ذرا سوچیں! دیوارِ غربت

دن بدن بڑھتی ہوئی غربت اور معاشی حالات کا گرنا خطرے سے کم نہیں، جب تک ہم اور ہمارے لیڈر بحیثیت پاکستانی مخلص ہو کر اس کا تدارک نہیں کرتے اس وقت تک اندرونی اور بیرونی خطرات منڈلاتے رہیں گے۔ ہمیں چاہیے کہ غربت کی دیوار کو گرا کر ایک ہو جائے جس میں قانون سب کے لیے آیک ہو ، انصاف بروقت میسر آجائے اور سب سے بڑھ کار روزگار مہیاکرنا ہوگا۔

جب سے پاکستان بنا، جس مقصد کے لیے بنایا گیا، دو قومی نظریہ پاکستان کی وجہ وجود بنا، آج پاکستان کو قائم ہوئے کم و بیش 71سال کا عرصہ بیت گیا، تقسیم کے وقت پاکستا ن کو بہت کم اثاثہ جات سے نوازا گیا۔ لیکن پھر بھی اس پاکستان میں دم خم تھا کہ دوسروے ملکوں کو قرض دیتا تھا ۔ وقت گزرتا گیا ، دنیا کی سب سے بڑی ہونے والی ہجرت کے زخم آہستہ آہستہ اس امید کے ساتھ بھرنے لگے کہ آنے والا پاکستان بہتر سے بہتر اور تابناک مستقبل کی طرف رواں دواں رہے گا۔لیکن ہماری آنے والی نسلیں دو قومی نظریہ کے تحت نہ کہ نظریۂ ضرورت کے تحت زندگی گزارنے پر مجبور ہو گی۔ ابھی پاکستان کو معرضِ وجود چند سال ہی ہوئے تھے کہ اندرونی اور بیرونی شر پسندوں نے اپنے اپنے اقتدار کی خاطر اس کو دو لخت کر دیا، اس پر بننے والے کمیشن ۔۔۔۔۔؟مودی نے خود بنگلہ دیش میں جاکر ثابت کر دیا کہ پاکستان دو لخت کس طرح اور کیوں کر ہوا؟ تھوڑا سے آگے چلتے ہیں پاکستان دوسرے ممالک کو قرض دینے کی بجائے خود قرض لینے والوں کی لائن میں لگ گیا ، کسی نے نہیں پوچھا ایسا کیوں کر ہوا؟ مجھے یوں لگتا ہے کہ ہماری (قوم) کی پرورش ہی اس انداز میں کی گئی ہے ’’رات گئی بات گئی‘‘۔یوں یوں پاکستان آگے بڑھنے لگا اسی کے ساتھ ساتھ وہ نظام بھی پروان چڑھنے لگا جس سے 1947ء میں چھٹکار ا حاصل کیا تھا۔ امیر، امیر تر ، غریب غریب تر، وڈیرہ شاہی میں اضافہ ہونے لگا، ذات پات، برادری پر ووٹ کاسٹ کیا گیا ، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کوسچ ثابت کرنا ہمارا معمول بننے لگا۔ VIPsکی صف میں اضافہ ہونا شروع ہوگیا ، انگوٹھاچھاپ وزیر بننے لگے، تعلیم یافتہ چوکیدار اور چپڑاسی بھرتے ہونے لگے۔ پھر انصاف کا پیمانہ یہ رکھ دیا گیا کہ جتنا بڑا کرپٹ ہوگا اتنا ہی بڑا عزت و احترام اور عہدے کا مالک ہو گا ، جتنا غریب ہوگا اسے اتنا ہی ذلیل کر دیا جائے گا۔ امیر کی بیٹی اپنی مرضی سے شادی کرے تو Love Marriageاور غریب کی بیٹی ایسا کرے تو گھر سے بھاگ گئی کی تہمت لگا کر اسے گاؤں او ر محلے سے نکال دیا جاتا ہے۔ وقت گزرتا گیا پاکستان بڑا ہونے لگا ، انتطامی امور کو بہتر کرنے کے دعوے ہر دور میں زور و شور سے شروع ہو گئے ، پولیس میں بھرتیاں شروع ہونے لگیں۔ پولیس تو معروضِ وجود میں آگئی لیکن افسوس۔۔۔۔ وہ سبق۔۔۔۔۔، کتاب منظرِ عام پر نہ آ سکی ۔چیک پوسٹ غریب کے لیے قائم کی گئی اگر چیک پوسٹ ، ناکہ بندی پر امیر بھی زد میں آجاتا تو کبھی بھی جرائم میں اضافہ نہ ہوتا ۔ لیکن محسوس ایسے ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔۔ وڈیرے کو کچھ نہیں کہنا ۔ لڑائی جھگڑا ہو جائے تو میڈیکل رپورٹ سامنے آتی ہے یہاں پر بھی بااثر افراد کا پہرہ ہوتا ہے۔ جس کی ٹانگیں توڑ دی جاتیں ہیں وہ بالکل کلیئر قرار دے دیا جاتا ہے اور اثر و رسوخ والے کو من مرضی کی میڈیکل رپورٹ دے دی جاتی ہے ۔ تھوڑا سے آگے بڑھتے ہیں ۔ بھٹو دور ، ایوب دور کا چرچا شرو ع ہوگا، ایوب کو کتا کہلا کر عہدے سے ہٹنے پر مجبور کر دیا، آج ہم سب کہتے ہیں کہ ایوب کا دور ایک عام شہری کے لیے بہتر تھا، پھر جمہور ی دور آیا ، نئے رنگ اور نئے انداز میں لوگوں کو بیوقوب بناگیا ، روٹی ، کپڑا اور مکان کا خواب دکھایا گیا ، لیکن غریب کے ساتھ سوتیلی ماں ہی جیسا سلوک روا رکھا ، آج تک یہی بھیانک مذاق چلتا آ رہا ہے۔ غریب کا علاج اور امیر کا اور، غریب کی پڑھائی اور امیر کا درس اور، غریب کا بیٹا اچھے نمبروں سے میٹر ک کر جائے تو صرف اخبارات کی زینت بنتا ہے اور امیر کا بیٹا فری پڑھتا ہے۔ غریب کو مزدوری دیتے وقت تکلیف محسوس ہوتی ہے۔ کیااس میں کہیں انسانیت والا بھی معاملہ نظر آتا ہے؟ VIPکا بیٹا اغوا ہو تو پوری ریاست اس کی بازیابی کے لیے کوشاں کرتی ہے جبکہ غریب کا بیٹا اغوا ہو جائے تو تھانہ میں FIRبھی درج نہیں ہوتی، آخر اتنا فاصلہ اور تضا د کیوں ہے؟ جبکہ آقائے دو عالم سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی احادیث مبارکہ اس بارے میں لیکن پھر بھی ہم۔۔۔؟جب تک ریاست اس فرق کو کم کرنے یا مناسب پالیسی اختیار نہیں کرے گی تو اس وقت ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر آنے والے دور میں غریب کے ساتھ مذاق ہی کیا جائے گا، کسی نے اس کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن جب ہم ووٹ مانگتے ہیں تو پھر وہ تسبیح کی جاتی کہ غریب اسے سچ سمجھ لیتا ہے اور پھر ۔۔۔ لیکن غریب بیچارہ کرے بھی کیا، ووٹ نہ دے تو محلے کا چوہدری اس کی بہن بیٹی کو اغوا کرنے کی دھمکی دے دیتا ہے یا پھر تھانے تو بنے ہی غریب کو اندر کرنے کے لیے ہیں۔ تجربہ کے طور پر کسی غریب کے خلاف ادھرFIRدرج کرواؤ اُدھر تھانیدار کی پھرتیاں دیکھو، کس طرح ماں ، بہن بیٹی ایک نہ کر دے تو وہ تھایندار نہیں ، شام کو وہ غریب حوالات میں بند ہوگا۔ دوسری طرف امرا ء اور وڈیروں کے خلاف جو چاہے کرلو کوئی مائی کا لعل ان کو پوچھے گا بھی نہیں اوروہ دھڑلے کے ساتھ اپنے اپنے عہدے پر قائم ودائم رہیں گے ، ایسا کیوں ہے؟ لمبی چوڑی تحریر کی بجائے ایک ہی درخواست ہے کہ ماضی میں حکمرانوں سے جو غلطیاں ہو گئی سو ہو گئیں ، برائے مہربانی اب ان غلطیوں کو دہرانے کا وقت نہیں ، وقت اپنے اپنے احتساب کا ہے، میری عدلیہ سے درخواست ہے جو سیاسی پارٹیاں جو الیکشن سے پہلے نعرے بازی کرکے عوام کو بیوقوف بناتی ہیں اور برسرِ اقتدار آکر کچھ بھی نہیں کرتیں تو خداراہ، ان پارٹیوں کا احتساب کیا جائے اور عبرتناک سزا دی جائے تاکہ آئندہ کوئی غریب کے ساتھ جھوٹ نہ بولے اور جمہور کو کھلونا نہ بنایا جائے۔ اگر ہم اخلاقی طور پر اس قابل نہیں رہے ، غریب اور امیر کے امتیازی سلوک کو ختم نہیں کر سکتے یا ہماری ترجیحات میں نہیں یا پھر قانون میں ایسی جگہ نہیں تو پلیز ایک کام ضرور کریں کی ایک دیواربنائی جائے جس کا نام ’’دیوارِ غربت ‘‘ رکھا جائے ، ریاست کے تمام غریب لوگ اس دیوار کے پاربسا دیئے جائیں تاکہ ان کا سایہ امیر نسل پر نہ پڑ جائے اور وہاں کوئی قانون نہ ہو، جب الیکشن کی ضرورت پڑے تو صرف ان کو یہ کہا دیا جائے کہ اس بار یہ دیوار گرا دی جائے گی ، پھر خاموشی سے سب ووٹ کاسٹ ہو جائیں گے اور دیوارِ غربت نہیں گرے گی۔ہر الیکشن پر پھر یہی نعرہ کافی ہے۔ضرور سوچیں شاید ہماری سوچ بدل جائے ۔ شکریہ۔
 

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173863 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More