بسم اﷲ الرحمن الرحیم
حبیب اﷲ قمر
سعودی عرب میں اسلامی فوجی اتحادکی ایک ماہ تک جاری رہنے والے مشقیں اختتام
پذیر ہو گئی ہیں۔ 24ملکوں کی افواج کی جانب سے مشترکہ مشقوں کو گلف
شیلڈ۔1(خلیج کی ڈھال)کا نام دیا گیا۔ ان مشقوں کو مختلف ممالک کی افواج،
ہتھیاروں کے نظام اور پیشہ وارانہ مہم جوئی کے حوالہ سے خطہ کی سب سے بڑی
فوجی مشق سمجھا جاتا ہے جس میں پاکستان کی جانب سے اسپیشل سروسز گروپ (ایس
ایس جی) کے کمانڈوز، پاک فضائیہ کے سی ون 30 اور جے ایف 17تھنڈر لڑاکا
طیاروں نے حصہ لیا۔فوجی مشقوں کے اختتام پر ایک پروقار تقریب کا انعقاد کیا
گیا جس میں پاکستانی وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمر جاوید
باجوہ اور وزیر دفاع خرم دستگیر نے شرکت کی۔ تقریب میں اسلامی فوجی اتحاد
کے سربراہ جنرل (ر) راحیل شریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے ساتھ نشست
پر بنگلہ دیش کی وزیر اعظم حسینہ واجد بھی موجود تھیں۔مشقوں میں شریک تمام
ملکوں کے سربراہان اور عہدیداران نے اسلامی فوجی اتحاد میں شامل مختلف
ملکوں کی افواج کی بہترین کارکردگی کو سراہا۔ سعودی عرب کے ساحلی شہر ظہران
میں ہونیو الی ان مشقوں کا مقصدخطے میں امن و امان کو برقرار رکھنا اور
دوست ممالک کے عسکری تجربات سے فائدہ اٹھانا تھا۔ پاکستانی وزیر اعظم اور
آرمی چیف نے اپنے دورہ کے دوران خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان بن
عبدالعزیز سے ملاقات بھی کی ہے ۔
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے بنائے گئے اسلامی ملکوں کے فوجی اتحاد کی سعودی
عرب میں ہونے والی مشقوں کا دنیا بھر کے میڈیا میں شہ سرخیوں میں تذکرہ کیا
جارہا ہے۔ مشقوں میں شریک فوجیوں نے جس شاندار اور اعلیٰ کارکردگی کا
مظاہرہ کیا ہے اس پر بعض ایسے ملکوں کو سخت پریشانی لاحق ہو گئی ہے جو نہ
تو مسلم امہ میں اتحادویکجہتی کا ماحول دیکھنا چاہتے ہیں اور نہ ہی انہیں
مسلمانوں ملکوں کی افواج کے مابین باہمی تعاون کی فضا پیدا ہونابرداشت ہے۔
سعودی وزارت دفاع کی زیرنگرانی پہلی مشترکہ فوجی مشق 2016 میں حفر الباطن
ریجن میں’’ رعدالشمال‘‘ کے نام سے کی گئی تھی اور اس کے بعد سے یہ سلسلہ
مسلسل جاری ہے۔ ظہران میں ہونے والی حالیہ مشقوں میں بھاری اور ہلکے
ہتھیاروں کا استعمال انتہائی مہارت سے کیا گیا جبکہ اسپیشل کمانڈوز کے
دستوں نے فرضی دشمنوں سے علاقے کو خالی کرانے کا مظاہرہ کیا۔ مشترکہ فضائیہ
نے فرضی دشمن کے راکٹ لانچنگ پیڈ کو تباہ کرنے اور دشمن کے ائیرڈیفنس سسٹم
کو ناکارہ بنانے کا عملی نمونہ بھی پیش کیا۔ مشقوں سے قبل مشترکہ گلف
شیلڈ-1 کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل عبداﷲ الصبائی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے
کہا تھا کہ ان مشقوں کے خدو خال میں فوجی آپریشن اورحربی فوجی آپریشن جیسی
دو اقسام ہیں جس میں دشمن کے خلاف ساحلی دفاعی حملوں کے علاوہ باقاعدہ جنگی
حربی تیاریاں اور یرغمال بنانے والے عناصر سے دیہات اور ساحلی و صنعتی
تنصیبات کو واگزار کرنے کی مشقیں بھی شامل ہیں۔سعودی عرب میں ہونے والی ان
مشقوں کا بڑا مقصد شریک ممالک کے مابین فوجی تعاون بڑھانا اور اس کے علاوہ
اجتماعی سلامتی، اتحاد اور مشترکہ مقاصد کی سوچ کو فروغ دینا بنیاہے۔مشقوں
کی اختتامی تقریب میں فوجی دستوں کی پریڈ ہو ئی جس میں شاہ سلمان بن
عبدالعزیز دیگر ممالک کے حکومتی قائدین، وزرائے دفاع و خارجہ اورمختلف مسلح
افواج کے سربراہان کا شاندار استقبال کیا گیا۔ مشترکہ فوجی مشقوں میں شریک
فوجیوں نے غیر معمولی مہارت کا مظاہر ہ کیا جس میں خصوصی طور پر اسپیشل
سروسز گروپ کمانڈوز کی جانب سے پیش کی جانے والی کیموفلاج کی ٹیکنیک خاص
اہمیت کی حامل رہی جس میں کمانڈوز نے خود کو اس طرح ماحول کے ساتھ ہم آہنگ
کر لیا تھا کہ انہیں دیکھنے پر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ وہ کوئی انسان نہیں
بلکہ جھاڑی یا پہاڑ ی تودہ وغیر ہ ہیں۔یہ مشقیں دیکھ کر تمام ملکوں کے
سربراہان اور فوجی کمانڈروں کی خوشی دیکھنے کے لائق تھی۔ یہ مشقیں اس بات
کا واضح پیغام ہیں کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک تمامتر چیلنجوں سے
نمٹنے اور خطہ کا امن و استحکام برقرار رکھنے کیلئے ایک ہی صف میں کھڑے
ہیں۔سعودی عرب کی زیر قیادت جب مسلم ممالک کا اتحاد تشکیل دیا گیا تو اس
وقت اس بات کا فیصلہ کیا گیا تھا کہ تکفیری گروہوں اور دہشت گرد تنظیموں سے
نمٹنے اور دہشت گردی کی بیخ کنی کیلئے مشترکہ طور پر عملی اقدامات کئے
جائیں گے۔ سعودی دارالحکومت الریاض میں ہونیو الے مسلم ممالک کے اجلاس میں
متفقہ طور پر قرار دیا گیا تھا کہ انسانیت کیخلاف وحشیانہ جرائم اور فساد
فی الارض ناقابل معافی جرائم ہیں جو نہ صرف نسل انسانی کی تباہی کا باعث بن
رہے ہیں بلکہ بنیادی حقوق کی پامالی اور انسانی عزت و احترام کیلئے بھی
انتہائی خطرناک ہیں۔اس لئے سعودی عرب کی قیادت میں دہشت گردی کے ناسور کو
جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کی جائے گی۔ اس اتحاد
کے تشکیل پانے کے بعد سے مسلم ممالک میں تکفیر اور خارجیت کے فتنہ سے نمٹنے
کیلئے پہلے سے زیادہ تحرک دیکھنے میں آیا ہے۔ویسے بھی اب سبھی یہ بات محسوس
کر رہے ہیں کہ دہشت گردی صرف ایک ملک کا معاملہ نہیں رہا بلکہ یہ ایک گلوبل
مسئلہ بن چکا ہے جس پر قابو پانے کیلئے سب کو مل کر کردار ادا کرنے کی
ضرورت ہے۔مسلم ملکوں میں حکمرانوں اور افواج کے خلاف حملوں کو جائز
قراردینے والے جتنے گروہ کھڑے کئے گئے وہ فلسطین، کشمیرا ور دنیا کے دیگر
خطے جہاں مسلمانوں پر بے پناہ مظالم ڈھائے جارہے ہیں وہاں جا کر جہاد کرنا
درست نہیں سمجھتے لیکن اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں پر کفرے کے فتوے لگا کر ان
کا خون بہانا افضل جہاد سمجھتے ہیں۔ یہ گمراہی کی بدترین شکل ہے اور ایسے
لوگوں کے متعلق شریعت میں واضح احادیث موجود ہیں جن میں فتنہ تکفیر اور
خارجیت کا شکار گمراہ لوگوں کی واضح نشانیاں بیان کی گئی ہیں۔ ایسی صورتحال
میں مسلمانوں بالخصوص نوجوان نسل کو دشمنان اسلام کی سازشوں کے آلہ کار
گروہوں اور ان کے گمراہ کن نظریات سے آگاہ کرنا بہت ضروری ہے تاکہ انہیں
عصر حاضر کے سب سے بڑے فتنہ سے مکمل آگاہی ہو اور وہ دشمن کی سازشوں کا
شکار ہونے سے بچ سکیں ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان ، سعودی عرب اور دیگر مسلم
ملکوں کے مابین دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک دوسرے سے تعان بھی بہت اہمیت
رکھتا ہے۔
پاک سعودی افواج کی ماضی میں بھی مشترکہ مشقیں ہوتی رہی ہیں جن کے دونوں
ملکوں کو یقینی طور پر بہت زیادہ فوائد ہوئے ہیں تاہم اس وقت سعودی عرب میں
جو مشقیں کی گئی ہیں ان میں 24ملکوں کی افواج کی شرکت بہت زیادہ اہمیت کی
حامل ہیں۔ ملکوں کی تعدادر مختلف اقسام کے فوجی ساز وسامان کے علاوہ جدید
ترین ہتھیاروں اور اسلحے کے لحاظ سے یہ اپنی نوعیت کی سب سے بڑی اور مفرد
جنگی مشقیں ہیں۔بعض ممالک کی جانب سے سعودی عرب کیخلاف یہ پروپیگنڈا بھی
کیاجاتا رہا ہے کہ داعش کو مبینہ طور پراس کی سپورٹ حاصل ہے لیکن میں
سمجھتاہوں کہ اس وقت دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے سعودی عرب کی قیادت میں قائم
اتحاد عملی طور پر جو کوششیں کر رہا ہے اور حال ہی میں جو جنگی مشقیں کی
گئی ہیں وہ اس حوالہ سے ان کے بے بنیاد پروپیگنڈا کا منہ توڑ جواب
ہے۔بہرحال سعودی عرب میں حالیہ مشقوں کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ اسلامی ملک
دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے ایک دوسرے کے تجربات سے فائدہ اٹھاسکیں اور میں
سمجھتاہوں کہ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے۔ پاکستان ان مشقوں میں بھرپور
انداز میں شریک ہوا ہے۔پاکستان اور سعودی عرب دونوں ملکوں کے شروع سے گہرے
اور برادارانہ تعلقات ہیں جو دن بدن مزید مستحکم ہو رہے ہیں۔ جب سے دہشت
گردی کے فتنہ نے سر اٹھانا شروع کیا ہے دونوں ملکوں کے تربیت دینے والے
افسر ایک دوسرے کے ملکوں میں آتے جاتے رہتے ہیں اور ان کی باہمی جنگی مشقیں
بھی جاری رہتی ہیں۔ پاکستان نے اﷲ کے فضل و کرم سے دہشت گردوں کے خلاف بڑی
کامیابیاں حاصل کی ہیں۔سعودی عر ب اور دیگر مسلم ممالک اگر پاکستانی سپیشل
فورسز کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے ہیں تو یہ پوری مسلم امہ کے دل کی آواز ہے
اور پاکستان ان شاء اﷲ ان کے ساتھ ہر قسم کاتعاون جاری رکھے گا۔حقائق کا
جائزہ لیا جائے تو اس وقت صورتحال یہ ہے کہ دشمنان اسلام متحد ہو کرفلسطین،
کشمیراور شام میں بے گناہ مسلمانوں کا خون بہانے والوں کی مکمل پشت پناہی
کر رہے ہیں اور دوسری جانب پاکستان، سعودی عرب اور دیگر مسلم ملکوں کو منظم
منصوبہ بندی کے تحت عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ان
حالات میں ضرورت اس امرکی ہے کہ مسلمان ملکوں کے ذمہ داران بھی بیرونی
سازشیں ناکام بنانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اورتکفیری گروہوں
کے خلاف مشترکہ کارروائیاں کی جائیں تاکہ امت مسلمہ کو اس فتنہ سے بچایا جا
سکے۔دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے 24ملکوں کی افواج کی جانب سے جن مشترکہ مشقوں
کا انعقاد کیا گیا ہے یہ سلسلہ اب جاری رہنا چاہیے۔ یمن میں حوثی باغیوں کی
جانب سے سعودی عرب کو نقصانات سے دوچار کرنے کیلئے آئے دن بیلسٹک حملے کئے
جارہے ہیں۔ مسلمان ملکوں کو باہم متحد ہو کر حوثیوں کی دہشت گردی کو بھی
کچلنا چاہیے تاکہ سرزمین حرمین شریفین کے امن کو محفوظ بنایا جاسکے۔ |