چراغ کا صلہ! محمود غزنوی کے تین سوال، ایک عمل، ایک جواب
(Fazal khaliq khan, Mingora Swat)
کبھی کبھی ہم اپنے معمولی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں، مگر اللہ کے نزدیک وہی عمل ہمارے لیے نجات کا سبب بن جاتا ہے جس طرح محمود غزنوی کا چھوٹا سا عمل اس کی نجات کا سبب بنا۔ |
|
|
فضل خالق خان (مینگورہ سوات) دنیا میں کچھ سوالات ایسے ہوتے ہیں جو انسان کی ظاہری کامیابی، مال و دولت، اختیار و اقتدار اور شہرت کے باوجود اسے اندر سے مضطرب اور بے چین رکھتے ہیں۔ یہ سوالات نہ صرف ذہن کو جھنجھوڑتے ہیں بلکہ روح کے سکون کو بھی غارت کر دیتے ہیں۔ یہی کیفیت سلطان محمود غزنوی کی زندگی کا مستقل حصہ تھی۔ وہ ایک عظیم بادشاہ، زبردست سپہ سالار، فاتح ہند، اور دنیا کی کئی سلطنتوں کو اپنے زیرنگیں کرنے والا حکمران تھا۔ لیکن اقتدار کی وسعت، خزانے کی فراوانی اور لوگوں کی تعریفیں، ان کے دل میں موجود ان تین سوالات کا جواب دینے سے قاصر تھیں جو انہیں اکثر راتوں کو جاگنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ پہلا سوال ان کی شناخت سے جڑا ہوا تھا: "کیا میں واقعی سبکتگین کا حقیقی بیٹا ہوں؟" کیونکہ یہ بات گردش میں تھی کہ سلطان سبکتگین نے انہیں گود لیا تھا، اور وہ ان کے سگے فرزند نہیں تھے۔ یہ سوال سلطان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتا تھا اور کبھی کبھی ان کے اندر ایک بے نام سی شرمندگی جنم لیتی تھی۔ دوسرا سوال تھا: "کیا علماء واقعی انبیاء کے وارث ہیں؟" یہ سوال ان کی عقل اور اقتدار کے تصور سے ٹکراتا تھا، کیونکہ علماء بظاہر کمزور، فقیر اور معاشرے کے غیر مؤثر افراد سمجھے جاتے تھے۔ ان کے پاس نہ تلوار تھی، نہ خزانہ، نہ لشکر، نہ ہی کوئی دنیاوی طاقت۔ سلطان کا دل اس سوال کے جواب کے لیے بے تاب تھا کہ وہ لوگ جو خود بے اختیار ہیں، وہ بھلا اللہ کے سب سے برگزیدہ بندوں، یعنی انبیاء کے وارث کیسے ہو سکتے ہیں؟ تیسرا سوال نہایت اہم اور گہرا تھا: "کیا میں جنت میں جاؤں گا یا نہیں؟" یہ سوال شاید ہر باشعور انسان کے دل کی گہرائیوں میں کہیں نہ کہیں ضرور پلتا ہے، لیکن جب ایک بادشاہ کے دل میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے تو وہ اور بھی بھاری ہو جاتا ہے۔ اس کے کندھوں پر عوام کی امیدیں بھی ہوتی ہیں اور اپنے انجام کی فکر بھی۔ ان تین سوالات کے ساتھ سلطان محمود عمر بھر زندگی بسر کرتا رہا، ہر عالم، ہر صوفی، ہر دانا شخص کے پاس گیا، ہر محفل علم و حکمت میں شرکت کی، مگر سکون کا لمحہ ہاتھ نہ آیا۔ پھر ایک دن ایک معمولی سا واقعہ پیش آیا، جو بظاہر معمولی تھا، مگر حقیقت میں اس کی زندگی کا سب سے بڑا سبق، سب سے روشن لمحہ اور سب سے قیمتی تجربہ بن گیا۔ سلطان محمود کسی طویل مہم سے واپس لوٹ رہا تھا۔ رات کا وقت تھا، فضا میں خنکی تھی، اور ہر طرف سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اچانک اس کی نظر ایک عجیب منظر پر پڑی۔ ایک نوجوان طالب علم، جس کی آنکھوں میں علم کی پیاس اور چہرے پر خلوص کی چمک نمایاں تھی، ایک کباب فروش کے چھوٹے سے چراغ کے پاس کھڑا کتاب پڑھ رہا تھا۔ ہوا کے جھونکے چراغ کی لو کو ہلا رہے تھے، روشنی کم تھی، مگر طالب علم کی لگن زیادہ تھی۔ وہ کباب فروش کے قریب ہو تو سکتا تھا، مگر شاید عزتِ نفس یا دکان دار کی جھڑک سے بچنے کے لیے تھوڑا سا فاصلے پر ہی کھڑا رہا۔ سلطان محمود نے وہ منظر دیکھا تو اس کے دل میں ہلچل مچ گئی۔ اس نے خادم کو حکم دیا: "اس طالب علم کو فوراً ایک مشعل دے دی جائے تاکہ اسے پڑھنے میں آسانی ہو۔"خود خاموشی سے اندھیرے میں گھر لوٹ آیا۔ یہ چھوٹا سا عمل، جو شاید کسی اور کے نزدیک بے معنی ہوتا، اس رات سلطان کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والا بن گیا۔ اسی رات، جب سلطان اپنے بستر پر لیٹا، تو نیند میں ایک مقدس خواب نے اس کا دل منور کر دیا۔ خواب میں رسولِ اکرم ﷺ کی زیارت ہوئی۔ ان کا چہرہ مبارک چاند کی مانند چمک رہا تھا، اور ان کی زبانِ مبارک سے نکلا صرف ایک جملہ، سلطان کے تینوں سوالوں کا جواب بن گیا۔ "اے سبکتگین کے بیٹے، تیرے جنت میں جانے کے لیے یہ عمل کافی ہے کہ تُو نے انبیاء کے وارث کو چراغ دیا۔" کیا جملہ تھا! کتنی محبت، کتنی تصدیق، کتنی بخشش، اور کتنی قبولیت اس ایک جملے میں تھی۔ یہ جملہ نہ صرف سلطان کے دل کا بوجھ ہلکا کر گیا، بلکہ اس کے تینوں سوالات کا دائمی جواب بھی دے گیا۔ پہلا سوال، نسب کا شک، جواب مل گیا: رسول اللہ ﷺ نے خود پکار کر فرمایا: "اے سبکتگین کے بیٹے"۔ اس سے بڑھ کر کس گواہی کی ضرورت؟ دوسرا سوال، علماء کی حیثیت ، جواب واضح تھا: انبیاء کے وارث۔ رسول کی زبانی یہ الفاظ گونج گئے، اور سلطان کا دل مان گیا کہ واقعی علم والوں کی میراث انبیاء کی ہے، دنیاوی طاقت سے نہیں بلکہ باطنی روشنی سے۔ تیسرا سوال، جنت کی امید، جواب اُس عمل میں پوشیدہ تھا جو ایک طالب علم کو چراغ دینے کی صورت میں سامنے آیا۔ یہی ایک عمل، جنت کی سند بن گیا۔ یہ واقعہ ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہم اپنے معمولی عمل کو حقیر سمجھ کر ترک کر دیتے ہیں، مگر کبھی کبھی اللہ کے نزدیک وہی عمل ہمارے لیے نجات کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمیں صرف نیت خالص رکھنے کی ضرورت ہے، اور وہی معمولی سا چراغ، کسی طالب علم کے لیے، کسی غریب کے لیے، کسی بھٹکے ہوئے کو راہ دکھانے کے لیے، شاید ہماری آخرت کو روشن کر دے۔ آج اگر ہم علماء کی عزت کریں، علم کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کریں، اور علم کی روشنی کے پھیلاؤ میں اپنا حصہ ڈالیں، تو بعید نہیں کہ ہم بھی ایک دن وہی جملہ سن لیں: "تیرے جنت میں جانے کے لیے اتنا کافی ہے..." |
|