ایک ماں کی محبت
(Shagufta Mukhtar, kamalia)
عنوان: لالی اور پاپڑ — ایک ماں کی جدوجہد
از قلم: شگفتہ مختار (گچھی)
پہلے زمانے کی بات ہے جب سکون کا سماں ہوا کرتا تھا۔ نہ انٹرنیٹ تھا، نہ موبائل، اور نہ ہی فضول کی مصروفیات۔ سب لوگ اپنے گھر والوں کے ساتھ آرام و سکون سے وقت گزارتے، دکھ سکھ بانٹتے اور آپس میں محبت سے رہتے تھے۔ ہر طرف امن و چین ہوا کرتا تھا۔
ان ہی دنوں کی بات ہے جب گرمی بہت شدید پڑ رہی تھی۔ کوئی انسان تو کیا، جانور بھی نظر نہیں آ رہے تھے۔ ایسے میں ایک چڑیا جس کا نام لالی تھا، اپنے بھوکے بچوں کے لیے کھانے کی تلاش میں اپنے گھونسلے سے نکلی۔ اس نے ہر طرف نظر دوڑائی لیکن کوئی ایسی چیز دکھائی نہ دی جس سے وہ اپنے بچوں کا پیٹ بھر سکے۔
واپس جاتے ہوئے اچانک اس کی نظر زمین پر پڑے ایک پاپڑ پر پڑی۔ اسے دیکھتے ہی لالی کی آنکھوں میں امید کی کرن جاگ اٹھی۔ وہ خوشی سے چونچ میں پاپڑ اٹھا کر گھر کی طرف اڑنے لگی۔
لیکن راستے میں ایک کوا آ گیا۔ اس نے لالی سے پاپڑ چھین لیا اور اڑ کر ایک آم کے درخت پر جا بیٹھا۔ وہ لالی کو تنگ کرنے لگا، مذاق اڑانے لگا۔ لالی بہت روئی، چلائی، منتیں کیں، لیکن کوے نے ایک نہ سنی۔
لالی نے اپنے بچوں سے وعدہ کیا تھا کہ وہ خالی ہاتھ واپس نہیں آئے گی۔ وہ ہار ماننے والوں میں سے نہیں تھی۔
وہ آم کے درخت کے پاس گئی اور بولی: “درخت بھائی! میری مدد کرو، اس کوے کو اڑا دو تاکہ میں اپنا پاپڑ واپس لے سکوں۔”
درخت نے جواب دیا: “میں کیوں اڑاؤں؟ اس نے میرا کیا نقصان کیا ہے؟”
مایوس ہو کر لالی لکڑہارا کے پاس گئی: “لکڑہارے بھائی! میری مدد کرو، اس درخت کو کاٹ دو تاکہ کوا اڑ جائے اور میں اپنا پاپڑ واپس لے سکوں۔”
لکڑہارے نے کہا: “میں کیوں کاٹوں؟ درخت نے میرا کیا بگاڑا ہے؟ مجھے اس کی ضرورت بھی نہیں۔”
پھر وہ چوہے کے پاس گئی: “چوہے بھائی! لکڑہارے کو کاٹ لو تاکہ وہ درخت کو کاٹے اور میں اپنا پاپڑ واپس لے سکوں۔”
چوہے نے کہا: “میں کیوں کاٹوں؟ لکڑہارے نے میرا کیا نقصان کیا ہے؟”
وہ بلی کے پاس گئی: “بلی ماسی! چوہے کو کھا جاؤ تاکہ وہ لکڑہارا کو کاٹے اور میں اپنا پاپڑ واپس پا سکوں۔”
بلی نے بھی کہا: “میں کیوں کھاؤں؟ چوہے نے میرا کیا بگاڑا ہے؟”
وہ پھر کتے کے پاس گئی، اس نے بھی کہا: “میں کیوں بلی کو کھاؤں؟ اس نے مجھے کچھ نہیں کہا۔”
پھر وہ ڈنڈے کے پاس گئی: “ڈنڈے بھائی! کتے کو مار دو تاکہ وہ بلی کو کھائے۔”
ڈنڈے نے کہا: “میں کیوں ماروں؟ کتے نے میرا کیا نقصان کیا ہے؟”
وہ آگ کے پاس گئی: “آگ بہن! اس ڈنڈے کو جلا دو تاکہ وہ کتے کو مارے۔”
آگ نے بھی کہا: “میں کیوں جلاؤں؟ ڈنڈے نے میرا کیا بگاڑا ہے؟”
وہ پانی کے پاس گئی: “پانی بھائی! آگ کو بجھا دو تاکہ وہ ڈنڈے کو جلانے نہ دے۔”
پانی نے کہا: “میں کیوں بجھاؤں؟ آگ نے مجھے کچھ نہیں کہا۔”
اب وہ تھک ہار کر ایک آخری امید کے ساتھ اونٹ کے پاس گئی: “اونٹ بھائی! میری مدد کرو، یہ سارا پانی پی لو تاکہ آگ بجھ جائے اور میں اپنا پاپڑ واپس لے سکوں۔”
اونٹ نے کہا: “ہاں، کیوں نہیں! میں کب سے پیاسا ہوں، تمہاری مدد ضرور کروں گا۔”
جیسے ہی اونٹ نے پانی پینا شروع کیا، پانی گھبرا کر چلایا: “نہیں! اللہ کے واسطے مجھے مت پیو، میں آگ کو بجھاتا ہوں۔”
پانی آگ کے پاس گیا: “میں تمہیں بجھاتا ہوں!” آگ چلائی: “نہیں، مجھے مت بجھاؤ، میں ڈنڈے کو جلاتی ہوں!”
ڈنڈے نے کہا: “مجھے مت جلاؤ، میں کتے کو مارتا ہوں!”
کتے نے ڈر کر کہا: “میں بلی کو کھا جاتا ہوں!”
بلی بولی: “نہیں بہن! میں چوہے کو کھا جاؤں گی!”
چوہا چیخا: “میں لکڑہارے کو کاٹ لوں گا!”
لکڑہارا بولا: “نہیں، نہیں! اتنا نقصان نہ کرو، میں درخت کو کاٹ دیتا ہوں!”
درخت نے جلدی سے کہا: “مجھے مت کاٹو، میرے آم خراب ہو جائیں گے، میں کوے کو اڑا دیتا ہوں!”
کوا فوراً بولا: “رہنے دو، رہنے دو! مجھے مت اڑاؤ، میں خود نیچے آ کر تمہیں عزت سے پاپڑ واپس دے دیتا ہوں!”
کوے نے پاپڑ لالی کو واپس دے دیا۔ لالی خوشی خوشی اپنے بچوں کے پاس پہنچی اور ان کا پیٹ بھر کر سکون کا سانس لیا۔
سبق: جہاں کسی کا اپنا مطلب نہ ہو، وہاں کوئی مدد کو تیار نہیں ہوتا۔ لیکن ایک ماں — وہ بنا کسی غرض کے، ہر در پر جاتی ہے، ہر تکلیف سہتی ہے، صرف اس لیے کہ اس کے بچے بھوکے نہ سوئیں۔ یہ قربانی صرف ایک ماں ہی دے سکتی ہے۔
ختم شد |
|