ملک دشمن عناصر کی ہمیشہ سازش رہی ہے کہ پاکستان میں
مختلف طریقوں سے بے امنی و شدت پسندی کی فضا برقرار رکھا جائے۔ گزشتہ چند
دنوں سے بلوچستان میں ہزارہ برداری کو ایک بار پھر ٹارگٹ کیا جارہا ہے اور
صرف ایک ہفتے میں 12سے زائد افراد کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جا چکا
ہے۔انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایچ آر سی پی کے مطابق گزشہ 16برسوں میں صرف
ہزارہ برداری کے 525افراد کو ہلاک جبکہ 700کو زخمی کیا جاچکا ہے۔ فرقہ
وارنہ ٹارگٹ کلنگ میں دوبارہ تیزی اس وقت شروع ہوئی جب 31مارچ کو قندھاری
بازار کوئٹہ میں ایک ٹیکسی پر فائرنگ کی گئی تھی جس میں ڈرائیور جاں بحق
اور ایک فرد زخمی ہوا۔ایچ آر سی پی‘ کے چیئرمین ڈاکٹر مہدی حسن نے کہا ہے
کہ کوئٹہ میں تشدد کی بڑھتی ہوئی لہر باعثِ تشویش ہے جس نے اپریل کے آغاز
سے ہی شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ذرائع ابلاغ میں آنے والی رپورٹس کے
مطابق کوئٹہ میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلرز کے حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔04مئی
کو صوبہ بلوچستان کے خاران شہر سے تقریباً 80 کلو میٹر دور لجے کے علاقے
میں محنت کشوں کو نشانہ بنایا گیا۔ خاران شہر کے مشرق میں واقع لجے میں
دہشت گردوں نے ایک بار پھر اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والوں کو پہاڑی علاقے میں
ایک موبائل کمپنی کا ٹاور نصب کام کرتے وقت چھ محنت کشوں کو ہلاک کر دیا
ہے۔ بلوچستان میں زیادہ متاثرہونے والے اضلاع میں سے ایک آواران سے بھی
متصل ہے۔خاران میں اس سے قبل بھی شاہراؤں کے منصوبوں پر کام کرنے والے
مزدوروں پر حملے ہوتے رہے ہیں۔ جبکہ فرقہ وارنہ دہشت گردی سے متعلق رپورٹ
کے مطابق کوئٹہ شہر میں پچھلے 3دنوں میں 6 اور ایک ہفتے میں 12افراد کی جان
لے لی گئی،وزیر داخلہ بلوچستان سرفراز بگٹی نے حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات
کو انتشار پھیلانے والوں کی سازش قرار دیا ہے۔ بلوچستان حکومت کی جانب سے
بے امنی پر قابو و حالات بہتر ہونے کے دعوے کئے جا رہے تھے،لیکن ان دعوؤں
کے برعکس ٹارگٹ کلنگ اوردہشت گردی کے واقعات میں اضافے میں تشویش ناک حد تک
اضافہ ہوا۔ چند روز قبل کوئٹہ کے ائیرپورٹ روڈ پر ہونے والے خود کش حملے
میں 6 پولیس اہلکاروں کی شہادت کے واقعہ کی تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں تھیں
کہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات شروع ہوگئے۔ واضح رہے کہ رواں برس 37سیکورٹی
اہلکار دہشت گردی کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 24 اپریل کے روز کوئٹہ میں ایئرپورٹ
روڈ پر ایک خودکش بم دھماکے میں پانچ پولیس افسران شہید اور سات زخمی ہو ئے
تھے۔ جبکہ دہشت گردی کے اس واقعے کے بعد27اپریل کوطوغی روڈکے قریب مقامی
مسجد کے پیش امام کے بھائی کوٹارگٹ کلنگ کانشانہ بنایاگیا جبکہ 28اپریل کو
جمال الدین افغان روڈپر2 افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے،ان کاتعلق ہزارہ
برادری سے تھا۔گزشتہ رات29 اپریل کوجان محمدروڈپردکانوں پراندھادھند فائرنگ
کرکے6 افراد کو نشانہ بنایاگیا،جن میں سے 3 افراد جاں بحق جبکہ 3 زخمی
ہوئے۔کوئٹہ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات سے شہریوں میں خوف وہراس کی لہر
دوڑ گئی اور احتجاج و دھرنوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ مظاہرین نے چیف آف آرمی
اسٹاف جنرل قمر جاوید باوجوہ سے دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کا نوٹس لینے کا
مطالبہ کیا۔ چیف آف آرمی اسٹاف نے امن و امان کا جائزہ لینے کے لئے کوئٹہ
کا دورہ کیا۔ جہاں ان سے ہزارہ کیمونٹی کے عمائدین نے ملا قات کی اور یقین
دہانی پر اپنے مظاہرے و دھرنے ختم کرنے کا اعلان کیا۔حکومتی ارباب اختیار
کا کہنا ہے کہ یہ حالیہ دہشت گردی شہر کے امن کو خراب کرنے کی سازش ہے۔
دوسری جانب وزیر اعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو، وزیر داخلہ احسن اقبال،
صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی اور آئی جی نے ایڈووکیٹ جلیلہ حیدر کی بھوک
ہڑتال ختم کرائی۔اس موقع پر احسن اقبال کا کہنا تھا کہ دہشت گردوں خلاف ہر
ممکن کارروائی کریں گے۔ ہزارہ برادری کامطالبہ ہے کہ حکومت کوئٹہ میں امن
کی بحالی کے علاوہ ٹارگٹ کلنگ کرنے والے ملزمان کو گرفتار کر کے بے نقاب
کرے۔ چیف جسٹس آف پاکستان نے بھی ہزارہ برادری کی مسلسل ٹارگٹ کلنگ پر
ازخود نوٹس لیتے ہوئے کوئٹہ میں 11مئی کو سماعت مقرر کردی ہے۔ نام نہاد قوم
پرست کالعدم بلوچ لبریشن آرمی کے گوریلا کمانڈر اسلم بلوچ،کمانڈر ڈاکٹر
اللہ نظر بلوچ،کالعدم ریپبلکن آرمی کے سینئر کمانڈرگلزار امام بلوچ، کالعدم
بلوچ نیشنل موومنٹ کے چیئرمین خلیل بلوچ دہشت گردی واقعات پر منظم انداز
میں ریاست کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کرکے اپنے مذموم مقاصد کا فروغ چاہتے
ہیں۔ ہزارہ کیمونٹی کے وفد نے احتجاج کے دوران ریاست مخالف نعروں سے
لاتعلقی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ان کے احتجاج کی آڑ میں بعض عناصر ذاتی
سیاست و ہائی جیک کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔جبکہ ایچ آر سی پی کے چیئرمین
ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ ایسے واقعات میں زیادہ تر مذہبی اقلیتوں کے
افراد کو منظم طور پر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ جس کے بعد ٹارگٹ کلنگ کے
واقعات میں تسلسل سے اضافہ ہونا شروع ہوگیا۔ پاکستان مختلف نسل و مسالک ا
ور لسانی اکائیوں پر مشتمل مملکت ہے۔ کبھی لسانی تو کبھی نسلی اور فرقہ
وارانہ بنیادوں پر گروہوں کے درمیان خانہ جنگی کی کوششیں کئی برسوں سے جاری
ہیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے مغربی شمالی سرحدوں کے علاوہ
مشرقی سرحدوں پر بھی پاکستان کی سا لمیت کے دشمن شدت پسندوں کو سختی سے
پسپا کیا جارہا ہے۔ لیکن جس جس طرح قانون نافذ کرنے والے ادارے دہشت گردوں
کی اسٹریجیوں کو ناکام بناتے ہیں۔ ملک دشمن عناصر پسپا ہوکر طریقہ کار
تبدیل کرلیتے ہیں جس کو قابو کرنے کے لئے عوام کی بھی بھرپور سپورٹ کی
ضرورت ہوتی ہے۔ حالیہ کچھ دنوں سے فرقہ وارانہ کشیدگی کو بڑھانے کے لئے ملک
دشمنوں نے بے گناہ و نہتے عوام کو نشانہ بنانا شروع کیا ہوا ہے۔بلوچستان جس
وقت انتہائی بد ترین حالات سے گزر رہا تھا۔ اُن حالات میں زائرین کو دہشت
گردی کا نشانہ بنانے کی روش نے پریشان کن صورتحال میں اضافہ کردیا تھا۔
فرقہ واریت کے نام پر مختلف مسالک کو دہشت گردی کا شکار کرنے کا صرف ایک
مقصد رہا ہے کہ کسی بھی طرح پاکستان میں فرقوں کے نام پر ایک ایسا سلسلہ
شروع ہوجائے جس کی وجہ سے عراق، لبنان، شام اور یمن تباہی و برباد ہوچکا
ہے۔ ان خانہ جنگیوں میں عا م طور پر معصوم و بے گناہ انسان نشانہ بنتے ہیں۔
قرآن کریم میں رب کائنات کا واضح قانون موجود ہے کہ کسی انسان کا قتل ناحق
پوری انسانیت کے قتل کے برابرہے۔جب ایک بے گناہ انسان کو قتل کیا جاتا ہے
تو اس کا مطلب پوری انسانیت کو قتل کردیا جاتا ہے اور اس قسم کے قبیح فعل
کو اللہ تعالی سخت نا پسند فرماتا ہے۔
بلوچستان پاکستان کا وہ بد قسمت صوبہ ہے جہاں امن کا خواب شرمندہ تعبیر ہی
نہیں ہورہا۔نام نہاد قوم پرستوں کا ملک دشمن ممالک کاآلہ کار و سہولت کار
بننے کے بعد بلوچستان میں لسانیت کے نام پر قتل و غارت کرنا ایک معمول بن
چکا تھا۔ اسی طرح پڑوسی ممالک میں پناہ لینے والے شدت پسندوں کی جانب سے
بلوچستان میں دہشت گردی اپنے عروج پر رہی ہے۔ ایک طے شدہ ایجنڈے کے تحت
بلوچستان کو ملک کے دیگر حصوں سے تنہا کرنے کے لئے منظم طور پر ایسی مہم
چلائی گئی جس کی وجہ سے یہ تاثر پاکستان بھر میں گیا کہ یہاں لسانی بنیادوں
پر کسی لسانی اکائی کے لئے بڑے خطرات موجود ہیں۔ پھر یکے بعد دیگرے ایسے
واقعات رونما ہونے لگے جس سے اس تاثر کو توقعت ملی۔ نام نہاد قوم پرستوں کی
جانب سے بھارت کی فنڈنگ پر پاکستان مخالف مہم عالمی سطح پر چلانے کی کوشش
کی جاتی رہی ہے لیکن ان کا یہ پروپیگنڈا اپنی موت آپ مر گیااور متعلقہ
اداروں نے موثر انداز میں کام کرکے عالمی سازشوں کو ناکام بنایا۔ بھارت تو
برملا نام نہاد قوم پرستوں کی پشت پناہی اور ان کے لئے مختص فنڈ کا اعلان
کرچکا ہے۔ ابھی حال ہی میں سی آئی ڈی نے19ایسے انتہائی مطلوب افراد کی
فہرست افغانستان کے حکام کو دی ہے جن کو افغانستان کی سرزمین پر دہشت گردی
کی تربیت دی جا چکی ہے۔ یہاںیہ انکشاف بھی ہوا کہ سینکڑوں پاکستانیوں کو
دہشت گردی کی تربیت دی جاچکی ہے۔ یہ انکشاف انتہائی تشویش ناک ہے۔ پاکستان
بارہا اس حوالے سے افغانستان کو آگاہ کرکے اپنی تشویش سے آگاہ کرتا رہا ہے
کہ کابل حکومت ان کالعدم گروپوں کے خلاف کاروائی کرے جنھوں نے افغانستان کی
سرزمین کو گڑھ بنایا ہوا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے کابل حکومت کی تمام تر توجہ
بھارتی ایما پر پاکستان کے خلاف الزام تراشی پر ہی مرکوز رہی ہے۔بلوچستان
میں شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے ہزارہ برداری کو خصوصی طور پر ٹارگٹ کلنگ
کا نشانہ بنا جارہا ہے اور یہ کوئی اتفاق نہیں ہے بلکہ افغانستان میں بھی
داعش کا نشانہ ہزارہ برداری سے تعلق رکھنے والے ہی ہوتے ہیں۔ 22 اپریل
کوکابل میں پارلیمانی انتخابات کے لئے ووٹر کارڈ جسٹریشن آفس میں داعش نے
ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا۔داعش مسلسل
فرقہ وارنہ بنیادوں پر نہتے عوام کو نشانہ بنا رہی ہے۔ داعش کی خراسان شاخ
نے 4 مارچکو ایک 25 منٹ کی ویڈیو جاری کی تھی جس میں شمالی اور مشرقی
افغانستان میں داعش کے قلعوں کی ایسے عسکریت پسندوں کے لیے جو عراق یا شام
نہیں پہنچ سکتے ''ہجرت کے لیے ایک انتخاب'' کے طور پر تشہیر کی گئی ہے۔ یہ
بات ایس آئی ٹی ای انٹیلی جنس گروپ نے 6 مارچ کو بتائی۔اس ویڈیو میں ایک
عسکریت پسند تاریخی علاقے جس میں موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان اور
ہمسایہ ممالک کے حصے بھی شامل ہیں، کا حوالہ دیتے ہوئے کہتا ہے کہ ''دنیا
کے ہر کونے میں (داعش) سے تعلق رکھنے والے ! خراسان (افغانستان)کو ہجرت کر
جاؤ۔ اگر تم عراق یا شام کو ہجرت نہیں کر سکتے تو خراسان (افغانستان)کو آ
جاؤ“۔
عالمی تناظر میں جائزہ لیا جائے تو اس بات سے ہر ذی شعور آگاہ ہے کہ عراق و
شام میں داعش کی شکست کے بعد دولت اسلامیہ کے شدت پسندوں کو ایک منصوبے کے
تحت افغانستان میں مضبوط کیا جارہا ہے۔ داعشیوں کی بڑی منظم تعداد پاکستان
کی قریبی سرحدوں پر مضبوط ٹھکانے بنا رہی ہے۔ حالیہ افغانستان میں ہونے
والے عام شہریوں کی ہلاکتوں کے پس منظر میں داعش کا کردار بھی کھل کر سامنے
آچکا ہے کہ داعش عراق و شام کی طرز پر فرقہ وارانہ بنیادوں پر نہتے عوام کو
دہشت گردی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ افغانستان میں سینکڑوں برسوں میں ان گنت
جنگیں اور خانہ جنگیاں ہو چکی ہیں لیکن ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ
فرقہ وارانہ بنیادوں پر قتل و غارت ہوئی ہو۔ نسلی و لسانی بنیادوں پر
افغانستان میں اختلاف سینکڑوں برسوں پر محیط ہے۔لیکن افغانستان میں داعش کے
افزائش کے بعد سے دیکھنے میں آرہا ہے کہ فرقہ وارنہ بنیادوں پر مساجد اور
عوامی مقامات کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ایسے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں جس
میں داعش نے افغانستان میں فرقہ وارانہ بنیادوں پر مذہبی مقامات کو نشانہ
بنایا۔ اسی طرح اس عالمی پراکسی وار کا دوسرا سب سے بڑا اہم عنصر ایسے
افراد کا بھی ہے جو افغانستان اور پاکستان سے اجرت پر بھرتی ہو کر عراق و
شام کی جنگ کا حصہ بنے۔ خاص طور پر افغانستان اور پاکستان سے بڑی تعداد میں
شام کی فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں میںجنگجو ملیشیاؤں نے بڑا اہم کردار ادا کیا
ہے۔ شام میں ایران اور روس کی فضائی کاروائیوں کی نتیجے میں مسلح مزاحمت
کاروں کو بڑے نقصانات سے دوچار ہونا پڑا ہے اور سات برسوں میں ساڑھے چار
لاکھ سے زائد افراد کی ہلاکتوں اور لاکھوں شامی عوام کی نقل مکانی و ہجرت
کے بعد اب صورتحال بتدریج شامی حکومت کے لئے بہتر ہوتی جارہی ہے۔مزاحمت
کاروں سے کئی علاقے خالی کرالئے گئے ہیں اور اب شام کی حکومت کی جانب سے
مہاجرین سے ملکیت کے ثبوت دینے پر واپس نقل مکانی کی اجازت دی جا رہی ہے۔
گو کہ یہ شامی حکومت کی جانب سے ملکیت کے کاغذات بطور ثبوت مہیا کرنے کا
فیصلہ غیر مناسب سمجھا جارہا ہے کیونکہ خانہ جنگی کے شکار ان مہاجرین نے
اپنی جانوں کو بچانے کے لئے ہجرت کی تھی ان حالات میں جب وہ اپنا سب کچھ کر
جا رہے تھے تو اس صورت میں کسی کی توجہ کس طور پر ملکیت کے کاغذات کو محفوظ
بنانے پر مرکوز رہ سکتی تھی۔جب کہ کارپیٹ بمباریوں کے نتیجے میں ان کے گھر
بھی تباہ ہورہے تھے اور ہوچکے ہیں۔ جہاں شامی عوام کی آباد کاری ایک بڑے
مسئلے کی صورت میں سامنے آرہی ہے تو دوسری جانب بشار الااسد کے دفاع کے لئے
لڑنے والے اور مخالفت میں لڑنے والے جنگجوؤں کی واپسی بھی ایک گھمبیر مسئلہ
بن چکی ہے۔جنگجوؤں کے دو گروپوں کی جانب سے واپسی ہو رہی ہے۔ ایک شکست
خوردہ ہونے کی وجہ سے پناہ گاہ تلاش کررہے ہیں تو دوسرا گروپ فاتحانہ انداز
میں اپنا مشن مکمل کرکے واپسی کی راہ لے رہے ہیں۔اب یہی دونوں گروپ کے
افرادمقامی طور پر بھی ایک دوسرے کے سامنے مدمقابل آرہے ہیں اور شام و عراق
کی جنگ اب افغانستان میں لڑی جا رہی ہے۔ تاہم پاکستان میں اس فرقہ وارنہ
جنگ کو لانے کی مسلسل سازش کی جا رہی ہے لیکن قانون نافذ کرنے والوں کی
مربوط حکمت عملی کی وجہ سے پاکستان اس وقت فرقہ وارانہ بنیادوں پر بڑی خانہ
جنگی کے اثرات سے بچا ہواہے۔ ریاستی اور قانون نافذ کرنے والوں کی بھرپور
کوششوں کی وجہ سے ایسی تمام سازشوں کو مسلسل ناکام بنایا جارہا ہے۔
فرقہ وارنہ بنیادوں پر داعش کے سہولت کاروں کی جانب سے پاکستان میں بھی
ٹارگٹ کلنگ کی جاری ہے۔ ٹارگٹ کلنگ وارداتوں سے قبل دہماکہ خیز مواد کے
استعمال کی وجہ سے کئی چھوٹے بڑے سانحات سے ہزارہ برداری کو بڑے جانی
نقصانات کا سامنا ہوچکا ہے۔ چونکہ دہشت گردوں کے لئے عام عوام ایک سافٹ
ٹارگٹ ہوتے ہیں اور ریاست کے لئے ممکن نہیں ہے کہ وہ ہزاروں افراد کو
انفرادی سیکورٹی فراہم کرسکے اس کے باوجود اجتماعی نقصان سے بچانے کے لئے
سیکورٹی اداروں نے بڑا فعال کردار ادا کیا اور دہشت گرد شدت پسندوں کو بڑی
کاروائیوں کرنے سے روکے رکھا ہے۔ لیکن ایسے واقعات میں کمی نہیں آرہی جس
میں سیکورٹی اداروں، پولیس اور شہریوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا جاتا
ہے۔بلوچستان میں نام نہاد قوم پرستوں کے پھن کو کچلا جا چکا ہے لیکن وہ
مملکت کو انتشار میں مبتلا کرنے کے لئے کسی بھی سازش میں شریک کار و سہولت
کاری کا کردار ضرور ادا کررہے ہیں۔ ایران جانے والے زائرین کو بسوں سے اتار
کر دہشت گردی کا نشانہ بنانے کی کوششوں کو سیکورٹی اداروں نے حکمت عملی کے
تحت بڑی کامیابی سے کنٹرول کرلیا ہے اور ان کے ٹھکانوں پر مسلسل حملوں سے
انہیں پسپائی پر مجبور کیا ہے۔ چونکہ بلوچستان ایک عرصے سے مخصوص گروہوں کی
سازشوں کا اکھاڑہ بنا ہوا ہے اس لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب
سے ٹارگٹڈ کاروائیاں کیں جاتی ہیں تاکہ عام شہری کو کم ازکم نقصان پہنچے۔
ہزارہ برادری کی ٹارگٹ کلنگ کو نسل کشی قرار دیا جاتا ہے۔ اور اس حوالے سے
بد ظنی پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ پاکستان میں صرف ایک ہی گروہ کو
نشانہ بناتا ہے تو یہ زمینی حقائق نہیں ہیں۔ بلاشبہ بلوچستان میں سافٹ
ٹارگٹ ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کی بڑی تعداد ہے۔ لیکن بلوچستان
میں دیگر لسانی اکائیوں کے خلاف بھی دہشت گردی کی بڑی کاروائیاں کی جا چکی
ہیں جن کا تعلق ہزارہ برادری سے نہیں تھا۔ بلو چستان میں اچانک فرقہ واریت
میں شدت پسندی کی لہر اٹھنے میں کئی عنصر شامل ہیں۔ جن کے سدباب کے لئے ان
ہی صفحات میں بڑی صراحت کے ساتھ وضاحت کی جا چکی ہے کہ پاکستان میں فرقہ
وارنہ خانہ جنگیوں کے لئے مخصوص عناصر عالمی سازشوں کو پروان چڑھا نے کی
کوشش کررہے ہیں۔ بلوچستان میں حالیہ تمام دہشت گردیوں اور شدت پسندی کے
واقعات کا تعلق براہ راست سی پیک منصوبے کو غیر محفوظ ثابت کرنے کی عالمی
سازشیں ہیں۔سی پیک منصوبے کے خلاف بھارتی اور امریکا کے عزائم کھل کر سامنے
آچکے ہیں اور گوادر بندرگاہ کی وجہ سے اُن ممالک کو بھی کافی تحفظات ہیں جن
کی معاشی ترقی میں سمندری راہدریوں نے اہم کردار ادا کیا ہے۔اس لئے کسی بھی
امکان کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان کے اس عظیم منصوبے کو آستین
میں چھپے سانپوں سے بھی زیادہ خطرات لاحق ہیں۔ سیکورٹی اداروں کی مسلسل
کوششوں کی وجہ سے جہاں ماضی کے مقابلے میں دہشت گردی کے واقعات میں نمایاں
کمی ہوئی ہے تو دوسری جانب ملک دشمن عناصر اپنے مذموم مقاصد کو پورا کرنے
کے لئے فرقہ وارنہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی واردتوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
کالعدم تنظیمیں ان واقعات کے ذمے داریاں بھی قبول کررہی ہیں۔ لیکن ان کے
خلاف مربوط آپریشن کی راہ میں رکاؤٹ پاک۔ افغان بارڈر کا محفوظ نہ ہونا
ہے۔پاکستان اپنی مدد آپ کے تحت قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ شمال مغربی
سرحدوں کو محفوظ بنانے کی تگ و دو میں مصروف ہے لیکن دوسری جانب سے عدم
تعاون کے علاوہ مسلح حملے تشویش ناک ہیں۔ جب تک پاک۔ افغان سرحدی علاقو کو
محفوظ نہیں کرلیا جاتا، گنجلگ دشوار گذار راستوں سے دہشت گردوں کی نقل و
حرکت کو 2600کلو میٹر طویل مسافت پر گرفت کرنا اس وقت ممکن نہیں ہے۔ لیکن
حساس علاقوں میں چیک پوسٹوں کے قیام کے بعد بڑی دہشت گردی کے کاروائیوں میں
نمایاں کمی ہوئی ہے۔ بزدل دشمن چھپ کر قانون نافذ کرنے والوں کے کے گشت پر
جانے والی گاڑیوں کو بارودی سرنگوں کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔ اور عوامی
مقامات میں عام شہری کے بھیس اختیار کرکے قانون نافذ کرنے والے، خاص طور پر
پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے انفرادی نقصانات میں
اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ ایک طرف بزدلانہ کاروائیوں میں سیکورٹی فورسز کو
نشانہ بنایا جاتا ہے تو دوسری جانب منصوبہ بندی کے تحت فرقہ وارنہ کشیدگی
بڑھانے کے لئے بھی ٹارگٹ کلنگ کی جاتیہے جس سے عوام مشتعل ہو جاتے ہیں اور
ملک گیر سطح پر دہشت گردی کے ان واقعات کے خلاف مظاہرے اور دھرنے دیئے جاتے
ہیں۔ دہشت گردی کے ان واقعات کو مخصوص عناصر کی جانب سے ردعمل بھی قرار دیا
جاتا ہے لیکن نہتے و بیگناہ انسانوں کا قتل چاہے وہ کسی بھی مسلک، رنگ و
نسل سے ہو، اس کی اجازت اسلام یا کوئی بھی مہذب مذہب نہیں دیتا۔خاص طور پر
اسلام کے نام پر ایسی شدت پسندکاروائیاں کرنے والوں کا اسلام سے کوئی تعلق
نہیں جو اسلام کے نام پر بے گناہ انسانوں کی قتل و غارت کرتے ہیں۔ اور شدت
پسندی میں نہتے و بے قصور انسانوں کو فرقہ واریت کے نام پر نشانہ بناتے
ہیں۔پاکستان کی تمام لسانی و مذہبی کائیوں، خاص طور پر ہزارہ برداری کو اس
امر کو نظر انداز نہ کریں کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بار بار فرقہ
وارنہ یا لسانی بنیادوں پر خانہ جنگی کرانے کی کوشش و سازشوں کو ملکرناکام
بنانا ہوگا۔ |