ایک زمانے میں منموہن سنگھ اور نریندر مودی کا موازنہ اس
طرح کیا جاتا تھا کہ ان میں سے ایک گونگا اور دوسرا بہرا ہے۔ ایک بالکل
نہیں بولتا چپ چاپ سنتا رہتا ہے اور دوسرا کسی کی نہیں سنتا بے تکان بولتا
رہتا ہے۔ ویسے اندھے تو خیر دونوں ہی ہیں مگرکٹھوعہ اور اناؤ کے واقعات پر
پردھان سیوک کی طویل کی خاموشینے سابق وزیر اعظم کو یہ کہنے کا موقع عطا
کردیا کہ"مجھے خوشی ہے کہ وزیر اعظم مودی نے آخرکار خاموشی توڑی ۔مجھے لگتا
ہے کہ جو صلاح انہوں نے مجھے دی تھی اسی پر انہیں عمل کرنا چاہئے"۔ کون سوچ
سکتا تھا کہ بول بچن کے بے تاج بادشاہ کی یہ درگت بنے گی ۔ منموہن سنگھ کا
یہ موقف درست ہے کہ ضروری مسائل پر مودی کی خاموشی سے لوگوں میں یہ یقین
مضبوط ہوگا کہ وہ کسی بھی جرم کی سزا سے بچ جائیں گے۔
اناؤ اور کٹھوعہ کے واقعات پر مودی جی بہت دیر تک چپیّ سادھے رہے یہاں تک
کہ کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے دہلی کے انڈیا گیٹ پر کینڈل مارچ نکال کر
دباو بنایا کہ پورا ملک وزیراعظم کے بولنے کا منتظر ہے۔ اس کے بعد بھی مودی
جی کا جواب کسی قومی رہنما کے شایان شان نہیں تھا۔ انہوں نے گول مول انداز
میں کہا"گزشتہ دو دنوں سے جن واقعات کی چرچہ ہو رہی ہے۔وہ مہذب معاشرے کا
حصہ نہیں ہو سکتی۔ایک قوم اور ایک سماج کے طور پر، ہم سبھی شرمندہ ہیں۔میں
ہم وطنوں کو یقین دلانا چاہتا ہوں کہ کسی بھی مجرم کو بخشا نہیں جائے گا ۔ہماری
بیٹیوں کو انصاف ضرور ملے گا‘‘۔ اس منافقانہ بیان میں ظالموں کی نشاندہی اس
لیے نہیں کی گئی کہ ان سب کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے۔ذرائع ابلاغ میں گردش
کرنے والی زانیوں کی طویل فہرست میں اب ایک سے ایک بھگوادھاری نکل رہے ہیں۔
ایک طرف برہما چاری ہونے کا ڈھونگ اور دوسری طرف ایسی درندگی کہ جانور بھی
شرما جائیں انتہائی قابلِ مذمت ہےنیزڈھٹائی کے ساتھ بھارت ماتا کی جئے کا
نعرہ اور ظالموں کی پشت پناہی نے ساری دنیا میں ملک کو بدنام کردیاہے۔
جس دیس میں جان کے رکھوالے خودجانیں لیں معصوموں کی
جس دیس میں حاکم بہرے ہوں آہیں نہ سنیں مظلوموں کی
اس دیس کے ہر اک نیتاکو کرسی سے ہٹانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک قاتل کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
۵۶ انچ کا سینہ ٹھونکنے والا وزیراعظم اس اخلاقی جرأت مظاہرہ بھی نہیں
کرسکا جس کی مثال صدر جمہوریہ رام ناتھ کوند نے جموں میں جاکر پیش کی ۔
اپنی شدید ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے کہا انہوں نے کہا’’بچوں کا محفوظ ہونا
سماج کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہر بچے کو تحفظ دینا اور اس کی حفاظت یقینی
بنانا، کسی بھی سماج کی پہلی ذمہ داری ہوتی ہے۔ حال ہی میں اس ریاست کے
اندر ایک معصوم بچی ایسی بربریت کا شکار ہوئی جس کی جتنی مذمت کی جائے کم
ہے۔آزادی کے۷۰ سال بعد بھی اس طرح کے واقعات کا رونما ہونا شرمناک ہے۔ ہم
سبھی کو سوچنا ہوگا کہ ہم کہاں جارہے ہیں؟ ہم کیسا سماج بنا رہے ہیں؟ ہم
اپنی آنے والی نسل کو کیا دے رہے ہیں؟ کیا ہم ایک ایسے سماج کی تعمیر کررہے
ہیں جس میں ہماری ماؤں، بہنوں اور بیٹیوں کو انصاف اور تحفظ کا احساس نہ
ملے؟ ایسے واقعات کو روکنا ملک کے ہر ذی حس شہری کا اخلاقی فرض ہے‘‘۔ صدر
جمہوریہ نے مخلصانہ و درمندانہ بیان اورسیاسی شعبدہ بازی کے فرق کو واضح
فرمادیا۔
وزیر اعظم کو چاہیے تھا کہ یوروپ کی سیر پر جانے کے بجائے جموں اور اناو ٔجاتے
لیکن ان کا معمول یہ ہے کہ جب بھی دہلی میں موسم کا درجۂ حرارت بڑھتا ہے
یا سیاسی پارہ چڑھتا ہے تو وہ سرد ممالک کی جانب فرار ہوجاتے ہیں ۔ تمل
ناڈو کی سڑکوں پر جب ان کے خلاف’ مودی واپس جاو‘ کے نعرے لگتے ہیں تووہ
یوروپ کی طرف رختِ سفر باندھتے ہیں لیکن وہاں بھی مخالفت ان کا پیچھا نہیں
چھوڑتی۔کٹھوعہ عصمت دری سے لے کر گوری لنکیش قتل تک خواتین پر ہو رہے مظالم
کے خلاف عوام سڑکوں پر نظر آ تےہیں ۔ اس احتجاجی مظاہرہ میں صرف سماجی
تنظیمیں ہی نہیں بلکہ طلبا کی اور کلچرل تنظیمیں بھی پیش پیش ہوتی ہیں۔
لندن میں مقیم ہندوستانی پوسٹر، بینر اور گاڑیوں پر ہورڈنگ لگا کر وزیر
اعظم سے سلگتے سوال پوچھ کر ان کی پریشانی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایک ہورڈنگ
پر پوچھا جاتا ہے کہ لندن میں رہائشی ہندوستانی وزیر اعظم مودی کے دورہ کی
مخالفت کیوں کر رہے ہیں؟ اس کے جواب میں لکھا ہوتا ہے ’’کیونکہ وہ فسطائی
اور ہٹلر نواز ہیں۔ اس ہجومی تشدد کو فروغ دیتے ہیں، جو مسلمانوں پر تشدد
اور زانیوں کا دفاع کرتی ہے۔ وہ نسلپرست اور دلتوں کے قتل کی حمایت کرتے
ہیں‘‘ ۔ ایسے میں ’ من کی بات‘ کو چھوڑ کر’ بھارت کی بات ‘والا نیا ناٹک کس
کام کا؟
سماجی رابطے کے ذرائع ابلاغ میں بھی’مودی ناٹ ویلکم‘ہیش ٹیگ کے تحت غم و
غصے کا اظہار کیا جاتا ہے۔ یہ محض سیاسی پروپگنڈا نہیں ہے بلکہ سراہ گرین (وائلنس
اگینسٹ وومن کولیشن)، ووین ہیس (وومن ریسورس سنٹر)، مرائی لارسی (امکام)،
امرت ولسن (رائٹر)، پروفیسر نیرا یوال ڈیوس (یونیورسٹی آف ایسٹ لندن) سمیت
۵۰ سے زائدسرکردہ خاتون دانشوروں اور مصنّفین کا سرکردہ گروہ وزیر اعظم
نریندر مودی کو ایک کھلا خط لکھ کرہندوستان میں خواتین اور بچیوں کے اوپر
ہو نےوالے جنسی تشدد پرتشویش کااظہار کرتا ہے۔ اس خط میں بی جے پی کےارکان
اسمبلی کے ذریعہ زانیوں کی حمایت کو شرمناک قرار دیاجاتاہے۔ ویسے تو عوام
کے دباو میں بی جے پی نے چودھری لال سنگھ اور چند ر پرکاش گنگا سے استعفیٰ
طلب کرلیا لیکن ان لوگوں نے اس پر احتجاج کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے تو
یہ حرکت پارٹی کے کہنے پر کی تھی اس لیے ہمیں کیوں بلی کا بکرا بنایا جارہا
ہے اس خفت کو مٹانے کے لیے بی جے پی نے سارے وزراء سے استعفیٰ لے کر اس کو
تنظیم نو کا نام دے دیا ہے لیکن اس سے بات نہیں بنتی اس لیے کہ؎
جس دیس سے ماؤں بہنوں کو اغیار اٹھا کر لے جائیں
جس دیس سے قاتل غنڈوں کو اشراف چھڑا کر لے جائیں
اس دیس کے ہر اک نیتاکو کرسی سے ہٹانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک قاتل کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
مودی جی کی حالیہ مخالفت پردیس تک محدود نہیں ہے بلکہ وطن عزیز میں بھی
سبکدوش سرکاری افسران کے ایک گروہ نے مشترکہ خط لکھ کر آئین ہند میں موجود
سیکولراور جمہوری قدروں میں لگاتار گراوٹ پرشدیدرنج و غم کا اظہار کیا ہے۔
ان لوگوں نے اپنا تعارف ان الفاظ میں کرایا کہ ’’ہم نہ تو کسی سیاسی جماعت
سے جڑے ہیں اور نہ ہیدستور میں موجود قدروں کے سوا کسی سیاسی نظریہ کے
پیروکار ہیں ‘‘۔ وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نےاپنے احتجاج کی وجہ
اس طرح بیان کی’’چونکہ آپ نے آئین کو قائم رکھنے کا حلف لیا ہے، ہم پرامید
تھے کہ آپ کی سربراہی والی حکومتاور وہ سیاسی جماعت جس کے آپ رکن
ہیں،سرکاری کی سرپرستی میں پھیلائی جانے والی نفرت، ڈراور بےرحمی کے خوفناک
رجحان کی جانب توجہ کر کےاس سڑاند کو روکنے میںقا ئدانہ کردا ر ادا کرے گی
۔ آپ بذات خودسب کو اعتماد لے کر خاص طور پر اقلیت اور کمزور طبقات کے جان
و مال اور انفرادی آزادی کی یقینی بنائیں گے مگراب یہ امید مٹ چکی ہے۔ اس
کے علی الرغم کٹھوعہ اور اناؤ کے حادثات کی ناقابل بیان دہشت شاہد ہے کہ
عوام کے تئیں حکومتاپنے بنیادی فرائض کی انجام دہی ناکام رہی ہے‘‘۔
اس چشم کشا خط میں صدر جمہوریہ کے خطاب کی دھمک محسوس ہوتی ہے بلکہ یہ
ہرباشندے کے دل کی آواز ہے جس میں کہا گیا’’ایک آٹھ سال کی بچی کی وحشیانہ
عصمت دری اور قتل کا واقعہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کمینگی کی گہرائیوں میں
ڈوب چکے ہیں۔ آزادی کے بعد اس سب سے بڑی تاریکی میں حکومت اور سیاسی
جماعتوں کی قیادت کا رد عمل ناکافی اور ڈھیلا ہے۔ اس مقام پر ہمیں اندھیری
سرنگ کے آخر میں کوئی روشنی نہیں دکھائی دیتی ہے اور ہم بس شرم سے اپنا سر
جھکالیتے ہیں‘‘۔ اس خط میں کٹھوعہ اور اناو کی زیادتی کے بارے میں وضاحت کے
ساتھ حکومت کو اس طرح موردِ الزام ٹھہرایا گیا ہے کہ ’’ کٹھوعہ میں، سنگھ
کے وحشی عناصر جانتے تھے کہ ان کی بداخلاقی کو سیاست دانوں کی پشت پناہی
حاصل رہےگی۔ اناؤ میں بھی جاگیردارانہ ذہنیت کے حامل غنڈوں کے اقتدار نے
عصمت دری ، قتل ،زورزبردستی اور لوٹ کھسوٹ کا بازار گرم کررکھا ہے۔صوبائی
حکومت متاثرہ اور اس کے اہل خانہ کے، بجائے مبینہ ملزم کی حامی بنی ہوئی ہے۔
یہ سرکاری نظام کےزبردست انحطاط کی علامت ہے‘‘۔ اس خط میں وزیر اعظم کو
براہِ راست مخاطب کرکے کہا گیا کہ ’’ آپ کی حکمراں جماعت میں آپ کی برتری،
آپ اور آپ کی جماعت کے صدر کے مرکزی تسلط کے سبب ، اس خوفناک صورتحال کے
لئے کسی اور سے زیادہ آپ ہی کو ذمہ دار ٹھہرایا جانا چاہیے ‘‘۔
اس سچائی کے ثبوت میں جموں اور اناو کے اندر زعفرانی تحریک کے مطالبات اور
رویہ کو پیش کیا جاسکتا ہے ۔ عام طور پر جب بھی کسی جرم کا ارتکاب ہوتا ہے
مقامی پولس پر تفتیش کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ بعض اوقات متاثرہ خاندان یہ
محسوس کرتے ہیں کہ علاقائی سیاسی دباوصوبائی حکومت کے تحت کام کرنے والی
پولس کی کارروائی کو متاثر کرے گا اس لیے ان کی جانب سے مرکزی ایجنسی یعنی
سی بی آئی جانچ کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ریاستی حکومت کی مخالفت کے باوجود
کبھی کبھار اس کو شرف قبولیت نصیب ہوجاتا اور کبھی اسےٹھکرا دیا جاتا ہے۔
جموں میں برعکس صورتحال ہے ۔ وہاں پر متاثرہ کا خاندان مقامی پولس کی
کارکردگی سے مطمئن ہے ۔اس نے سی بی آئی کی تفتیش کا مطالبہ نہیں کیا۔
صوبائی حکومت میں بی جے پی شریک کار ہے اس لیے اس کو بھی مقامی پولس کی
حمایت کرنی چاہیے لیکن بی جے پیکے وزراء خود اپنے کرائم برانچ کے خلاف
سڑکوں پر اتر کر احتجاج کرتے ہیں ۔ اناو میں بی جے پی رکن اسمبلی کی
گرفتاری کو ٹالنے کے لیے خود صوبائی حکومت اپنی پولس کے بجائے سی بی آئی
جانچ کا مطالبہ کرتی ہے۔ یہ سب کیوں ہوتا اس کا سبب جاننے کے لیے مکہ مسجد
کیس اور جسٹس لویا کے مقدمات میں عدالتی فیصلوں کو پیش نظر رکھنا پڑے گا ۔
مکہ مسجد کے معاملے میں اعتراف کرنے والے ملزمین کو ایک مرکزی تفتیشی ادارے
این آئی اےکی ناقص پیروی نے بچا لیا ۔ سوامی اسیمانند نے خود کہا تھا کہ
ایک بے قصور مسلمان سے جیل میں ملاقات کے بعد ان کا ضمیر جاگ گیا اور انہوں
نے سچ سچ بتا کر اصل مجرمین کی نقاب کشائی کردی۔ اس کے بعد این آئی اے نے
فرد جرم داخل کی۔ بے گناہ مسلمان جو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ٹھونس دیئے گئے
تھے رہا ہوگئے۔ اس کے بعد سرکار بدل گئی اور نئی حکومت نے ملزمین کو بچانے
کا ارادہ کیا تاکہ ہندو رائے دہندگان کی خوشنودی اور ووٹ حاصل کیا جائے۔
این آئی اے عدالت کے جج رویندر ریڈی نے سارے ملزمین کو باعزت بری کرکے
استعفیٰ دے دیا ۔ یہ ان کے ضمیر کی آواز تھی۔ استعفیٰ مسترد کرکے اس آواز
کو بھی دبا دیا گیا اور انہیں عدالت سے رجوع کرنے کا حکم دے دیا گیا لیکن
سوال یہ ہے کہ مسلمان نوجوان بھی بے قصور، اسیمانند اور ان کے حامی بھی بے
گناہ تو آخر اس جرم کا ارتکاب کس نے کیا؟ ان کو سزا کون دے گا؟ مکہ مسجد
کے دھماکے میں جو لوگ ہلاک ہوئے ان کے ساتھ انصاف کیسے ہوگا؟ اس فیصلے کے
اندر کھٹوعہ کے گیروے مجرمین کے لیے امید کی کرن ہے کہ اگر قومی ایجنسی
تفتیش کرتی ہے توجلد یا بہ دیرانہیں بھی بچا لیا جائے گا۔ ابھی اسیمانند کی
رہائی پر ماتم ختم نہیں ہواتھا کہ احمدآباد کی ایک عدالت نے مایا کوندنانی
اور ان کے سکریٹری کو نرودہ پاٹیہ مقدمہ میں بری کردیا۔ اس سے قبل مایا کو
عمر قید کی سزا سنائی گئی تھی ۔ ان فیصلوں کو دیکھ کر فیض احمد فیض کا یہ
شعر یاد آتا ہے ؎
بنے ہیں اہلِ ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں
اناو کے رکن اسمبلی کلدیپ سینگر کے لیے جسٹس لویا کے مقدمہ کا فیصلہ باعث ِ
اطمینان ہے۔ اس معاملے میں جو دھاندلی ہوئی ہے اس پر معروف وکیل پرشانت
بھوش کا تبصرہ درست معلوم ہوتا ہے کہ ’’میری رائے میں یہ ایک بہت ہی غلط
فیصلہ ہوا ہے اور سپریم کورٹ کے لئے یہ ایک کالا دن ہےکیونکہ سپریم کورٹ نے
اتنے سارے شکوک کے باوجودآزاد تفتیش کے بجائے جج لویا کی موت کے پردہ ڈالنے
کا کام کیا ہے‘‘۔ہادیہ کے معاملے میں جرأتمندانہ فیصلہ سنانے والی عدالت
عظمی ٰ کے سامنے جب امیت شاہ جیسے دبنگ سیاستداں سے متعلق مقدمہ آتا ہے تو
اس کی حالت قابلِ رحم ہوجاتی ہے۔ اس سنگین معاملے میں عدالتی فیصلے کا مکمل
انحصارمہاراشٹر کے ایک پولیس افسر کو دیئے گئے نچلی عدالت کے چار ججوں کے
بیان پر کیا گیاہے ۔
پرشانت بھوشن کے مطابق ’’فیصلہ میں عرضی گزاروں کی منشا پر سوالیہ نشان؟
ایک جج کی پراسرار موت پر آزادانہ جانچ کے مطالبہ کو شک کی نگاہ سے دیکھاو
،سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سوال کھڑا کرتا ہے“۔ ان کے خیال میں جسٹس لویا کی
اچانک موت سے جو سوال اٹھ رہے ہیں اس کے پیش نظر کم از کم ان کی موت کی
آزادانہ جانچ تو کرائی ہی جا سکتی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سرکار کی جانب
سے کی گئی تفتیش میں جو بیانات دیئے گئے ان میں سے کسی پر جرح یا تصدیق کی
زحمت نہیں کی گئی کوئی گواہ طلب نہیں کیا گیابلکہ سب کو من وعن تسلیم کرلیا
گیا ۔ جسٹس لویا کے والد اور بہن کے الزامات کو سنے اور جانچ پڑتال کے بغیر
مسترد کردیا گیا اور انصاف کے لیے گہار لگانے والے انصاف پسندوں کو پھٹکار
سنائی گئی۔
اس پورے کھیل میں متوفی جج کی بہن اور والد کو انصاف سے محروم رکھنے کے لیے
گواہ اور قاضی عدلیہ ہی کے لوگ ہیں ۔ جو لوگ خود اپنی برادری کو انصاف
دلانے پر قدرت نہیں رکھتے ان سے اناو کے آنجہانی سریندر سنگھ پپو کی بیٹی
بھلا کیا توقع کرسکتی ہےمگر بی جے پی رہنما کلدیپ سینگر کے حوصلے ضرور بلند
ہوئے ہوں گے۔ایسا گمان ہوتا ہے کہ حزب اختلاف نے چیف جسٹس (سپریم کورٹ) کے
خلاف مواخذے کی جو تحریک چلائی تھی اس سے حزب اقتدار کو بلیک میلنگ کا ایک
نادر موقع مل گیا ہے ۔اس کا بھرپورسیاسی فائدہ اٹھایا جارہا ہے اور آئندہ
بھی اٹھایا جائے گا ۔ یہ محض اتفاق نہیں ہے کہ کھٹوعہ اور ناو کے اندر
مدافعت پر مجبور بی جے پی کو حیدرآباد اور دہلی کے عدالتی فیصلوں کی آڑ
میں کانگریس کو گھیرنے کی کوشش کی۔ پہلے تو راہل گاندھی سے زعفرانی دہشت
گردی کے الزام پر معافی کا مطالبہ کیا گیا جس کو یہ کہہ کر ٹھکرا دیا گیاکہ
راہل نے کبھی یہ اصطلاح استعمال ہی نہیں کی ۔ اس کے بعد جسٹس لیوا کی موت
کے سیاسی استعمال پرراہل کو گھیرا گیا۔ عدلیہ کی اس حالتِ زار پر یہ ا شعار
صادق آتے ہیں ؎
جس دیس کی کو رٹ کچہری میں انصاف ٹکوں میں بکتا ہو
جس دیس میں فیصلہ منصف بھی مجرم سے پوچھ کے لکھتا ہو
اس دیس کے ہر اک نیتاکو کرسی سے ہٹانا واجب ہے
اس دیس کے ہر اک قاتل کو سولی پہ چڑھانا واجب ہے
|