نئے صوبوں کے قیام کی سیاسی کوششیں

جلال پورپیروالاتااوچ شریف سیکشن کی افتتاحی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نئے صوبوں کی تشکیل سے متعلق وزیراعظم شاہدخاقان عباسی کا کہنا تھا کہ الیکشن سے چندماہ پہلے پریس کانفرنس کرنے سے مسئلے حل نہیں ہوتے۔مسلم لیگ ن نے پنجاب اسمبلی سے بہاولپوراورجنوبی پنجاب کے لیے قرار دا د منظور کرائی۔وزیراعظم نے کہا کہ آئین میں ترمیم کوئی ایک جماعت نہیں کرسکتی بلکہ آئین میں ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے ہوتی ہے۔ان کاکہناتھا کہ نئے صوبے بھی اتفاق رائے سے بنانے ہیں اوراس کافیصلہ کوئی ایک جماعت کرسکتی ہے اورنہ کرناچاہیے۔ان کاکہناتھا کہ لوگ ہزارہ اورجنوبی خیبرپختونخواکی بات بھی کرتے ہیں۔صوبوں کے بارے میں تمام سیاسی جماعتیں بیٹھیں مذاکرات کریں اورایک فیصلہ کریں۔سابق چیئرمین سینیٹ اورممتازآئینی ماہرسینیٹرمیاں رضاربانی کاکہتے ہیں کہ نئے صوبوں کے قیام کے لیے گرینڈنیشنل ڈائیلاگ کااہتمام کیاجائے۔اپنے بیان میں ان کاکہناہے کہ صوبے اس کے باشندوں اورجغرافیہ کی باقاعدہ ایک تاریخ ہوتی ہے۔ صوبے کے لوگ ہی صوبے کے مالک ہوتے ہیں۔ان کی اپنی زبان ہوتی ہے ، کلچراوررسم ورواج ہوتاہے۔اورلوگوں کا اپنے صوبے کے وسائل پرحق ہوتاہے۔جووہ آئینی معاہدے کے ذریعے سے وفاق کوبھی دیتے ہیں۔سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ انتظامی بنیادوں پرصوبے بنانے سے تاریخ کی نفی ہوگی۔اندرونی تنازعات کومزیدبڑھنے کاموقع ملے گا۔اس سے یقیناًوفاق بھی متاثرہوگا۔ضرورت ہے کہ ایک سیاسی فکرکوقومی ڈائیلاگ کے ذریعے اجاگرکیاجائے اوراس کے نتیجے میں وفاق اورصوبوں کے مسائل پرآئینی ترامیم کی جائیں۔حکمران جماعت کے رکن اسمبلی مخدوم ہاشم جواں بخت اور آزادرکن اسمبلی سردارنصراللہ خان دریشک نے جنوبی پنجاب کوالگ صوبہ بنانے کے مطالبے پرمبنی قراردادپنجاب اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرانے کے بعد میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ اگرحکومت اس قراردادکوعملی جامہ پہناناچاہے توپینتالیس روزبھی زیادہ ہیں لسانی بنیادوں پرنہیں بلکہ انتظامی بنیادوں پرصوبہ مانگ رہے ہیں اورہم تمام جماعتوں اورحکومت کودعوت دیتے ہیں کہ پاکستان کومضبوط بنانے کی اس جدوجہدمیں ہماراساتھ دیں۔ان کاکہناتھا کہ نیت صاف ہے توپھرکوئی وجہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کوموجودہ حکومت کی مدت پوری ہونے سے قبل نیاصوبہ نہ بنایاجاسکے۔ان کاکہناتھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ نیت سے آوازاٹھائی جائے توایوانوں کے باہرسے اٹھائی جانے والی آوازبھی اندربیٹھے ہوئے لوگوں تک پہنچتی ہے۔پنجاب ہاؤس اسلام آبادمیں سمندرپارپاکستانیوں کے وزیرمملکت عبدالرحمن خان کانجو، سعودمجید، تہمینہ دولتانہ اوردیگراراکین اسمبلی کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وفاقی وزیرتوانائی اویس خان لغاری نے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے منشورمیں بہاولپوراورجنوبی پنجاب صوبے کوشامل کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ دوبارہ اقتدارمیں آکرایجنڈے کی تکمیل کریں گے۔اویس لغاری نے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن جنوبی پنجاب میں نئے صوبوں کی حامی ہے۔ان کاکہناتھا کہ ہم نے اسمبلی میں صوبہ بہاولپوراورصوبہ جنوبی پنجاب کی قرار دادیں پیش کی ہیں لیکن حزب اختلاف نے ہماراساتھ نہیں دیا۔جاویدہاشمی کاکہنا ہے کہ جب تمام سیاسی جماعتیں صوبہ جنوبی پنجاب بنانے پرمتفق ہیں توآئندہ انتخابات کے لیے اپنے منشورمیں شامل کرنے کے بجائے موجودہ اسمبلیوں سے ہی الگ صوبہ بنادیں ۔انتظارکس بات کاہے۔یہ ان کے پاس سنہری موقع ہے اسٹیبلشمنٹ بھی صوبے کے حق میں ہے ۔ایک قرارددادکے ذریعے دس سے پندرہ دنوں میں قانون سازی کرکے نیاصوبہ بنایاجاسکتاہے۔اگرالیکشن سے پہلے الگ صوبہ نہ بناتویہ جنوبی پنجاب کے عوام سے ایک بارپھردھوکہ ہوگا۔ممکن ہے پھرآنے والی اسمبلیوں میں ان سیاسی جماعتوں کے پاس اکثریت نہ ہو۔اگراب بھی صوبہ نہ بن سکاتوتحریک چلے گی ، خون بہے گا۔اسی لیے یہ لڑائی نہ ہونے دی جائے۔الگ صوبہ کے قیام کے لیے یوسف رضاگیلانی، شاہ محمودقریشی اوربلخ شیر مزاری سمیت ایک ایک لیڈرکے پاس مجھے جاناپڑاتوجاؤں گاانہیں ا کٹھاکرنے کی کوشش کروں گا۔الگ صوبے کے حصول کے لیے تحریک چلاؤں گا۔صوبے کے نام پرکوئی اعتراض نہیں جومرضی رکھ لیں۔اپنی رہائش گاہ پرپریس کانفرنس کرتے ہوئے جاویدہاشمی نے کہا کہ جنوبی پنجاب کے عوام کوپہلے بھی لولی پاپ دے کرووٹ لیے گئے۔جنوبی پنجاب محاذ کے دس یابارہ ارکان جیت بھی جائیں تووہ الگ صوبہ نہیں بناسکتے۔اسی لیے ضروری ہے کہ تمام سیاسی پارٹیاں الگ صوبے کے قیام کے لیے اکٹھی ہوجائیں۔ جاویدہاشمی نے کہا کہ نوازشریف اورشہبازشریف کوبھی میڈیاکے ذریعے پیغام پہنچارہا ہوں کہ جنوبی پنجاب کے عوام سے کیا گیاوعدہ پوراکریں۔اب یہ ایشوختم نہیں ہوگا۔جب سب مان رہے ہیں توکس بات کانتظارہے۔ جماعت اسلامی اورتحریک صوبہ بہاولپورکی آل پارٹیزکانفرنس کے مشترکہ اعلامیہ میں مطالبہ کیاگیا ہے کہ پنجاب اسمبلی کی منظورکی گئی متفقہ قراردادکے مطابق بہاولپورکی صوبائی حیثیت فوری بحال کی جائے ۔پنجاب اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی لیڈرڈاکٹرسیّدوسیم اخترنے اے پی سی سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبہ بہاول پورکی بحالی میں سب سے بڑی رکاوٹ موجودہ حکمران ہیں جوپنجاب کی تقسیم نہیں چاہتے۔الیکشن میں بہال پورکے عوام امیدواروں سے حلف لیں کہ وہ اسمبلی میں صوبہ بحالی کے لیے اپناکرداراداکریں گے ۔سابق ڈپٹی سپیکرپنجاب اسمبلی صاحبزادہ عثمان داؤدعباسی نے کہا کہ کسی بھی سیاسی جماعت میں یہ جرات نہیں کہ وہ نئے انتظامی صوبے بناسکے۔اس کے لیے عوام کوجگاناہوگا۔صدارتی آرڈی ننس کے ذریعے بہاول پورصوبہ بحال کرایاجائے۔ایک قومی اخبارمیں خبرہے کہ انتہائی باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ حکومت پاکستان جلدہی پنجاب کوتقسیم کرتے ہوئے دونئے یونٹوں کااعلان کررہی ہے۔یہ انتظامی یونٹ ملتان اوربہاولپورڈویژن پرمشتمل ہوں گے۔جن کے ساتھ کچھ دوسرے علاقے بھی شامل کیے جائیں گے۔اس سلسلے میں تمام تیاریاں مکمل کرلی گئی ہیں۔بیس مئی سے پہلے ملتان اوربہاول پورمیں محکمہ پولیس، ریونیو ڈیپارٹمنٹ ، محکمہ صحت اورمحکمہ تعلیم کے ایڈیشنل سیکرٹریز، ایڈیشنل آئی جی سطح کے آفیسرزچارج سنبھال کرکام شروع کردیں گے۔ان دونوں یونٹوں کی حیثیت فی الحال گلگت بلتستان کی طرح ہوگی۔لیکن بعض معاملات میں گلگت بلتستان کی طرح خودمختیارنہیں ہوں گے اوران معاملات کوآنے والی اسمبلیوں پرچھوڑدیاجائے گا۔ذرائع کے مطابق انتظامی یونٹ ملتان میں ڈیرہ غازی خان ڈویژن اورملتان ڈویژن کے تمام اضلاع شامل ہوں گے۔جب کہ لودھراں کوبہاول پوراانتظامی یونٹ کے ساتھ لگایاجائے گا۔جمشیددستی کاکہناہے کہ علیحدہ صوبے کی بجائے انتظامی یونٹس کی کہانی پرانی ہوچکی۔ وسیب اب دھوکے میں نہیں آئے گا۔صوبہ محاذ والے مسلم لیگ ن کے ہی ہیں۔پانچ سال عیش کرنے والوں کواچانک سرائیکی وسیب کادردجاگنامعنی خیزہے۔جمشیددستی کاکہنا ہے کہ بہاول پور، ملتان انتظامی یونٹس کاقیام الیکشن چکمہ اوربہت بڑافراڈ ہے۔جس میں عوام نہیں آئیں گے۔انہوں نے کہا کہ ہم ڈیرہ غازی خان، ملتان، بہاول پور، ڈیرہ اسماعیل خان، ضلع ٹانک، میانوالی سمیت علاقوں پرمشتمل صوبہ چاہتے ہیں۔دس سال سے علیحدہ صوبے کی اسمبلی میں جدوجہدکررہاہوں۔صوبہ محاذوالے جب حکومتوں میں تھے تب میراساتھ دیتے۔ان کاکہنا ہے کہ جس طرح بڑی بڑی آئینی ترامیم قومی اسمبلی اورسینیٹ سے آدھے گھنٹے میں پاس ہوجاتی ہیں اسی طرح جنوبی پنجاب کوعلیحدہ صوبہ بنانے کاآئینی بل پنجاب اسمبلی فوری طورپرپاس کرے۔اگلے ایک گھنٹے میں قومی اسمبلی اورسینیٹ سے پاس ہوکرصدرمملکت کے دست خط بھی ہوجائیں گے۔ایک قومی اخبارمیں اس حوالے سے ایک خبریوں ہے کہ حال ہی میں حکومت پنجاب کی جانب سے بہاول پوراورملتان کوگلگت بلتستان کی طرح علیحدہ علیحدہ انتظامی یونٹ کے بنائے جانے کے امکان کاشوشہ چھوڑاگیا ہے ۔جس پربہاول پورصوبہ بحالی تحریک سے منسلک افرادبہت خوشی کااظہارکررہے ہیں اوراس کو بڑی کامیابی تصورکیاجارہا ہے۔لیکن دوسری جانب وفاقی وزیربرائے تعلیم میاں بلیغ الرحمن نے اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے ایسے کسی بھی معاملے سے لاعلمی کا اظہارکرتے ہوئے بتایا کہ گلگت بلتستان کامعاملہ کچھ اورتھا اوروہ ایریابھی مختلف تھا جس کی وجہ سے اس کوعلیحدہ یونٹ بنایاگیا۔لیکن پنجاب میں اس طرزپرکوئی بھی صوبہ یاانتظامی یونٹ نوٹی فکیشن کے ذریعے نہیں بنایاجاسکتا۔آئین پاکستان میں صوبہ بنانے کامکمل طریقہ کارموجودہے۔صرف اسی طریقہ کارسے کوئی بھی صوبہ یاانتظامی یونٹ بنایاجاسکتاہے۔ان کاکہنا ہے کہ فی الحال حکومت ایسے کسی معاملے پرغورنہیں کررہی اورنہ ہی کوئی ایسافیصلہ کیاگیا ہے۔تاہم حکومت پنجاب کی ہمیشہ یہ اولین ترجیح رہی ہے کہ ملتان اوربہاول پورڈویژن میں اعلیٰ عہدوں کے افسران جن میں ایڈیشنل چیف سیکرٹری اوردیگرسیکرٹریزبھجوائے جائیں اورماضی میں بھی ایساہوچکا ہے۔جن کے آنے سے ان ڈویژنزکے بہت سے معاملات بہتربھی ہوئے۔تاہم مستقل ایساسیٹ بنانے کاحتمی فیصلہ حکومت پنجاب ہی کرسکتی ہے۔اسی خبرمیں لکھا ہے کہ دوسری طرف باوثوق ذرائع سے معلوم ہواہے کہ ن لیگ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ جوکہ ن لیگ کوآئندہ الیکشن میں نقصان پہنچانے کے لیے مبینہ طورپرتشکیل دیاگیا ہے کے مقاصداوران کے جنوبی پنجاب کے صوبے کے نعرے کوکاؤنٹرکرنے کے لیے ملتان اوربہاول پورڈویژن کوعلیحدہ علیحدہ انتظامی یونٹ بنانے پرغورکررہی ہے۔اس فیصلے سے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کاسیاسی نعرہ کمزورہوجائے گا۔اورالیکشن سال دوہزاراٹھارہ میں اس کابھرپورسیاسی فائدہ مسلم لیگ ن کوپہنچے گا۔خاص طورپربہاول پورڈویژن میں اس فیصلے سے مسلم لیگ ن سال دوہزارتیرہ کی طرح مکمل فائدہ اٹھاسکے گی۔کیوں کہ بہاول پور ڈویژن کے زیادہ ترعوام اورسیاسی حلقے بہاول پورصوبہ بحالی کے حق میں ہیں۔اورجنوبی پنجاب صوبہ کے نعرے کوپسندنہیں کیاگیا۔بہاول پورڈویژن کے علیحدہ انتظامی یونٹ بنائے جانے پربہاول پورڈویژن کے عوام کی ہمدردیاں ن لیگ کے ساتھ ہونے کاامکان ہے۔تاہم ابھی ن لیگ کے قائدین کی جانب سے اس معاملے پرکوئی حتمی فیصلہ نہیں کیاگیا ہے۔تیس مئی سے پہلے پہلے اس بارے حتمی فیصلے کاامکان ہے۔منحرف اراکین کی جانب سے نئے صوبے کے حصول کے لیے جنوبی پنجاب محاذ تحریک کااعلان کیاگیا ،جس کے چیئرمین سابق وزیراعظم میربلخ شیرمزاری ہوں گے۔ اس محاذ میں جنوبی پنجاب سے متعددسیاسی راہنمااب تک شامل ہوچکے ہیں۔ مخدوم خسروبختیارنے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ہم نیاصوبہ چاہتے ہیں۔بھارت میں چودہ سے انتیس صوبے ہوچکے ہیں۔جنوبی پنجاب میں غربت کی شرح اکیاون فیصدہے۔جنوبی پنجاب کی عوام اورکئی اہم سیاستدان ہمارے ساتھ ہیں۔آزادی کے وقت ریاست بہاول پورخوش حال سمجھی جاتی تھی۔لیکن جنوبی پنجاب کے عوام آج صاف پانی جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہیں۔حالیہ مردم شماری نے واضح کردیا ہے کہ صوبہ پنجاب میں ملک کی آدھی آبادی ہے۔ دنیامیں اس کی کہیں مثال نہیں ملتی کہ وفاق کی کسی ایک اکائی میں اتنی زیادہ آبادی ہو۔لاہورہمارادوسراگھرہے نفرتیں پھیلانے نہیں آئے۔وزیراعلیٰ پنجاب محمدشہبازشریف نے جنوبی پنجاب کے ارکان قومی وصوبائی اسمبلی سے ملاقات کے دوران گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت نے جنوبی پنجاب کوآبادی کے تناسب سے زائدترقیاتی فنڈزدیئے۔جس کانتیجہ جنوبی پنجاب میں ترقی کی حقیقی صورت میں نظرآرہا ہے۔جنوبی پنجاب حقیقی ترقی کی جانب گامزن ہوچکا ہے۔عوام ترقی اورخوش حالی کے لیے دن رات ایک کرنے والی حقیقی لیڈرشپ کوجانتے ہیں۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ بہاول پورصوبہ کی بحالی اور جنوبی پنجاب کے حوالے سے عملی اقدامات کرنے کاسہرا مسلم لیگ ن کے سرہے۔بلاول بھٹوزرداری نے ایک جلسہ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ن لیگ جنوبی پنجاب صوبہ کی مخالف ہے۔ان کاکہناہے کہ پیپلزپارٹی نے اپنی گذشتہ حکومت میں جنوبی پنجاب کوصوبہ کی حیثیت دینے کی کوشش کی ۔مگرن لیگ نے ایوان کے اندر اورباہرالگ صوبہ کی مخالفت کی۔بلاول بھٹوزرداری نے کہا اگرالیکشن سال دوہزاراٹھارہ میں اس خطہ کی عوام نے ہماراساتھ دیا توہم اس کوصوبہ بنائیں گے۔ایک قومی اخبارمیں اس حوالے سے ایک رپورٹ ان الفاظ میں شائع ہوئی ہے کہ اگرپورے جنوبی پنجاب سے علیحدہ صوبے کے تمام حامی بھی کامیاب ہوجائیں تووہ اپنامطالبہ پورانہیں کراسکتے۔کیوں کہ آئین میں اس کاجوطریقہ کارموجودہے اس کے لیے نہ صرف قومی اسمبلی اورسینیٹ بلکہ پنجاب اسمبلی کے کل اراکین کی دوتہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہے۔اس وقت آئین میں چارصوبے اوراسلام آبادکے وفاقی علاقے کی اکائیاں درج ہیں۔نیاصوبہ بنانے کے لیے آئین کے آرٹیکل دوسوانتالیس میں کی شقوں کااطلاق ہوگا۔اس لیے اس طرح بل پیش کیاجائے گاجس طرح آئین میں ترمیم کابل پیش کیاجاتاہے۔بل قومی اسمبلی یاسینیٹ میں سے کسی بھی ایوان میں پیش کیاجاسکتا ہے۔ جس ایوان میں بل پیش ہوگا۔وہاں کل ارکان کی دوتہائی اکثریت کی حمایت ضروری ہے ۔ دوسرے ایوان سے بل میں کوئی ترمیم کردی جائے تویہ پھرپہلے ایوان میں منظوری کے لیے جائیگا۔ وہاں سے دوتہائی اکثریت کے ساتھ منظوری کی صورت میں اسے منظورسمجھاجائے گا۔اگرسینیٹ نوے دن میں بل منظورنہ کرے تواسے مستردسمجھاجائے گا۔آئینی ترمیم کابل پیش ہونے کی صورت میں بہت سی رکاوٹیں پیداہوسکتی ہیں۔بہت سے دوسرے علاقے اوران کے نمائندے علیحدہ صوبے کامطالبہ کرسکتے ہیں۔وفاقی وزیرآبی وسائل سیّدجاویدعلی شاہ نے کہا ہے کہ جنوبی پنجاب صوبہ سے پہلے کالاباغ ڈیم ضروری ہے ۔مخدوم قیادت کومنائیں ، گیلانی، قریشی اپنی قیادت کوقائل کریں ن لیگ کی ضمانت میں دیتاہوں ۔قیادت نہ مانی تومستعفی ہوجاؤں گا۔ڈیم نہ بناتوخطہ بنجرہوجائے گا۔

راقم الحروف نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ۔ الگ صوبے کی جدوجہدبارے پڑھ اورسن رہا ہے۔اب تک اس حوالے سے جوکچھ بھی ہواہے اسے الگ صوبہ کے قیام کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کہاجاسکتا۔اس صوبے کامطالبہ کرنے والے ہی متفق نہیں ہیں۔ کوئی لسانی بنیادوں پرالگ صوبہ چاہتاہے توکوئی انتظامی بنیادوں پرالگ صوبہ بنانے کامطالبہ کرتاہے۔کوئی اسے سرائیکستان کانام دیتا ہے توکوئی جنوبی پنجاب کا۔ زیادہ وقت نہیں گزرا۔ فاٹااصلاحات کمیٹی نے اپنی سفارشات پیش کی ہیں۔ جس کے بعدوہاں اصلاحات کاعمل شروع کردیاگیا ہے۔ فاٹاکوکے پی کے میں ضم کرنے یاالگ صوبہ بنانے کاحتمی فیصلہ نہیں ہوا۔ اکثر سیاسی جماعتیں کے پی کے میں ضم کرنے کے حق میں ہیں۔جس طرح آبادی کے تناسب سے پنجاب میں الگ صوبہ کامطالبہ کیاجارہا ہے توپھرفاٹاکوبھی الگ صوبہ بنایاجاناچاہیے ۔ کے پی کے میں ضم ہونے کی صورت میں کے پی کے کی آبادی پنجاب سے بھی بڑھ جانے کاا مکان ہے۔مسائل پربات کی جائے فاٹا کے مسائل جنوبی پنجاب یاسرائیکستان سے کہیں زیادہ ہیں۔الگ صوبہ کے حصول کے لیے تمام مطالبہ کرنے والوں کامتفق ہوناضروری ہے۔الگ صوبے کے مطالبے تودیگرصوبوں میں کیے جارہے ہیں۔نئے صوبوں کے قیام کے سلسلے میں ضروری گزارشات یہ ہیں کہ مسائل تمام صوبوں میں موجودہیں اس لیے ملک کے آٹھ صوبے بنائے جائیں۔ آبادی تمام صوبوں کی برابرہونی چاہیے۔ صوبوں کے نام لسانی بنیادوں رکھے جائیں توجس صوبے میں جس زبان کے حامل افرادزیادہ ہوں اس کے مطابق نام رکھاجائے۔ انتظامی نام رکھنے ہیں توکسی ایک صوبہ کانام بھی لسانی نہ ہو۔اس مقصدکے لیے فاٹااصلاحات کمیٹی کی طرزپرکمیٹی بنائی جائے ۔جنوبی پنجاب یاسرایئکستان کوتھل وسیب کانام دیاجائے توبہتررہے گا۔

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 407 Articles with 350918 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.