ووٹ کو عزت دو

ووٹ ایک رائے ہے اور رائے کی عزت اس کی کوالٹی سے مشروط ہوتی ہے۔ لہذا عوامی رائے مجموعی لحاظ سے جتنی کوالٹی میں اعلی ہوتی جائے گی اتنی عزت بڑھتی جائے گی
کیسے؟

ووٹ ایک رائے ہے جو ہر شہری کا حق ہے ۔ جمھوریت کی یہ خوبصورتی ہے کہ ہر شہری کو حکومت میں نمائندگی کا حق ملنا چاہیے جو وہ اپنے ووٹ کے زریعے استعمال کرتا ہے۔

کسی بھی ریاست کے لئے عوام اور ملک کے بعد دستور (نظام) کا ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔کسی بھی ریاست کے معاملات کو چلانے کے لئے بہترین نظام حکومت کا ہونا انتہائی ضروری ہے اور اس وقت جمھوریت کو سب سے بہتر نظام حکومت سمجھا جاتا ہے۔

حکومت کا اصل مقصد عوامی خدمت ہے اور اسے احسن طریقے سے بجا لانے کے لئے ملکی دستور ترتیب دئیے جاتے ہیں جن میں ضرورت کے پیش نظر ، دستور میں دئیے گئے طریقہ کارکے مطابق ، تبدیلی بھی لائی جا سکتی ہے ، اور جمھوریت نظام بنانے اس کو دستور کے مطابق چلانے اور تبدیلی میں عوامی رائے کو یقینی بناتی ہے۔

جمھوری نظام کی کوئی خاص تعریف یا صورت نہیں ہے۔ اس کی مختلف صورتیں ہو سکتی ہیں جن میں زیادہ تر مشہور اور مقبول پارلیمنٹری اور صدارتی نظام حکومت ہیں۔ مقصد صرف یہ ہے کہ عوامی رائے کے زریعے نمائندگی کا حق محفوظ رہے۔ ہمارا پاکستان میں یہاں نظام زیادہ تر پارلیمانی ہے۔

عوامی سہولیات کی غرض سے ریاست کے اندر اختیارات کو مختلف سطحوں پر مثلاً مرکزی ، صوبائی اور مقامی حکومتوں کے زریعے تقسیم کیا جاتا ہے۔ جس کا مقصد عوام کے لئے آسانی پیدا کرنا ہے۔

کوئی بھی نظام جتنا بھی اچھا ہو اس کو چلانا تو لوگوں نے ہی ہے۔ نظام بزات خود نہیں چلتا بلکہ عوام ، شہریوں اور عوامی نمائیندوں نے ہی اس کو چلانا ہوتا ہے۔ حکومت اور اداروں کے اندر جو لوگ بیٹھے ہوتے اس کی کامیابی کے ضامن ہوتے ہیں ۔ اگر ہم خود مخلص نہیں ہونگے تو نظام سے پورا فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اور اگر ہم خود ہی اپنی پوری توانائیاں نظام کو چلانے سے زیادہ اس کو ناکام کرنے پر صرف کر رہے ہوں تو یہی حشر ہوتا ہے جو پچھلے اکہتر سال سے ہو رہا ہے۔ ملک نظاموں کی لیبارٹری بنا ہوا ہے۔ ہم نے دنیا کا ہر نظام ناکام ثابت کر دیا ہے اور نعرے لگاتے ہیں کہ نظام بدلو مگر اپنے آپ کو نہیں بدلتے۔ اسی لئے میں کہتا ہوں کہ نظام سے پہلے سماج کو بدلیں۔

اب آتے ہیں حق رائے دہی کے متعلق کہ ووٹ کو عزت دو یا حق دو:

ہمارے روزمرہ کے معاملات مثلاً قانونی ، مالیاتی اور صحت کے متعلق معاملات کی طرح کے ہی حکومتی معاملات بھی ہوتے ہیں ۔ جو سب سے زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جو باقی تمام معاملات کا طریقہ کار اور ان کےحل کا احسن طریقہ وضع کرتے ہیں۔

اب ان چھوٹے معاملات کے لئے تو ہم اپنے ہر جاننے والے سے رائے لیتے ہیں کہ کس قانونی یا مالیاتی ماہر کی رائے یا مدد سے استفادہ حاصل کیا جائے۔ کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ کوئی جتنا زیادہ علم اور تجربہ رکھتا ہو گا اتنی ہی اس کی رائے بہتر ہوگی۔ تو ثابت ہوا کہ جتنا کسی کے پاس علم ، شعور اور تجربہ زیادہ ہوگا اتنی ہی اس کی رائے قیمتی ہوگی اور کم علم ، بے شعور اور کم تجربہ رکھنے والے اور زیادہ علم ، شعور اور تجربہ رکھنے والے برابر نہیں ہو سکتے۔

یہی بنیادی وجہ ہے کہ ہم اس جمھوریت سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہیں کر سکے۔ لہذا ضرورت ہے کہ ہم اپنی جمھوریت کی کوئی ایسی صورت بنائیں جس میں رائے کی کوالٹی بھی ملحوظ خاطر رکھی جا سکے:

ایک طریقہ تو یہ ہے کہ تمام رائے دہندگان کو با شعور ، اہل علم اور تجربہ کار بنا دیا جائے یا پھر ایسے ہی تربیت یافتہ ، اہل علم اور تجربہ کار نمائندگان کو سامنے لانے کا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ بلکہ دونوں کو ہی ساتھ ساتھ چلنا چاہیے مگر دوسری صورت بہرحال ضروری ہے تاکہ رائے کو بھی کوالٹی کے لحاظ سے بہتر کیا جا سکے۔

عوامی نمائندگی کرنے والوں کو ان کے چناو سے پہلے ہی اخلاقی ، علمی ، دستوری ، تجربہ اور اقدار کے لحاظ سے چھان بین کے پراسس سے گزارنا ضروری ہے۔ تاکہ رائے اپنی کوالٹی کے بلبوتے پر بھی اپنی اہمیت رکھتی ہو۔

جب ایک کمپنی یا فرنچائز کے لئے سخت ضابطے اور قوانین موجود ہیں تو کسی سیاسی جماعت کے لئے کیوں نہیں؟ تاکہ سیاسی جماعتیں محض مجمعے نہ ہوں بلکہ تربیت یافتہ سیاسی ادارے ہوں جو عوام کو سیاسی ماہرین دے سکیں چہ جائے کہ وہ خود دولت مندوں اور بد عنوان الیکٹ ایبلز کی طرف ایڑیاں اٹھا کر دیکھ رہے ہوں۔

ان تمام تر کوششوں اور امیدوں کے ساتھ ساتھ قومی سوچ ، قومی معاملات اور قومی املاک کے ساتھ احساس ملکیت اور اہمیت کا جزبہ پیدا کرنے کا عمل ہر سطح پر ضروری ہے وگرنہ تمام حصول بے فائدہ ہیں۔
 

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 124355 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More