نہیں کہ نواز شریف مقبول ترین
سیاسی رہنماہیں لیکن وزیر اعظم بننے کے بعد وہ اپنے ووٹروں کو ایسے بھولتے
ہیں کہ دوبارہ ان کے پاس کبھی نہیں جانا ۔اب اقتدار ختم ہو ا ہے تو انہیں
ووٹوں کے تقدس کا خیال آیا ہے ۔
|