گُذشتہ سے پیوستہ
عمران میاں آج ہَم نے آپ سے وعدہ کیا تھا نا؟ کہ آپکو ایک خُوشخبری سُنائیں
گے، تُو سُنو آج وہ مہ جبیں پری اندر موجود ہے، جاؤ اور جاکر مِل لو اُس
سے۔ ہماری جانب سے صرف اور صرف مُلاقات کی اِجازت ہے یہ بات مت بھولنا۔ اور
اُسکی آنکھوں میں ہرگز مت جھانکنا۔ یہ کہتے ہُوئے بابا وقاص عمران کو کمرے
کے دروازے پر چُھوڑ کر پَلٹ گئے۔
عمران جونہی کمرے میں داخل ہوا تو حیرت سے اُسکی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ
گئیں۔ کیونکہ کمرہ بالکل خالی تھا وہاں پَری تو کُجا ایک چڑیا کا بچّہ بھی
موجود نہیں تھا کچھ لمحے اضطراب کی حالت میں عمران خالی دیواروں کو گھورتا
رہا بے بَسی اور بے کسی عمران کے بُشرے سے عیاں تھی بابا وقاص سے کسی گھٹیا
مذاق کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی تھی مگر جو کُچھ عمران کیساتھ ہُورہا تھا
وہ رُلانے کیلئے کافی تھا کیا بابا وقاص میرا کسی قسم کا امتحان لے رہے ہیں
یا واقعی بابا وقاص مذاق کررہے ہیں اب اِس بات کا جواب تو بابا وقاص ہی
بہتر دے سکتے تھے۔
لہٰذا عمران اِنہی سوچوں کیساتھ گو مگوں کی کیفیت سے نبرد آزما کمرے سے
باہر نِکل آیا بابا وقاص کمرے کے باہر جیسے عمران ہی کی راہ تک رہے تھے۔
عمران کو دیکھتے ہُوئے مُسکرا رہے تھے بابا کمرہ تو بالکل خالی ہے عمران نے
بابا وقاص کے پُر تبسم چہرے کی جانب دیکھتے ہُوئے کہا۔
ہاں بیٹا مُعاف کرنا دراصل میں تُمہیں بتانا بُھول گیا تھا۔ یہ کمرہ صرف
اُس مہ جبین سے ملنے کا ذریعہ ہے وہ اِس کمرے میں موجود نہیں لیکن اِس کمرے
کے دوسرے دروازے سے نِکلتے ہی تُم اپنی منزل کو پالو گے بابا وقاص ایک لمحے
کو خاموش ہُوئے تو عمران نے کہا لیکن بابا کمرے میں کوئی دوسرا دروازہ سرے
سے موجود ہی نہیں ہے تو میں اُسے عبور کیسے کروں گا؟
ایسا نہیں ہے بیٹا شاید تُمہاری نظر اُس دروازے پر نہیں پڑی چلو میں تُمہیں
وہ دروازہ دِکھا دیتا ہُوں یہ کہتے ہُوئے بابا وقاص نے پردے کو ایک جانب
کرتے ہُوئے کمرے کی شمالی دیوار کی جانب اشارہ کیا جہاں اب ایک دروازے کے
آثار نظر آرہے تھے عمران مبہوت کھڑا اُس دروازے کو دیکھ رَہا تھا جو ابھی
کچھ پَل پہلے وہاں موجود نہیں تھا لیکن اب نظر آرھا تھا عمران بابا کو
بتانا چاہتا تھا کہ ابھی کچھ دیر قبل یہ دیوار بالکل سپاٹ نظر آرہی تھی
جہاں اب وہ لکڑی کا دروازہ نظر آرہا تھا لیکن بابا وقاص نے اچانک اُس کے
شانے کو دَباتے ہُوئے کہا ، اور ہاں اندر ایک ہار کی مالا ٹیبل پر رکھی ہے
وہ اُسے پہنا دینا یہ تُمہارے اُس ہار کا بَدل ہے جو تُم اُس دِن لائے تھے
اور میری تمام نصیحتوں کو بھی فراموش نہیں کرنا کیوں اُنہی میں تُمہارا
فائدہ چُھپا ہے !
بابا وقاص نے ایک مرتبہ پھر عمران کو کمرے کے اندر دھکیل دِیا تھا عمران کو
ابھی تک یہ بات ہضم نہیں ہُوپارہی تھی کہ جِس کمرے میں ابھی لمحہ بھر پہلے
تک کوئی دوسرا دروازہ سرے سے موجود ہی نہیں تھا وہاں یکایک کیسے ایک دروازہ
نمودار ہُوگیا تھا۔
عمران اِنہی سوچوں میں گُم تھا کہ ایک بھینی بھینی سی خُوشبو عمران کے
مسامِ دِماغ کو معطر کرنے لگی عمران نے گھوم کر تمام کمرے کا ایک طائرانہ
جائزہ لیا تو اُسے محسوس ہُوا کہ وہ خُوشبو کہیں اور سے نہیں بلکہ اُسی
دروازے سے آرہی تھی اِس خُوشبو نے عمران کی تمام سوچوں کا مِحور اپنی جانب
کھیچ لیا۔ عمران نے آگے بڑھ کر دروازے کو اندر کی جانب دھکیلا تو ایک ریشمی
پردہ عمران کے چہرے کو چُھونے لگا عمران کے گُمان میں بھی نہ تھا کہ بابا
کے گھر کی شُمالی جانب کوئی مزید کمرہ بھی موجود ہُوسکتا ہے کیونکہ عمران
نے کچھ برس آرکیٹیکٹ کا کورس بھی کیا تھا جسکے سبب وہ کسی بھی مکان کو ایک
نظر باہر سے دیکھنے کے بعد اُس کے حُدود و اربع کا صحیح تجزیہ کرلیا کرتا
تھا لیکن یہاں تمام اندازے ہی غلط ثابت ہُورہے تھے۔
جونہی عمران نے اُس ریشمی پردے کو ایک جانب سمیٹا عمران پر گویا حیرتوں کے
پہاڑ ٹُوٹ پڑے کیونکہ یہ کوئی عام سا کمرہ نہیں ایک تا حَدِ وسیع کمرہ تھا
جو انتہائی خُوبصورت انداز سے سجایا گیا تھا زمین پر بیش قیمت قالین بِچھے
ہُوئے تمام کمرہ ہی انتہائی قیمتی نوادرات اور قیمتی پینٹنگز سے سَجّا ہُوا
تھا اُس وسیع وعریض کمرے کے درمیان چھت پر ایک نہایت خُوبصورت فانوس جگمگا
رہا تھا اور بالکل اُس کے نیچے ایک خُوبصورت مسہری تھی جِس پر کوئی دُلہن
شادی کا انتہائی قیمتی لباس پَہنے لمبا سا گھونگٹ نِکالے بیٹھی تھی۔
ایک مرتبہ عمران کو ایسا محسوس ہُوا جیسے وہ غلطی سے کِسی محل میں داخل
ہوگیا ہُو جہاں کوئی شہزادی اپنے ساتھی کے انتظار میں سراپا مجسم بنے بیٹھی
ہُو ۔ عمران کا جی چاہا کہ اُس کمرے سے نِکل بھاگے کیونکہ اگر کسی نے اُسے
اِس طرح شاھی حرم میں دیدہ وری سے گھومتے دیکھ لیا تو اُسکی شامت آسکتی ہے
عمران اِسی تذبذب کی حالت میں تھا کہ عمران کو اپنے کان میں بابا وقاص کی
سرگوشی سُنائی دی عمران میاں گھبراؤ مت یہ کسی شہنشاہ کا محل نہیں ہے یہاں
کسی شہزادے کا نہیں بلکہ تُمہارا انتظار ہُورہا ہے وقت ضائع نہ کرو وہ مالا
اُسے پہنا دؤ۔
عمران نے پلٹ کر دیکھا تو کمرے میں کسی کو نہ پایا بہرحال اِس سَرُوشِ غیبی
کا اتنا فائدہ ضرور ہُوا کہ عمران کا اعتماد اِس ندائے غیب کے توسل سے نہ
صرف بحال ہُوا بلکہ وہ بیگانگی کی کیفیت جو ابھی کچھ لمحات قبل تک عمران کو
خُوفزدہ کئے ہُوئے تھی یکایک خَتم ہُوگئی اور عمران نے اُس دُلہن کی مسہری
کے قریب جانے کی ہمت بھی خُود میں جمع کرلی جُوں جُوں عمران اُس دُلہن کے
نذدیک ہُوتا جارہا تھا اُسکے مسامِ دماغ سے وہ خُوشبو کی لہریں بھی مزید
توانائی کیساتھ ٹکرا رہیں تھیں۔
دُلہن نے اگرچہ روایتی دُلہنوں کا لباس زیب تن کیا ہُوا تھا البتہ تمام
عروسی لباس نگینوں اور زری کے کام سے جگمگا رہا تھا۔ تمام مسہری کو دیدہ
زیب پھولوں نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا عمران جب مزید اُس دُلہن کے نذدیک
پُہنچا تو اُسے دُلہن کے ہاتھ نظر آئے دونوں ہاتھوں پر نفیس حنائی نقوش
بنائے گئے تھے اور دونوں ہاتھوں میں سچے موتیوں سے مُزین خُوشنما کنگن اُن
ہاتھوں کو مزید سُندر بنا رہے تھے۔
عمران کی قربت کا احساس ہُوتے ہی اُس دُلہن نے اپنے پیروں کو سمیٹا تو
عمران کو اُسکے داہنے پاؤں پر وہ نِشان بھی نظر آگیا جو عمران نے بابا
وقاص کے گھر پہلی مُلاقات میں اپنی نیچی نظروں سے دیکھا تھا وہ مہ جبین
عمران کی قربت سے کسمسا رہی تھی اور اُسکے سانسوں کی تیز لے عمران کو صاف
سُنائی دے رہی تھی۔
اچانک عمران کی نظریں مسہری سے مُلحقہ تپائی پر پڑی جس پر ایک خوبصورت
پھولوں کی مالا ایک منقش چاندی کی ٹرے میں رکھی تھی یہ پھول سائز میں اگرچہ
موگرے ہی کے برابر تھے لیکن ایسے تروتازہ اور اتنے سفید کے چھوئے بِنا کوئی
بھی اُنہیں اصل ماننے کو تیار نہ ہُو عمران نے اُس مالا کو اپنے دونوں
ہاتھوں میں لیا اور دُلہن کے گھونگٹ سے گُزار کر اسکی گردن میں پہنا دیا
جِس وقت عمران اُس دُلہن کے گلے میں ہار پہنا رہا تھا ایک نظر اُسنے گھونگٹ
سے جھلکتے اُسکے حسین چہرے کو دیکھا اور مبہوت ہُوگیا اور سوچنے لگا کیا
کوئی اسقدر بھی حسین ہوسکتا ہے۔
یکبارگی اُس نازنین نے بھی اپنی پلکوں کو اُٹھاتے ہوئے عمران کو دیکھا تب
عمران کو احساس ہُوا کہ شائد ہر بڑے شاعر نے ایسی حسین آنکھیں دیکھیں ہونگی
تبھی تو کسی شاعر نے اپنے محبوب کی آنکھوں کو مہ کا پیالہ کہا اور کسی نے
گہری جھیل سے تشبیہ دی ہوگی۔ اِسی سرور ومستی کی کیفیت میں عمران نے بات
بڑھاتے ہُوئے اُس نازنین سے اُسکا نام دریافت کیا جواب میں ایک نقرئی
جلترنگ بجاتی آواز عمران نے سُنی۔ سب مجھے کوثر کہتے ہیں لیکن آپ مجھے عین
بھی کہہ سکتے ہیں یہ آواز بھی سحر پیدا کررہی تھی
عمران کا دِل شدت سے اُسے اِس بات کیلئے اُکسانے لگا کہ اُس مہ جبین کو
چُھو کر اُسکے لمس کی حدت کو ماپے اُس نے اِسی اِرادے کے تحت اپنا ہاتھ
اُسکے چہرے کی جانب بڑھایا ہی تھا کہ بابا وقاص کی گونجدار آواز نے عمران
کو اس سحر سے نِکال لیا۔
جاری ہے |