پارلیمنٹ سپریم ہے کے زُعم میں مبتلا نا اہل اور نا عاقبت اندیش سیاستدانوں کا طرزِ عمل (۲)

٭ گو رنر تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کی سزا موت کے بارے نواز شریف نے صدرِ پاکستان کو بار بارجلد از جلد دستخط کرنے کو کہا اورسزا پرفوراََ عمل کرایا گیا جبکہ شاتمہ آسیہ مسیحہ کی پھانسی کی سزا پر2010سے لیکر ابھی تک عمل نہیں ہوا۔ بلکہ اسے باہر بھجوایا جا رہا ہے۔ ویسے بھی آج تک کسی شاتمِ رسول کو پھانسی دینے کی بجائے بیرونِ ملک ہی بھیجا جاتا رہا ہے۔ میڈیا کو ممتاز قادری کی شہادت اور جنازے کے بارے رپورٹنگ نہ کرنے کا کہا گیا (بی بی سی نے میڈیا کے اس عمل کو سراہا)۔ تاہم ایک میڈیا چینل کو ممتازقادری کے جنازہ کی کوریج پر جرمانہ بھی کیا گیا۔ اس کے علاوہ لوگوں کو نمازِ جنازہ میں شرکت سے سختی سے روکا گیا! بہر حال ہر طبقہئ فکر، ہر طبقہئ زندگی اور بچے، بوڑھے، جوان عمر کے عوام کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر نمازِ جنازہ کے لئے پہنچ گیا۔دنیا حیران رہ گئی۔ دوسری طرف سلمان تاثیر کے جنازہ کے لئے ہر قابلِ ذکر امام و خطیب نے انکار کر دیا اور صرف چند سرکاری اور جماعتی لوگوں نے سخت سیکورٹی حصار میں نمازِ جنازہ ادا کی۔ نشانِ عبرت اور مقامِ عبرت اور کس کو کہتے ہیں؟ سپریم پارلیمان سب کچھ دیکھ رہی تھی مگر سب کوسانپ سونگھ گیا۔ کوئی نہیں بولا!!

٭ ماڈل ٹاؤن میں حکومتی پولیس نے خون کی ہولی کھیلی۔ سرکاری حساب میں 14 افراد (اصل تعداد اس سے زیادہ ہے) فائرنگ سے جان کی بازی ہار گئے۔ زخمیوں کی تعداد کئی درجن بتائی جاتی ہے۔ طاہرالقادری کی پوری کوشش کے باوجود آج تک کسی کو سزا نہیں ملی۔ حکومتی سر پرستی میں گلو بٹ جیسے کردار ایک ضرب المثل کے طور پر سامنے آئے اور گُڈ گورنس کا منہ بولتا ثبوت بن گئے۔ پارلیمان نے انصاف دلانے کے لئے کتنی قرادادیں پاس کیں؟ کہاں گیا ووٹ کا تقدس؟

٭2016 اور پھر ا کتوبر 2017 میں ہندوؤں کے تہوار ہولی اور دیوالی کے موقعہ پر کراچی میں بطور وزیرِ اعظم تقریر کرتے ہوئے جن جذبات اور خیالات کا اظہار کیا اور واشگاف الفاظ میں یہ کہنا کہ اللہ، ایشور، واہ گرو، بھگوان، خدا، سب ایک ہی ہستی کے نام ہیں،مسلم عقیدہ کی ناپختگی پر دلالت کرتا ہے۔ اور پھر پورے پروگرام میں شرکت نہ کرنے کی حسرت اور کپڑوں پر رنگ پھینکے جانے کی زبردست خواہش کا اظہار کرنا، اسلامی ملک کے مسلمان وزیر اعظم کو زیب نہیں دیتا تھا۔اسلام ایک ضابطہ ئ حیات ہے، غیر مسلموں کے تہواروں پر حکومتِ وقت کا کیا طرزِ عمل ہونا چاہیے، بالکل واضح ہے۔ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ میں مشرکین اور یہودی وغیرہ رہتے تھے مگر مسلمانوں نے نہ تو ان کی مذہبی رسومات میں کبھی شرکت کی اور نہ ہی ا یسی خواہشات کا اظہار کیا۔کیا ہمارے عوامی نمائندوں کو مسلمان ووٹروں نے اسی لئے چنا تھا؟ کیا یہ عوامی نمائند ے ووٹ کی توہین نہیں کر رہے؟ جاری ہے

٭ پانامہ پیپرز کا بھلا ہو۔ غریب اور لا علم قوم کو کافی دیر بعد پتہ چلا کہ ان کے حکمران چوٹی کے ڈاکو اور خائن ہیں۔ بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے باوجود غیر ممالک میں نوکریاں بھی کرتے ہیں۔ان میں سے ایک کو صرف ایک جرم میں سزا ہوئی۔ باقی مقدمات جاری ہیں۔ اس سارے کیس کو پارلیمان نے بنیاد بنا کر خائن وزیرِ اعظم کا محاسبہ کیاَ؟ موقعہ ملا تھا،کیوں نہ ثابت کیا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ کہاں گیا ووٹ کا تقدس؟ اگربرطانیہ کا وزیرِ اعظم اپنے آپ کو محاسبہ کے لئے پیش کرسکتا ہے اور جنوبی کوریا کے صدر کو ۴۲ سال کی سزا مل سکتی ہے تو نااہل نواز شریف اور اس کے حواری کیوں شور مچارہے ہیں؟ قانون اورآئین کی حکمرانی صرف غریب پرلاگو ہوتی ہے؟

٭ قوم صرف ایک سوال پوچھتی ہے کہ اس سارے تناظر میں ریاستِ پاکستان مدعی ہے۔ ریاست کے خزانہ سے تنخواہ لینے والے وزراء اور مشیر اور دیگر اعلیٰ افسران کس حیثیت سے مجرمان کو اعلیٰ درجہ کا پروٹوکال دیتے ہیں اور ہر پیشی پر مجرموں سے اظہارِ وفاداری کے طورسرکاری گاڑیوں میں سپریم کورٹ تک آ کر اپنی حاضری کیوں لگواتے ہیں؟ ان کی آمدورفت اور پروٹوکال پر اُٹھنے وا لے اخراجات کون ادا کر رہا ہے؟َ دراصل ان مسلم لیگی و زیروں کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے اور سرکاری قوانین کی خلاف ورزی ان کے خون میں رچ بس چکی ہے؟ عوام اس تماشہ کو حیرت سے دیکھ رہی ہے!! دنیا ہماری کرتوتوں پر ہنس رہی ہے!! افسوس پارلیمان سے بھی کوئی آوازنہیں سنائی دی!!

٭ عوام کے ووٹوں کے تقدس کا وعدہ کرکے آئے ہوئے وہ کون ہیں جوپاکستان کی پارلیمینٹ میں آئین اور قاعدہ و قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے آئینی ترامیم پر بغیر پڑھے اور غور کئے ہاتھ کھڑا کرتے رہتے ہیں؟ خواہ ایسا کرتے ہوئے ان کے ایمان کا بھی سودا ہو رہا ہو!اس کی حالیہ مثال ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامہ میں تبدیلی کی بھونڈی جسارت تھی۔

٭ 3اکتوبر 2017 سیاسی تاریخ میں سیاہ رات کے طور پر یاد رکھا جائے گا کیونکہ انتہائی سرعت میں پاس کرائے گئے الیکشن اصلاحات بل کے ذریعہ الیکشن فارم جمع کراتے وقت عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامہ کی عبارت سے کچھ بنیادی الفاظ کو نکال کر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں غیرمسلموں کیلئے وزیرِ اعظم یا صدرِ پاکستان بننے کی راہ ہموار کی گئی تھی۔پارلیمینٹ کا یہ عمل نظریہئ پاکستان،آئینِِ پاکستان اور ریاستِ پاکستان سے غداری کے مترادف ہے۔ اس شیطانی کام کا سہرا نااہل وزیرِ اعظم اور اس کی نا اہل مسلم لیگ اور حواری جماعتوں کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ بن کر لٹکتا رہے گااور تاریخِ پاکستان کے صفحات پر محفوظ ہو گیا ہے۔ ممبرانِ پارلیمنٹ نے اپنی خفت مٹانے کے لئے جو بہانے تراشے اس پر ان کی نالائقی اور غیر سنجیدہ رویہ پر رونے کو دل کرتا ہے۔ تاہم بعد میں کمال ڈھٹائی سے قبیح عمل کو ٹیکنیکل اور کلریکل غلطی کا نام دے کر قوم کو بیوقوف بنانے اور جان چھڑانے کی کوشش کی گئی!! دین کے بارے اس سے بڑی ابو لہبی اور عبداللہ بن ابی والا طرزِ عمل اور کیا ہو سکتا ہے؟ یہ ہے ووٹ کو عزت دو کا عملی مظاہرہ!!

٭ عوام کے ووٹوں سے بننے والی قومی پارلیمان اور صوبائی اسمبلیاں کی اکثریت کے ووٹ سے چنے جانے والے اس بے چارے مراعات یافتہ صدرِ پاکستان نے(اندھے، بہرے، گونگے، عقل و فراست سے یکسر محروم انتہائی وفادار غلام ہونیکا ثبوت دیتے ہوئے) اس متعفن بل پر آدھی رات کو ہی دستخط کر دئیے! ا ” ا یسے صدر سے پاکستان توڑنے کے بل پر بھی آسانی سے د ست خط کروائے جا سکتے ہیں!!“ اس سارے شیطانی عمل میں نا اہل نواز شریف اور اس کے حواری شامل ہیں۔ ویسے بھی صدرِ پاکستان نے اب تک چار کارہائے نمایاں سر انجام دیئے ہیں: (اول)۔ علمائے کرام سے اپیل کہ سود کو جائز قرار دینے کے لئے کوئی راستہ نکالا جائے۔(دوئم)۔ ممتاز قادری کی سزائے موت پر دستخط جبکہ اس سے پہلے ان کے پاس سزائے موت پانے والوں کی کافی ساری فائلیں تھیں اور ان میں شاتمِ رسول کی اکثریت تھی۔ افسوس! صدر صاحب کو یاد ہی نہ رہا کہ قبرستان میانی میں بھی پھانسی کی سزا پانے والا ایک شہید دفن ہے جس کو کافر حکومت نے نشانِ عبرت بنانے کی کوشش کی۔ (سوئم)۔ اچھی اچھی تقریریں کرنا۔ صدر صاحب نے ایک دو ماہ پہلے اس وقت حیران کر دیا جب کرپشن کرنے والوں کی ممکنہ اور جلد پکڑ اور برے انجام کے بارے ا نہوں نے اپنے خیالات کا بر ملا اظہار کیا اور یوں امید پیدا ہو گئی کہ کرپشن کی لعنت سے چھٹکارہ حاصل کرانے میں صدر صاحب ان کے ساتھ ہیں۔ مگر ان کی امیدوں پر جلد ہی پانی پھر گیا جب صدر صاحب نے کرپٹ اور نااہل وزیرِ اعظم کو قانونی تحفظ فراہم کیا۔ (چہارم)۔ عقیدۂ ختمِ نبوت سے متعلق حلف نامہ کو ختم کرنے اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے نا اہل قرار دیئے گئے وزیرِ اعظم کو پارٹی کی صدارت کیلئے اہل کرنے والے بل پر بغیر سوچے سمجھے چپکے سے دستخط کرنا۔ کیا غیرت مندپارلیمنٹ نے دین کے با رے اتنی بڑی غلطی کا احساس کرتے ہوئے استعفاء دیا اور صدرِ پاکستان کے مواخذہ کا بل لایا؟ کہاں گئی دینی حمیت اور ووٹ کو عزت دو اور ووٹکا تقدس؟ کہاں گئی پارلیمان کی سپرمیسی؟؟

٭ کیاِممبرانِ پارلیمنٹ میں سے کسی کو بھی یاد نہیں کہ نا اہل یزید نے حضرت امام حسین ؑسے صرف ایک ووٹ مانگا تھا مگر انہوں نے 72 جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا۔یہاں تو سپریم کورٹ سے کرپشن زدہ نا اہل شدہ وزیر اِ عظم کو پارلیمنٹ کی اکثریت جمہوریت کے نام پر پارٹی کا صدر بنانے کے لئے متحد ہو کر قانون پاس کرتی ہے!! کیا انہوں نے عوام کے ووٹ کو عزت دی؟ اس پالیمنٹ میں بیٹھے ہوئے سیاستدانوں کو کیا پاکستانی عوام نے اس لئے چنا تھا کہ وہ قانون سازی کرکے نا اہل شدہ وزیرِاعظم کو نواز مسلم لیگ کا صدر بنا دیں۔ اور آئندہ کوئی بھی پارٹی نا اہل، کرپٹ اور سزا یافتہ شخص کو اپنا لیڈر بنا سکے!! کیا ایسا قانون بناتے وقت اراکینِ پارلیمنٹ کو پتا نہیں تھا کہ یہ قانون آئین کے خلاف ہے، اس سے پارلیمان کی سبکی ہوگی اور جگ ہنسائی بھی۔ جب اجتماعی غلطی جان بوجھ کر کی جائے تو پھر سزا کے لئے تیار رہنا چاہیے۔ مگر افسوس عزت ِنفس کو داؤ پر لگانے کی پرانی روش برقرار رکھی گئی؟ شکر ہے سپریم کورٹ میں با ضمیر جج صاحبان کا جنہوں نے آئین اور قانون کی لاج رکھ لی!!

٭ پچھلے چارسالوں میں اگر اسمبلی ممبران کا حاضری ریکارڈکا کسی بھی دور دراز پسماندہ علاقے میں واقع پرائمری سکول کی پہلی یا دوسری جماعت سے موازنہ کیا جائے تو ا مید ہے
کہ وہ سکول اول پوزیشن حاصل کرے گا۔ کہاں گیا ووٹ کا تقدس اورکیا ہے اُن ٹی اے، ڈی اے بلوں کا جواز جو اسمبلی ممبروں کو دیئے گئے؟
٭ سپریم پارلیمان بار بار التجا کرتی رہی کہ وزیرِ اعظم اسمبلی میں زیادہ بار آیا کریں۔ مگر نا اہل عوامی وزیرِ اعظم کی پارلیماں میں چارسالوں کے دوران حاضری اور غیر ملکی دوروں کی تعداد کا موازنہ کریں۔ آپ کو واضح فرق نظر آئے گا کہ ممبران کی پوری کوشش کے باوجود نا اہل وزیرِ اعظم نے کس بات کو زیادہ اہمیت دیَ؟ وزیرِ اعظم کی پارلیمان میں حاضری شائد غیر ملکی دوروں کے مقابلہ میں دسواں حصہ ہوگی۔کہاں گئی پارلیمان کی سپرمیسیَ؟سپریم پارلیمان نے نا اہل وزیرِ اعظم کا مواخذہ کیا؟
٭ ملک میں کوئی ایمرجنسی نہیں لگی ہوئی۔ اسمبلیاں اپنی جگہ موجودہیں۔ ووٹ کو عزت دو اور پارلیمنٹ سپریم ہے کا راگ الاپنے والے سیاستدان دیکھ رہے ہیں کہ ہر تیسرے
دن صدرِ پاکستان نئے نئے آرڈیننس پر دستخط کئے جا رہے ہیں! اگر صدرِ پاکستان نے ہی قانون سازی کا کام کرنا ہے تو پارلیمان کب تک بے اپنی بے توقیری برداشت
کرتی رہے گی او ر ووٹ کو بے عزت کراؤ؟
٭ اپریل ۷ ۱ کو اسلام آباد میں ووٹ کو عزت دو کنونشن کی صدارت نا اہل نواز شریف نے کی۔ سٹیج پر دائیں اور بائیں بیٹھے ہوئے لیڈران اور سامنے حال میں موجود سامعین کی
اکثریت کا تعلق ایسی پارٹیوں سے ہے جو ملک پاک کی سا لمیت اوراداروں کی ساکھ کے خلاف بیان بازی کرتی رہتی ہیں: جاری ہے

ا۔ ولی خان خاندان اور ان کی پارٹی کا پاکستان کے حوالہ سے کردار اور بیانات ڈھکے چھپے نہیں۔ سرحدی گاندھی، پختونستان، سرحدی صوبہ میں ریفرنڈم اور بھارت کی سرحدی گاندھی اور اس کی پارٹی کو کئی سالوں تک ہر قسم کی سپورٹ، زبان زدِ عام ہے۔ روسی سرخ استعمار سے امیدیں لگائے رکھنا اور طورخم کے گیٹ کو اٹک پر لا کر گاڑھنا جیسے الفاظ لوگوں کے ذہنوں میں ابھی تازہ ہیں۔ وہ جنہوں نے اپنے باپ کو پاکستان میں دفن کرنا پسند نہ کیا وہ اس ملک کے بارے کب کلماتِ خیر کہہ سکتے ہیں؟؟ یہی وجہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر ہرزہ سرائی کرنا اور اداروں کو برا بھلا کہناان کا وطیرہ ہے۔(جاری ہے)
 

Sarwar
About the Author: Sarwar Read More Articles by Sarwar: 66 Articles with 63616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.