ذرا سوچیں! پاکستان سے پہلے اور بعد میں !!

پاکستان کابننا ، دنیا کے نقشے پر ابھرنا، قائد اعظم محمد جناح کی انتھک کوششوں ، علامہ اقبال شاعر مشرق کا تصور پیش کرنا اور دیگر مسلمان رہنماوں کا اتحاد یہ سب ہم جانتے ہیں۔ پاکستان قائم ہونے کے لیے کتنی قربانیاں، کتنے کٹھن مراحل سے گزرنا پڑا۔ ان کٹھن مراحل کو ہم بھول چکے ہیں یا پر اسرار انداز میں ہمارے اندر سے غائب کیا جا رہا ہے۔ دوستوں وقت نکال کر پاکستان کیسے ملا، ضرور اپنے بڑے بزرگوں سے بالمشافہ سنئیے اور جو کوتاہیاں ہم سے ہوئی ہیں یا ہو رہی ہیں۔ ان پر ضرور غور کرتے ہوئے اپنا اپنا احتساب کریں کہ ہم آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔کیا میری نسل ان حالات میں جی پائے گی یا نہیں۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان کیسے بنا۔۔۔

اکثر دوستوں سے ملکی حالات و واقعات کے بار ے میں بحث چلتی رہتی ہے، اپنی عمر سے بڑے لوگوں سے ملاقات ہو تو پاکستان بننے، دوران ہجرت کے واقعات کے بارے میں ضرور پوچھتا ہوں۔۔ اس درد کو اپنے اندر سمیٹنے کی کوشش کرتا ہوں۔ پھر جب بھی حلقہ احباب میں بیٹھنے کا موقع ملتا ہے تو اس درد کو ان سے بھی شیئر کرتا ہوں۔۔ شیئر اس لیے کرتا ہوں کہ شاید ہم اپنی سمت کو درست کر نے میں کامیاب ہو جائیں۔ وطن سے محبت اور معاشرہ کی سمجھ آجائے۔ نیا آرٹیکل لکھنے میں دو وقت کی روٹی نے پریشان کر رکھا ہے، اسی وجہ سے میرا کالم آن لائن ہو سکا۔حالات و واقعات کا مد وجذر کا ہونا اور بہت کچھ اس خاموشی کا سبب بنا۔ تسلسل سے لکھنا بعض اوقات کافی مشکل ہو جاتا ہے، مزدوری کرتا ہوں۔ حسب عادت اپنی مزدوری کے لیے اپنے دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا کہ ایک صاحب کام کی غرض سے تشریف لائے۔ کام شروع کیا تو لائٹ نو دو گیارہ ہو گئی۔ بجلی کا نظام جس کاکوئی شیڈول بھی نہ ہو تو انتظار عجیب سی کیفیت پیدا کر دیتا ہے۔ باتیں شروع ہو گئیں۔ وطن عزیز کے بارے میں سلسلہ چل نکلا۔ کچھ سیاسی اور غیر سیاسی کہیں دکھ اور کہیں غم کی داستان اور پھر کہیں خود ساختہ مشورے کہ ایسے کرتے تو ایسے ہو جاتا،یوں کرتے تو اور بہتر ہو جاتا، اتنے میں صاحب نے ایک لمبی آہ بھری، اس آہ کو بیان کرنا میرے لیے نا ممکن ہے کہ اس آہ میں کتنا کرب تھا۔ صاحب کہنے لگے دوست جب پاکستان بنا اس کے لئے ہجرت شروع کی، اس وقتVIP یعنی بڑے بڑے گھرانے تو ایک خاص پروٹوکول سے آئے لیکن ہم جیسے پیدل اپنے طور پر ملک پاکستان کی محبت میں چل پڑے، اس ہجرت میں کتنے دکھ سہے، کتنے مصائب سے گزرنا پڑا ایک طویل داستا نِ غم ہے۔ لیکن اس ہجرت میں سے ایک اقتباس پیش کرتا ہوں۔ پاکستان کے لئے ہجرت شروع ہوئی، بے سرو سامان ایک آزاد مملکت کے لئے چل پڑے نہ کوئی منزل نہ کوئی گھر نہ کوئی مخصوس ٹھکانہ کہ جہاں ہمیں پہنچنا مقصود تھا۔ ایک انجان راہ پر چل پڑے سوائے اس کے کہ پاکستان آزاد ملک ہوگا۔ انصاف ہوگا، غلامی سے نجات مل جائے گی اپنا دیس ہوگا اپنے لوگ ہونگے، مسلمان معاشرہ ہوگا، سُکھ کا سانس لے سکیں گے، یہ سارے خواب آنکھوں میں سجائے چل پڑے۔ کٹھن راستے سے بچتے بچاتے چلتے گئے، کہتا ہے کہ میں انے اپنی چھوٹی بہن کو گلے لگایا، کبھی سر پر کبھی کندھے پر اور کبھی سکھوں کے جتھے کو دیکھ کر چادر میں چھپا لیتا، بخار میں مبتلا تھی لیکن پھر بھی ملک پاکستان کی خاطر حوصلے اور جذبے سے گام بڑھتے رہے اور من میں ایک ہی آس لیے کہ پاکستان پہنچ کر بہن کا علاج کرواؤں گا، لیکن اگلے دن اس کی طبعیت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ وقت نے دوراہے پر لاکھڑا کر دیا کہ بہن میرے ہاتھوں میں وفات پا گئی، ذرا سوچئے کیسا وقت اور کٹھن مرحلہ ہوگا۔ بے بسی کے عالم میں ایک ریت کے ٹیلے میں اپنے ہاتھوں سے ریت اٹھائی اور بے گورو کفن اس میں دفن کردیا، نہ نماز جنازہ، نہ کوئی رونے والا۔ صرف اس آس اورامید پر کہ اس قربانی کا صلہ پاکستان میں عدل و انصاف کی صورت میں ملے گا۔ بے چینی ختم ہو جائے گی، برہمن، شودر اور مسلمان ہونے کا فرق ختم ہو جائے گا۔ خوابوں کی ایک حقیقی تعبیر ملے گی لیکن پاکستان میں آکر کیا ملا، اس کو بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہم سب کے سامنے ہے کہ جنہوں نے قربانیاں دیں وہ سب بے سود نظر آتی ہیں، آج جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون نافذ ہے، عدل و انصاف ب ڑے گھرانے اور وڈیروں کی لونڈی ہے۔ ٹکے ٹکے کے سیاستدان عدالتوں کا مذاق اڑاتے ہیں غریب غریب تر ہو تا جا رہا ہے جو کل کلرک تھا آج ایک بڑا سیاستدان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک مالدار گھرانہ بن کر VIP پروٹوکول لے رہا ہے۔ جو حکومت میں ہوتے ہیں وہ بادشاہ بن جاتے ہیں، باتیں خلفاء راشدین کے دور کی کرتے ہیں۔ لیکن خود ان کا کردار جتنا قریب سے دیکھا جائے اتنا ہی بھیانک نظر آتا ہے۔ وہ کہنے لگا مجھے وہ وقت جب میں نے اپنی بہن کو بے گوروکفن ریت میں دفن کیاتھا، تو اس وقت ایک اچھے وقت کی آس، امید نظر آتی تھی لیکن آج جو پنجاب، سندھ، اور بلوچستان کے دور افتادہ علاقوں میں ہورہا ہے توا س کے پیچھے کیا مقاصد ہو سکتے ہیں، اب اور کون سی قربانی کی ضرورت ہے، پھر اس نے پاکستان کا ایک قصہ سنایا ”صوبہ بلوچستان میں ایک گھرانہ دور دراز علاقہ میں آباد تھا، قحط سالی ان کا مقدر بن گئی ان کی آنکھوں کے سامنے ان کا مال مویشی تڑپ تڑپ کر مرنے لگا تو صور ت حال یہ پیدا ہوگئی کہ ان کو وہ چھوڑ کر کسی دوسری جگہ جانے پر مجبور ہو گئے۔ اس وقت پاکستان بننے والی صورت حال پیدا ہو گئی۔پاکستان میں رہتے ہوئے کوئی ذریعہ نہیں کہ وہاں سے اچھے طریقے سے اپنے خاندان کو شفٹ کر سکیں۔ میاں بیوی، چار بچے اور ایک معذور بچی تھی۔ سوچنے پر مجبور تھے کہ ان بچوں کو پیدل کیسے لے کر چلیں گے، فیصلہ کیا گیا کہ معذور بچی کو اللہ کے بھروسہ پر دل پر پتھر رکھ کر یہیں چھوڑ جاتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ وقت اور بیت جائے جو باقی تین بچے ان کو بھی قربان کرنا پڑے۔ رختِ سفر باندھ کر تینوں بچوں کو اٹھایا اور چل پڑے، باپ کا حوصلہ کچھ اور طرح کا ہوتا ہے، لیکن ماں کی ممتا بے بس، آنکھوں میں آنسوؤں کی جھیل، بار بار بیٹی سے پیار کرتی، آسمان کی طرف دیکھتی، آہ و بکاہ کرتی سسکیاں لیتی اور اپنے آباؤ اجداد کی قربانیاں جو حصول پاکستان، حصول عدل وانصاف اور آسائش کے لئے دی تھیں ان پر رونا آتا۔ بری بے بسی اور بوجھل قدموں کے ساتھ سفرشروع کیا،ممتا کبھی پیچھے موڑ کردیکھتی ہے اور با پ آنکھ بچا کر بیٹی کی طرف دیکھتا ہے آنکھوں سے آنسوجاری ہیں، جوں جوں قدم بڑھتے گئے،فاصلہ بڑھتا گیا معذور بیٹی کی آہ و پکار پاؤں کی زنجیر بن جاتی ممتا پھر پیچھے مڑ کر کبھی آسمان کی طرف اللہ سے سوال کرتی اور قدم بڑھاتی آہستہ آہستہ آنکھوں سے اوجھل ہو گئی۔ جب دوسری منزل پر پہنچے، پڑاؤ ڈالا تو کسی نے اس ممتا سے اس کے اجڑے بالوں اور چہرے کی اداسی کے متعلق پوچھا تو اس نے سارا قصہ بیان کیا اور کہا جب بھی یہ چند لمحات کے لیے علیحدہ ہوتی ہے تو اس کے کانوں میں اس معذور بیٹی کی چیخیں،ا ٓہ و بکاہ جنجھوڑتی ہیں تو یہ بھی چیخیں مارنا شروع ہو جاتی ہے۔ تو قارئین آپ خود ہی فیصلہ کریں کہ کیا پاکستان کو اس لئے حاصل کیا تھا، ایک طرف تو پاکستان کے لئے مردہ بہن کو بے گورو کفن ریت میں دفنا دیا جاتا ہے، دوسری طرف پاکستان بننے کے بعد بھی یہی صورت حال ہے تو مجھے بتائیے پہلے والی قربانی اور دوسری قربانی سے ہمیں کیا سبق ملاہے، کیا یہ نظام کی خرابی یا شعور کی کمی ہے یا ہم اپنے اپنے مفاد کی جنگ میں وقتی مفاد کے لئے حکومتوں کا چناؤ کرتے ہیں۔ تو وہ دعوے اور قسمیں کہاں گئیں جو پاکستان کی تحریک کے وقت اٹھائی گئی تھیں، کوئی بتا سکتا ہے کہ بعد والے خاندان کو پاکستان نے کیا دیا وہ اپنی آنے والی نسل کو کیا دے کر جا رہاہے، جس کی آنکھوں کے سامنے اس کی اولاد بے یارومددگار بے بسی کے عالم میں اپنی موت آپ مر جائے؟ کیا یہی ہے پاکستانی معاشرہ اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کا نظام، نہیں یہ نہیں صرف اور صرف سسٹم کی خرابی ہے۔ آؤ چھوٹے بڑے دوستو، بچو، جوانو اور بزرگو اپنے اپنے حصے بانٹیں انشااللہ وہ دن دور نہیں جب پورا ملک، اس میں بسنے والوں کے خواب حقیقت میں بد ل جائیں گے۔ اللہ ہم سب کو اپنا اپنا مثبت کردار اداکرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156700 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More