بجٹ اور عام آدمی

وفاقی بجٹ برائے سال 2018-19 وزیر خزانہ مفتا ح اسماعیل نے ستائیس اپریل کو قومی اسمبلی میں پیش کیا جس کا تخمینہ 59 کھرب 32 ارب اور 50 کروڑ روپے لگایا گیا۔ یہ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا چھٹا مسلسل بجٹ تھا۔ بجٹ کی کاپیاں ملنے پر بِن دیکھے ، پڑھے اور سنے حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے ممبران نے شور شرابا مچایا اور بجٹ کی کاپیاں پھاڑیں۔ یہ مناظر ہر سال بجٹ پیش ہونے کے دوران رونما ہوتے رہتے ہیں اور بجٹ کے بعد حکمران اس کو عوام دوست جبکہ حزب اختلاف عوام دشمن قرار دیتے ہیں۔باوجود اتنی ہنگامہ آرائی کے ہر سال بجٹ دونوں ایوانوں یعنی قومی اسمبلی اور ایوان بالا(سینیٹ) سے منظور ہو جاتا ہے۔

وفاقی بجٹ کو پیش ہوئے صرف ایک دن گزرا تھا اور ویک اینڈ کا دن بھی تھا میں اپنے دوستوں کے ساتھ گھومنے پھرنے گھر سے باہر نکل آیا۔ حسب معمول ہماری آخری منزل جوس کی دکان تھی۔ جس کے سامنے ایک عطائی سرجن کا کلینک اور اس کے بالکل سامنے حکیم صاحب بیٹھتے ہیں۔ دونو ں کی شہرت اور تجربے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ کو وہاں ہر وقت مریضوں کا رش نظر آئے گا۔ عطائی سرجن کا کلینک ایک کاؤنٹر ، وزیٹنگ بینچ اور مریض کے لیٹنے کے لئیآپریشن میز پر مشتمل ہے۔ آج وہاں معمول سے کہیں زیادہ رش تھا۔ غریب کسانوں کی بڑی تعداد کلینک کے اندر اور باہر موجود تھی۔ معلوم ہونے پر پتا چلا کہ ایک کسان کی انگلیاں گندم کی فصل کی کٹائی کے دوران کٹ گئی ہیں اور ڈاکٹر ان کے stiches(ٹانکوں) میں مصروف تھا۔ازراہ ہمدردی ہم بھی ڈاکٹر کے کلینک کے پاس کھڑے ہو گئے۔ قریباً ایک گھنٹہ لگ گیا جب ڈریسنگ مکمل ہوئی اور دوائیوں کا نسخہ تیار ہواتو ایک کسان آگے بڑھا اور اس نے زخمی کسان کو سہارا دیا اور جوتے پہنائے جبکہ ایک اور نے فیس اور دوائیوں کی مد میں ڈاکٹر کوتین ہزار روپے دیے۔ یہ سارا منظردیکھ کر دل پسیچ آیا تھا ۔ مجھے یہ خیال بار بار تنگ کر رہا تھا کہ اب یہ زخمی کسان کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک مزدوری پر نہیں جا سکے گا۔ شاید یہ گھر کا واحد کفیل بھی ہو تو اس کے خاندان کے لئے کتنی مشکلات کھڑی ہو ں گی۔ اور یہ خیال مزید ذہن کو ماؤف کر دیتا تھا کہ خدانخواستہ یہحادثہ اس کے لئے زندگی کا مستقل روگ نہ بن جائے۔

اس واقعے کے بعد گھر آیا اور اخبار کھولا۔ اگر چہ اخبار کا مطالعہ صبح کر چکا تھا لیکن اب اس نیت سے دوبارہ پڑھنا شروع کیا کہ اگر خدانخواستہ کسی کے ساتھ ایسا نا خوشگوار حادثہ رونما ہو جائے تو بجٹ میں اس کے لئے کتنی رقم ماہانہ یا روزانہ کی بنیادوں پر مختص کی گئی ہے۔ بجٹ کا ایک ایک لفظ غور سے پڑھا ، پہلی سطر سے لیکر آخر تک مجھے کو ئی ایسا ریلیف نظر نہیں آیا جو اس غریب کسان کے ساتھ پیش آنے والے حادثے کا مداوا کر سکے۔ اس کے برعکس بجٹ میں ٹیکسوں کی مد میں ہو شرابا اضافہ کیا گیا جس سے روز مرہ کی اشیائے خورد و نوش میں بے لگام اضافہ ممکن ہوگا اور جس کے اثرات غریب عوام پر مرتب ہونگے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کے لئے آٹے میں نمک کے برابر اضافہ دے کر پیٹرولیم لیوی کی شرح میں دو سو فیصد اضافہ کر دیا گیا ہے جس سے عام آدمی سبزی ، دال ، آٹا ، چینی ، گھی ، کرایوں سمیت ضروریات زندگی کے مہنگا ہونے کی صورت میں معاشی جبر کا شکار ہوگا۔اس کے علاوہ بجلی ، پانی ، گیس جیسی ضروریات پر بھی پیٹرولیم لیوی مصنوعات کی گرانی اثر ڈالے گی۔یوں غریب عوام کو مہنگائی کے طوفانوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ہمارے حکمرانوں اور قانون سازوں نے دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدوروں ، کسانوں کے لئے کوئی نمایاں قوانین مرتب نہیں کئے۔بجٹ میں اُن کی کم از کم اجرت مقرر کر دی جاتی ہے لیکن اُس پر پورا سال عمل درآمد کا کوئی نہیں پوچھتا۔اور انہوں نے ناگہانی حادثات کے آزالہ کے لئے کوئی قوانین نہیں بنائے۔یہی وجہ ہے کہ بجٹ میں ایسے واقعات و حادثات کے لئے کوئی رقم مختص نہیں کی جاتی ہے۔ پس حکومت اور حزب اختلاف سے درخواست ہے کہ وہ اس سمت راست اقدامات اٹھائیں تا کہ بجٹ کو حقیقی معنوں میں عوام دوست بنایا جاسکے۔

Shoukat Ullah
About the Author: Shoukat Ullah Read More Articles by Shoukat Ullah: 205 Articles with 264254 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.