موجودہ بجٹ الفاظ کا گورکھ دھندہ ہے ۔عام آدمی کی حالت
بہتر بنانے میں موجودہ حکومت ناکام رہی۔افراطِ زر میں اضافہ ہوگا اور غریب
دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے ہمیشہ کی طرح ٹکریں مارتا رہے گا۔ پاکستان
کی سمال کاٹیج انڈسٹری ہی بے روزگاری کا خاتمہ کر سکتی ہے لیکن پاکستان میں
ٹیکسوں کی شرح، انرجی بحران اور حکومتی اداروں کی لوٹ مار جن میں ایف بی آر
سر فہرست ہے بہت بڑی رکاوٹیں ہیں۔ حکومت ٹیکس چوری کا رونا تور وتی ہے لیکن
غریب آدمی سے ہر پروڈکٹ کے ساتھ ساتھ ٹیکس اور بجلی گیس پانی پر بھی ٹیکس
وصول کر رہی ہے۔ ڈار کے بعد مفتاح اسماعیل کا پیش کردہ بجٹ امیروں کا بجٹ
ہے۔حکومت نے غریب عوام کو منافع خور تاجروں اور کرپٹ حکومتی اداروں کے رحم
و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔پاکستانی سیاستدان صرف الیکشن جیتنے کی بات کرتے
ہیں۔ اُن کو عوام سے کوئی سرو کار نہیں حکومت بجلی پر لیا جانے والے ہر قسم
کے ٹیکس ختم کرئے۔ کھانے پینے کی اشیاء پر خصوصی سبسڈی دے۔ زرداری حکومت کے
بعد نواز کا موجودہ پانچ سال کا دور بھی عوام کے لیے کوئی بہتری نہیں لایا۔
ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ اونٹ کے مُنہ میں زیرئے کے مترادف
ہے۔ملازمیں کی تنخواہوں میں سو فی صد اضافہ کیا جائے۔ن لیگ کی موجودہ حکومت
اپنے آخری بجٹ میں عوام کو سزا دے رہی ہے کہ نواز شریف کو نا اہل کیوں کیا
گیا۔جس بجٹ پر حکومت عمل درآمد ہی نہیں کرواسکتی اُس کے اہداف بنانے کا کیا
فائدہ۔قارئین ہم بجٹ کے اہداف کا جائزہ لیتے ہیں۔وفاقی حکومت نے آئندہ مالی
سال 2018-19کا 5 ہزار 661 ارب روپے سے زائد کا مجموعی حجم کا 18 کھرب 90
ارب روپے کے خسارے کا وفاقی بجٹ قومی اسمبلی میں پیش کردیا جس کے تحت دفاع
کیلئے 1100 ارب روپے،بنیادی صحت کے لیے 37 ارب اور ہائیر ایجوکیشن کے لیے
57 ارب روپے مختص کردیئے گئے، ترقیاتی پروگرام کا حجم ایک ہزار 152 ارب
اورایک کروڑ روپے ہوگا،سول،فوجی ملازمین کی تنخواہ میں 10 فیصد ایڈہاک
ریلیف الا?نس جبکہ تمام پنشنرز کے لئے 10 فیصد،ہاوس رینٹ الاونس میں50 فیصد
اضافہ کردیا گیا، پنشن کی کم سے کم حد 6000 سے بڑھا کر10ہزار روپے، فیملی
پنشن کو 4500 روپے سے بڑھا کر 7500 اور 75 سال سے زائد عمر کے پنشنرز کے
کیلئے کم از کم پنشن 15 ہزار روپے مقرر کردی گئی،، نان فائلرکمپنی پرود
ہولڈنگ ٹیکس کی شرح 7 فیصد سے بڑھا کر 8 فیصد، 4 لاکھ سے 8 لاکھ آمدن پر
ایک ہزار روپے انکم ٹیکس عائد ہوگا، 8 لاکھ سے 12 لاکھ آمدن پر 2 ہزار روپے
برائے نام انکم ٹیکس عائد ہوگا، نان فائلرزکو40 لاکھ روپے سے زائد مالیت کی
جائیداد خریدنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایل این جی کی درآمد پر 3 فیصد ویلیو
ایڈیشن ٹیکس ختم، ایل این جی کی درآمد، آرایل این جی کی سپلائی پر17 فیصد
سیلزٹیکس کم کردیا گیا،سگریٹ کی قیمتوں میں ایک بار پھر اضافہ، ہر قسم کی
کھادوں پر سیلز ٹیکس کی شرح 3 فیصد تک کم،قرآن پاک کی طباعت میں استعمال
ہونے والے کاغذ پر سیلز ٹیکس اورکسٹم ڈیوٹی میں چھوٹ،الیکٹرک گاڑیوں پر
کسٹم میں کمی،نظر کی عینکیں سستی،زراعت، ڈیری اور پولٹری کے شعبوں میں کسٹم
ڈیوٹی میں 5فیصد کمی،فلم کے منصوبوں پر 5سال تک انکم ٹیکس پر50 فیصد چھوٹ
دیدی گئی۔ جبکہ وزیر خزانہ نے کہا کہ بجٹ کی منظوری کے بغیر حکومت ایک قدم
بھی نہیں چل سکتی۔ حکومت کو تباہ شدہ معیشت ورثے میں ملی تھی، ملک میں
سرمایہ کاری اور ترقی کم تھی، گزشتہ حکومت کے پانچ سالہ دور میں ترقیاتی
اخراجات میں 230 فیصد اضافہ کیا گیا۔ حکومت نے مالیاتی خسارہ 5.5 فی صد تک
محدود رکھا ہے جب کہ ترقی کی شرح نمومیں مسلسل اضافہ ہوا۔ یہ بجٹ عوام کی
امنگوں کا عکاس ہے۔ ماہ برآمدات میں 24فیصد اضافہ دیکھا گیا، معاشی اصلاحات
کے نتیجے میں اسٹاک مارکیٹ کا سرمایہ 100 ارب ڈالر ہو گیا،12لاکھ سالانہ
آمدن والے ٹیکس سے مستثنیٰ ہوں گے، افراط زر کی شرح 6فیصد سے کم رکھنے کا
ہدف ہے، بی آئی ایس پی کیلئے 125ارب روپے مختص کئے گئے، ٹیکس وصولیوں کیلئے
4435ارب روپے رکھے گئے ہیں، وزیراعظم یوتھ پروگرام کیلئے 10 ارب روپے رکھے
گئے ہیں، سرکاری شعبہ کے ترقیاتی پروگرام کیلئے 800 ارب روپے رکھے گئے ہیں،
بجٹ خسارہ 4.9 فیصد تک لانے کا ہدف ہے، زرعی مشینری پر جی ایس ٹی 7فیصد سے
کم ہو کر 5فیصد کر دی گئی ہے، اقتصادی سرح نمو کا ہدف 6.2فیصد مقرر کیا گیا
ہے۔ مفتاح اسماعیل نے کہا کہ این ایف سی کے تحت صوبوں کو 2500ارب روپے
منتخب کئے گئے ہیں، کھاد پر جی ایس ٹی 2فیصد تک لا رہے ہیں، کھاد پر سیلز
ٹیکس کی شرح 3فیصد کم کی گئی ہے۔ زرعی شعبہ ہماری معیشت میں اہم بنیاد ہے،
حالیہ سال زرعی شعبہ میں ترقی کی شرح 3.8فیصد رہی جو کہ گزشتہ 18سالوں کی
بلند ترین شرح ہے، تمام بڑی فصلوں بشمول کپاس، چاول اور گنا کی پیداوار میں
واضح اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، یہ بہتری حکومت کے گزشتہ پانچ بجٹ میں درست
اور مناسب فیصلوں کی بدولت آئی، اس کے علاوہ سال 2015-16 میں میاں نواز
شریف نے خصوصی کسان پیکج کا اعلان کیا تھا، اس پیکج کے تحت کھادوں اور زرعی
ادویات کی قیمتیں کم کی گئی تھیں اور زرعی قرضوں کی لاگت میں کمی اور چاول
اور کپاس کے کاشتکاروں کی مالی مدد کی گئی تھی۔صنعتی شعبہ بارے وزیر خزانہ
نے کہا کہ صنعتی پیداوار میں اس سال 5.8فیصد اضافہ ہوا ہے، ترقی میں اضافے
کی شرح پچھلے دس سالوں میں سب سے زیادہ ہے، صنعتی شعبہ میں یہ ترقی تاریخ
کی کم ترین شرح سود اور کئی سالوں کی لوڈشیڈنگ اور اندھیروں کے خاتمے اور
بجلی اور گیس کی متواتر فراہمی سے ممکن ہوئی ہے، آج صحت مند صنعتی شعبہ
روزگار کے لاکھوں اضافی مواقع فراہم کر رہا ہے۔ خدمات کے حوالے سے وزیر
خزانہ نے کہا کہ سروسز یعنی خدمات میں بینکنگ ٹرانسپورٹیشن اور ریٹیل وغیرہ
کے شعبے شامل ہیں، اس سال اس شعبے میں ترقی کی شرح 6.4فیصد رہی ہے، اب آپ
کو یہ جان کر حیرت نہیں ہو گی کہ یہ بھی اس دہائی کی بہترین کارکردگی
ہے۔سرمایہ کاری میں اضافے کے حوالے سے بتایا گیا کہ بہتر طرز حکومت،
کاروبار دوست پالیسیوں اور سیکیورٹی حالات میں بہتری کی وجہ سے سرمایہ کار
پاکستان کی طرف متوجہ ہو رہے ۔ متزکرہ بالا اعداد و شمار نمونے کے طور پر
پیش کیے گئے ہیں۔ اِن الفاظ کو کیا معنی پہنائے جاسکتے ہیں۔ حقیقت حال وہی
ہے کہ وہی ہے چال بے ڈھنگی جو پہلے تو سو اب بھی ہیں۔ الیکشن سے پہلے پورئے
سال کا بجٹ پیش کیے جانے کا مطلب تو یہ ہی ہے کہ نہ حکومت ہوگی نہ عمل
کروانا پڑئے گا۔ اِس لیے الفاظ کی حد تک بلند و بانگ دعوئے کیے گئے ہیں
لیکن اِس ملک کے غریب عوام صاف پانی کے لیے ترس رہے ہیں۔ ستر فی صد عوام
خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ بے روزگاری عروج پر ہے۔ انرجی
بحران کا خاتمہ نہیں ہوسکا۔امن و امان کی صورتھال انتہائی مخدوش ہے۔ ملک
میں افراطِ زر کی حقیقت سب کے سامنے ہے کہ مہنگائی کی شرح انہتائی بلند ہے۔
|