کیا ہم ایک احسان فراموش اور محسن کش قوم تو نہیں؟
جب پیٹ میں مروڑ بھی اٹھے تو گالی ”اسٹیبلشمنٹ“ کو نکالتے ہیں، کہ جس سے
مراد فوج اور آئی ایس آئی ہے۔
وہی فوج اور آئی ایس آئی کہ جس کے سینکڑوں نوجوان ویران راستوں میں، تاریک
راہوں میں، بغیر کسی کے جانے، خاموشی سے اس پاک سرزمین پر قربان ہوجاتے
ہیں۔
”فوج 80% بجٹ کھا جاتی ہے۔“
”اسٹیبلشمنٹ جمہوریت کو چلنے نہیں دیتی۔“
” ’ڈیپ سٹیٹ‘ ملک کی جڑیں کھوکھلا کررہی ہے۔“
یہ جھوٹ، یہ خرافات، یہ طنز، یہ تہمتیں، ان سرفروشوں اور جانثاروں پر کہ جن
کی بدولت آج یہ پا ک سرزمین سلامت ہے، کہ جن کی برکت سے ہمارے گھر آباد
ہیں، ہماری آبروئیں محفوظ ہیں، ہمارا وطن سلامت ہے۔
جائیں، جا کر شام، عراق اور لیبیا کے مسلمانوں سے پوچھیں کہ کیا حال ہے
انکا؟؟؟
اس سے زیادہ بے شرمی، بے حیائی اور بے غیرتی کی کوئی بات ہوسکتی ہے کہ کوئی
شخص یہ کہے کہ پاک فوج نے قبائلی علاقوں میں تباہی مچا دی؟
اگر بھارتی فوج لاہور میں داخل ہوجائے تو پاک فوج کیا کرے؟
لاہور کی سڑکوں اور عمارتوں کو بچانے کیلئے ،
لاہور پر ہندوستان کا قبضہ قبول کرلے؟
گالی اس حرامخور دشمن کو کیوں نہیں دیتے، اپنی فوج کو کیوں دیتے ہو؟
قبائلی علاقے تو مکمل طور پر خوارج کے ہاتھوں یرغمال بن چکے تھے۔
سوات کے خونی چوک میں ہر روز لاشیں لٹکتی تھیں۔
تمام ایجنسیز میں قبائلی سرداروں اور ملکوں کو قتل کردیا گیا اور خوارج کی
عدالتیں لگتیں۔
سینکڑوں لوگ جمع ہو کر فوجیوں کے سر کٹنے کا تماشا دیکھتے، اور جو دیکھنے
سے انکار کرتا، پھر اس کا سر بھی کٹتا۔ پھر بھی گالی صرف فوج کو ہی۔۔۔؟؟؟
جب دشمن ہمارے شہروں اور گھروں میں گھس آئے گا، تو شہر اور گھر تباہ ہونگے۔
یہ پوری قوم کا سانجھا دکھ ہے۔
اس کا الزام پاک فوج کو دینے والا کوئی ناجائز اولاد ہی ہوسکتا ہے۔
اللہ اور اسکے رسولﷺ سے پیار کرنے والا ،
پاکستان سے پیار کرنے والا کبھی بھی ہونیوالی تباہی کا ذمہ دار اپنے
محافظوں کو نہیں ٹھہرائے گا۔
یاد رکھیں! کہ پاک فوج اپنے ہی شہروں کے درمیان، اپنے ہی لوگوں کے بیچ میں
جنگ لڑنے کیلئے ذہنی طور پر تیار نہیں تھی۔
اپنے ملک میں تو فوج محفوظ ہوتی ہے،
لیکن جب اپنے ہی بازاروں میں اس پر خودکش حملے ہونا شروع ہوجائیں تو ایسے
میں سختیاں کرنی پڑتی ہیں، پابندیاں لگانی پڑتی ہیں،چیک پوسٹیں بنانی پڑتی
ہیں۔ یہ امن بڑی قربانیوں سے قائم ہوا ہے، اسے ضائع نہ کریں۔۔۔
پاک فوج کے جوان بھی ہمارے اپنے بچے ہیں کہ جن میں اکثریت دیہاتی علاقوں سے
ہے۔
جب خودکش حملے ہورہے ہوں، بازاروں میں دوست اور دشمن کی پہچان نہ ہو، تو
اکثر ہوتا ہے کہ افراتفری میں دہشت گردوں کے شک میں عام افراد سے بھی سختی
ہوجاتی ہے۔
حالات کی نزاکت کو سمجھیں، باﺅلوں کی طرح فوج پر حملے نہ شروع کردیں۔ وہ
بھی ہمارے بچے ہیں۔
خود سوچیں کہ اگر آج فوج کو پورے ملک سے سمیٹ کر صرف چھاﺅنیوں میں محدود
کردیا جائے، تمام چیک پوسٹیں ہٹا دی جائیں،
تو کیا یہ قوم دو دن بھی اپنے پیروں پر کھڑی رہ سکے گی؟
کیا افغانستان سے آنے والی دہشت گردی ختم ہوگی؟
کیا خوارج کا خاتمہ ہوگیا؟
کیا جنگ ختم ہوگئی؟
شام کے حالات سے عبرت پکڑیں۔
وہاں بھی سب سے پہلے قومی فوج کے خلاف پراپیگنڈہ کیا گیا، دہشت گرد گروہ
تیار کیے گئے، بغاوت کروائی گئی
اور پھر اس کے بعد آج ایک کروڑ شامی ملک چھوڑ چکے ہیں یا اندر مہاجر ہیں،
50 لاکھ مارے جاچکے ہیں، پورا ملک کھنڈر بن چکا ہے۔
کیا پاکستان میں بھی آپ یہ چاہتے ہیں۔۔۔۔؟
اچھی طرح سمجھ لیں، کوئی بھی تحریک چاہے وہ حقوق کے نام پر ہو یا پانی کے
نام پر، یا نئے صوبے کے نام پر، اگر اس کی حمایت ہمارے بدترین دشمن کررہے
ہیں
اور یہ پاک فوج کے خلاف آواز اٹھارہی ہے، تو یہ غدار، ملک دشمن اور ایمان
فروش تحریک ہوگی۔ اگر اس کا حصہ بنیں گے، تو اس کے ساتھ مارے جائیں گے اور
پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔
آنے والے دور میں جنگیں ہمارے شہروں میں ہونگی کہ جیسے آج بھی ہورہی ہیں۔
فوج کیلئے یہ مشکل ترین جنگ ہے کہ جب ہجوم آبادی میں اپنوں اور دہشت گردوں
میں فرق کرنا ناممکن ہوتا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ پر بھی سختی ہو، مگر ایمان کا تقاضا ہے کہ اپنی فوج کی
مشکلات کو سمجھیں اور اس کو گالی دینے کے بجائے اپنے محافظوں کی عزت کریں۔
بہت بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلباءمیں یہ فیشن بن چکا ہے
کہ فوج کے خلاف اٹھنے والی ہر تحریک کا حصہ بنا جائے۔
اللہ سے ڈرو۔
یاد رکھو! جس ملک میں اپنی فوج کو رسواءکیا جاتا ہے، وہاں بہت جلد دشمن کی
فوجیں حکومت کرتی ہیں۔ |