کہتے ہیں کہ شوق کا کوئی مول نہیں ہوتا چاہے وہ کھانے
پینے کی اشیاء کا ہو یا کسی بھی چیز کا۔ لیکن کچھ شوق ایسے بھی ہوتے ہیں جو
انسانی صحت پر منفی اثرات مرتب کر دیتے ہیں۔اسی طرح آج کے اس دور میں بہت
سارے افراد سافٹ ڈرنکس کے دیوانے پائے جاتے ہیں۔ایک وقت تھا جب کسی سے حال
پوچھتے تھے تو بتانے والا کہتا تھا کہ شکر ہے اور آج اگر کسی سے حال پوچھیں
تو جواب ملتا ہے کہ شوگر ہے۔
انسانی دماغ ہمیشہ سے ہی مٹھاس کا دیوانہ رہا ہے مگر ماضی میں کبھی ہمارے
آباء و اجداد کو بہت زیادہ چینی اور کیلوریز سے بھرپور کولڈ ڈرنکس جیسی چیز
نہیں ملی تھی اس لئے وہ آج جسمانی لحاظ سے ہم سے بھی زیادہ بہتر ہیں۔لیکن
آج دنیا میں پانی کے بعد سب سے زیادہ جو مشروب پیا جاتا ہے ان میں بوتلیں
شامل ہیں جن کو سافٹ ڈرنکس بھی کیا جاتا ہے۔
اس کی ایجاد کا سہرا ایک کیمسٹ جان پمبرٹن کو جاتا ہے جس نے 1886میں
کاربونیٹر واٹر کو کیمیکل کا رنگ اور فلیور دے کر سافٹ ڈرنک تیار کی۔
کاربونیٹیڈ واٹراس چمکتے ہوئے پانی کو کہتے ہیں جس میں پریشر کے ساتھ کاربن
ڈائی آکسائیڈ کا لیکوڈملایا جاتاہے اور یوں 1916تک اسے ایک میڈیا مہم کے
ذریعے 'Delicious and Healthy'کا سلوگن مل گیااور اس کے بعد سافٹ ڈرنک کو
وہ سپیڈ ملی کہ اس نے پلٹ کر نہ دیکھا۔
حال ہی میں چوہوں پر ایک بڑا ہی دلچسپ تجربہ کیا گیاجہاں انہیں سات دن
مسلسل سافٹ ڈرنکس پلائی گئیں اور آٹھویں دن ان چوہوں کے دانت خراب ہو
گئے۔ماہرین کا کہناہے کہ ان سافٹ ڈنکس میں ایک چیز کیفین شامل ہوتی ہے جس
کے شروع میں تو جسم میں چستی پیدا ہوتی ہے پھر آہستہ آہستہ سستی ہونا شروع
ہوجاتی ہے۔
ایک اور تجربے میں چوہوں کو میٹھے مشروبات کے پانچ کین کے برابر مشروب
استعمال کرایا گیا اور یہ معلوم ہوا کہ ان کے دماغ میں زہریلے اجزاء کا
اضافہ ہوگیا جس سے عندیہ ملا کہ یہ ڈرنکس الزائمر کا خطرہ بھی بڑھا سکتی
ہیں۔
کیلیفورنیا یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق جو افراد روزانہ کولڈ ڈرنکس کے
دو کین نوش کرتے ہیں ان کا بڑھاپے کے جانب سفر کی رفتار اس مشروب سے دور
رہنے والے لوگوں کے مقابلے دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔گزشتہ برس کی اس تحقیق کے
مطابق کولڈ ڈرنکس کے شوقین افراد کے ڈی این اے میں تبدیلیاں آتی ہیں اور وہ
حقیقی عمر سے لگ بھگ پانچ سال بڑے نظر آنے لگتے ہیں جس کی وجہ اس مشروب کا
ڈی این اے میں موجود ٹیلومیئرز پر اثر انداز ہوناہے جن کی مقدار میں کمی
آنے سے خلیات کی توڑ پھوڑ کی مرمت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں اور بڑھاپے کی
جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔
بہت زیادہ مقدار میں کولا مشروبات کا استعمال ہڈیوں کی مضبوطی پر بھی اثر
انداز ہوتا ہے۔ بوسٹن کی ٹفٹس یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق ان مشروبات میں
چونکہ فاسفورس ایسڈ کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے جس سے ہڈیوں کی کثافت کم
ہوکر ان میں کمزوری بڑھنے لگتی ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ جسم میں
فاسفورس اور کیلشیئم کا قدرتی توازن ہوتا ہے تاہم ان مشروبات کے نتیجے میں
فاسفورس کی مقدار بڑھنے پر توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ہڈیوں سے کیلشیئم
کا اخراج ہوتا ہے جو ان کے ٹوٹنے کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
کولڈ ڈرنکس میں شامل کاربونیٹ ایسڈ یا عام الفاظ میں گیس معدے میں جاکر ہوا
بھر جانے کا باعث بنتا ہے جس سے پیٹ درد کی شکایت پیدا ہوجاتی ہے۔لندن کے
رائل فری ہاسپٹل کی ایک تحقیق کے مطابق اگر آپ پہلے ہی پیٹ میں گیس بھرنے
کے مریض ہیں تو ان مشروبات سے جسم کا حصہ بننے والی اضافی گیس صورتحال
بدترین بنادیتی ہے، اس کے علاوہ ان مشروبات سے آنتوں کے امراض کا خطرہ بھی
بڑھتا ہے جس سے نظام ہاضمے کے مسائل ابھر آتے ہیں۔
اس صورتحال پر قابو پانے کے لئے پنجاب فوڈ اتھارٹی نے تمام سکولز اور کالجز
میں کولڈ ڈرنکس پر پابندی لگا دی ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ ایک اور ٹیم تشکیل دے جو سکولز اور کالجز میں جا کر
بچوں کو کولڈ ڈرنکس کے مضر اثرات سے خبردار کرے لیکن ساتھ ہی ساتھ ہمیں بھی
اپنی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور ان تمام سافٹ ڈرنکس کے استعمال کو
ترک کرنا ہوگا جو انسانی صحت کے لئے نقصان دہ ہیں تاکہ ایک صحت مند معاشرہ
تشکیل پا سکے اور پاکستان کا مستقبل مضبوط کندھوں پر منتقل ہوسکے۔ |