چھوٹا سا ہال تھا جو سامعین سے بھرا پڑا تھا۔ایک مشہور
ادیب تقریر کر رہے تھے۔ اس دوران ایک جگہ انہوں نے حوالہ دیا کہ انسان کی
حیثیت کافکا کے "K" سے زیادہ نہیں۔ اس دن تک میں کافکا کے "K" سے واقف نہیں
تھا۔ مقرر کے اس حوالے پر یک دم لوگوں نے واہ واہ کے نعرے بلند کئے۔میرے
ارد گرد بیٹھے لوگوں میں سے ایک نے مجھے کہا ، ـ’’کیسی خوبصورت تشریح دی ہے‘‘۔
دوسرے نے میری طرف دیکھ کر کہا، ’’کیا خوبصورت بات کہہ گئے ہیں۔‘‘ لوگوں نے
جس طرح مقرر کو داد دی ،مجھے لگا کہ اس ہجوم میں ،میں اکیلا ہی لا علم آدمی
ہوں جو کافکا کے"K" سے نا واقف ہوں۔تقریر ختم ہوئی اور وقت کی کمیابی کے
باعث مقرر تیزی سے رخصت ہو گئے۔ مگر کافکا کا "K" میرے ذہن میں الجھا ہوا
تھا۔میں نے ساتھ بیٹھے ہوئے خوبصورت تشریح کہنے والے شخص سے اس بارے پوچھا
تو جواب ملا، ’’ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ کافکا کا پہلا لفظ ہی "K"
ہے۔تو "K" کافکا، کمال ہے آپ سمجھے نہیں۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دوسری طرف بیٹھے
شخص سے عرض کیا کہ جناب مقرر نے جو خوبصورت بات کہی تھی اور آپ جان گئے تھے
مجھے بھی اس کے بارے کچھ بتا دیں۔ خوفناک انداز میں گھورتے ہوئے کہنے لگے
اتنی سادہ سی بات آپ کو سمجھ نہیں آ رہی۔ کافکا کا "K" ہٹا دیں تو لفظ ختم۔
کیا پتے کی بات ہے۔ تھوڑا غور کریں سادہ سی بات ہے کہ یہی انسان کی حیثیت
ہے۔میں دونوں کی علمیت کا قائل تو ہو گیا مگر پھر بھی اپنی تشنگی اور شک
مٹانے کے لئے کچھ اور لوگوں سے بھی پوچھا مگر سب کے جواب ملتے جلتے ہی
تھے۔یعنی K کافکا، اور کافکا K ، کوئی اس سے آگے بڑھنے کو تیار نہیں تھا۔
میں اس محفل سے اٹھ تو آیا مگر کافکا کا ـ"K" میرے ذہن میں پھنسا رہا۔
کتابوں کی نمائش میں مختلف سٹالوں کے چکر لگا تے اتفاقاً میرے نظر ایک کتاب
پر پڑی۔ نام تھا ’’کافکا کہانیاں‘‘۔ میرا آدھا مسئلہ حل ہو گیا، کافکا تو
مل گیا اب اس کے "K" کی تلاش باقی تھی۔تقریباً چار سو صفحے کی کتاب تھی۔
کتاب کا مصنف’’ فرانز کافکا‘‘ سابق چیکو سلواکیہ کا رہنے والا ہے۔اس کی وجہ
شہرت علامتی کہانیاں ہیں۔وہ تشبیع اوراستہاروں کی مدد سے انصانی مسائل کی
نشاندہی کرتا ہے۔Abstruct Art کی طرح اس کی زیادہ تر کہانیاں میرے خیال میں
عام قاری نہیں بلکہ ایک مخصوص ادبی طبقے کے لئے ہیں اورادب کے شوقین لوگوں
کے لئے بہت دلچسپ ہیں ۔یہ کہانیاں انسانی زندگیوں کے جبر کو بیان کرتی ہیں۔
انسان کس قدر مجبور اور اور حالات کے رحم وکرم پر ہے یہ کہانیاں ان
مجبوریوں کو ظاہر کرتی ہیں۔نیشنل بک فاؤنڈیشن کی شائع کردہ محمد عاصم بٹ کی
ترجمہ کی ہوئی اس کتاب کے تقریباً چار سو صفحے ہیں۔ میں کتاب پڑھنے کے ساتھ
ساتھ اس میں "K" کوتلاش کر رہا تھا۔
تین سو صفحے تک مایوسی کا سامنا تھا۔اس کا اگلا مضمون ’’ایک خواب‘‘ شروع
کیا تو"K" ـمـل گیا۔ مختصراً،ایک شخص ـ"K" سیر کے لئے جاتا ہے ۔ وہ چند قدم
چلتا ہے تو دیکھتا ہے کہ وہ ایک قبرستان میں ہے۔دور ایک تازہ ابھری ہوئی
قبر اسے دکھائی دی ۔وہاں ابھرے ہوئے ایک ٹیلے نے اسے مسحور کر دیا۔وہ تیزی
سے قبر کی جانب چل پڑا۔ کچھ بینر اور دوسری چیزیں قبر اور اس کی نگاہ کے
درمیان حائل تھیں۔اسے لگا قبر کے پاس کوئی جشن جاری ہے۔دفعتاً اسے لگا کہ
قبر اس کے بہت قریب آ گئی ہے۔پگڈنڈی اس کے قدموں کے نیچے سرپٹ بھاگ رہی
ہے۔وہ لڑ کھڑا کر قبر کے سامنے گھٹنوں کے بل زمین پر گر گیا۔قبر کے پیچھے
کھڑے دو آدمیوں نے ہاتھ میں پکڑا ایک کتبہ زمین میں گاڑ دیا۔جھاڑیوں میں سے
"K" کا واقف ایک آرٹسٹ پنسل لئے نمودار ہوا اور اس نے کتبے پر سنہری حروف
میں لکھا ـ، ’’یہاں مدفون ہیـ‘‘۔ـ"K" نے عبارت پڑھنے کے بعد توجہ کتبے پر
مرکوز رکھی۔اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ نامکمل عبارت کس کے لئے ہے۔آرٹسٹ
عبارت مکمل کرنے لگااور اس دوران اس نے غصے سے اپنا پیر زمین پر مارا۔ گرد
کا بادل فضا میں نمودار ہوا۔ اب سارا معاملہ "K" پر کھل گیا۔لگتا تھا تمام
انتظام مکمل تھے۔ مٹی کی اوپری باریک تہہ کی وجہ سے وہ زمین ہموار لگتی تھی۔
فوراً ہی نیچے ایک سوراخ نمودار ہوا،جس میں "K" تیزی سے ڈوب گیا۔اس نے کتبے
پر دیکھا ۔ اب اس پر اس کا نام بڑا نمایاں نظر آرہا تھا۔اس منظر سے خوف زدہ
"K" خواب سے بیدار ہو گیا۔
یہ کہانی انسانی زندگی کی بے ثباتی کے حوالے سے لکھی گئی ہے اور فرینز
کافکا کی ایک شاہکار تصنیف ہے۔ انسان گھر سے خوشی کی تلاش میں نکلتا اور
لمحہ لمحہ کوئی حادثہ اس کا منتظر ہوتا ہے۔اس محفل میں جن لوگوں نے مقرر کو
دل کھول کر داد دی ، اس داد کا ان کی علمیت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔مجھے بعض
اوقات ان لوگوں پر ہنسی آتی ہے جو نہ جاننے کے باوجود چیزوں پر تفصیلی بحث
کر لیتے ہیں اور تبصرہ بھی۔ بعض اوقات پتہ چلتا ہے کہ دو بحث کرنے والے
لوگوں میں سے کوئی بھی حقیقت حال سے پوری طرح واقف نہیں ہوتا۔ مگر بحث بھی
ایک فن ہے اور وہ لوگ اس فن میں پوری طرح مشاق ہوتے ہیں۔ آج کے زیادہ ٹیلی
وژن شو بھی اسی علمیت کا شاہکار ہیں۔ |