تصویر ہٹا دینے سے یہ تنازع ختم ہوجائے گا ؟

 کس کا وجود ناقابل برداشت ہے ؟ محمد علی جناح کی تصویر کا یا خود علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کا ؟2 مئی کو ہند و یووواہنی کے دہشت گردوں نے کس پر حملہ کیاتھا؟ اے ایم یو پر ۔وہاں کے طلبہ پر ۔محمد علی جناح کی تصویر پر،اسٹوڈینٹ یونین کے دفتر پر یا پھر سابق نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری پر؟ ۔اے ایم یو تنازع کے پس منظر میں ہمیں کچھ بولنے اور لکھنے سے پہلے ان سوالوں کا جواب تلاش کرناہوگا ۔ہمیں یہ بھی دیکھنا ہوگا کیا پہلی مرتبہ اے ایم یو کولیکر آر ایس ایس اور ہمنوا تنظیموں نے ہنگامہ کیا ہے یا اس سے پہلے اس طرح ہوچکاہے ۔

آر ایس ایس اوربی جے پی کوپریشانی محمد علی جناح کی تصویر آویزاں کرنے یا انہیں لائف ٹائم ممبر شپ دیئے جانے سے نہیں بلکہ خود علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی سے ہے ۔مختلف معاملوں کو لیکر بارہا علی گڑھ کی شبیہ مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ہے ،اس کے اقلیتی کردار کو بحال نہیں کیاجارہے ،کچھ سالوں قبل علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے درمیان سے لفظ مسلم کو ہٹانے کا شوشہ چھوڑاگیاتھا،گذشتہ رمضان میں میڈیا نے یہ پیروپیگنڈہ کیاتھاکہ دن میں وہاں فوڈ فراہم نہیں کرکے غیر مسلم طلبہ کو روزہ رکھنے پر مجبور کیاجاتاہے اور اب اسٹوڈینٹ یونین کے مرکزی دفتر میں 80 سالوں سے آویزاں بانی پاکستان محمد علی جناح کی تصویر پر ہنگامہ کھڑا کیاگیاہے ۔بی جے پی اور حکومت ہند اس میدان میں تنہا نہیں ہے ۔برٹش حکومت میں بھی اے ایم یو کم پریشانی کا سامنا نہیں کرناپڑاتھا ۔1875 میں قائم ہونے والے محمد اینگلیو اورینٹل کالج کو 1920 میں منظوری ملی جبکہ بہت بعد میں قائم ہونے والی بنار س ہندو یونیورسیٹی کو 1915میں ہی منظوری دے دی گئی تھی ۔

محمد علی جناح اچھے تھے یا برے یہ فیصلہ کرنے سے پہلے یہ مانناہوگا کہ وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے ،ہندوپاک کی تاریخ مہاتماگاندھی ،پنڈٹ جواہر لال نہرو ۔محمد علی جناح ۔سردار پٹیل اور مولانا ابوالکلام آزاد کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی ہے۔فن تاریخ کا اصول ہے کہ تاریخ سے کسی کا نام نہیں ہٹایاجاسکتاہے ۔اس کے کردار کے ساتھ نام کو باقی رکھنا ضروری ہوتا ہے ۔فرعون ۔نمردو ۔ہامان ۔ابوجہل وغیرہ سے زیادہ بدتر انسان کوئی روئے زمین پر پیدا نہیں ہواہے لیکن تاریخ میں اس کابھی نام باقی ہے ۔ہمارے وزیر اعظم نریندر مودی اور لال کرشن اڈوانی کا نام بھی ان کے کرداروں کے ساتھ تاریخ میں ہمیشہ باقی رکھاجائے گا۔

علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے یونین کی یہ عمارت ایک صدی پرانی ہے ۔1884 میں اس کی تعمیر مکمل ہوئی تھی ۔ملک میں اسٹوڈینٹ یونین کی سب سے قدیم عمارت وہ مانی جاتی ہے ۔مختلف مذاہب اور علاقے سے تعلق رکھنے والوں کو اسٹوڈینٹ یونین کی جانب سے بطور اعزاز کے لائف ٹائم ممبر شپ دی گئی ۔مہاتماگاندھی ۔پنڈ ٹ نہرو ۔ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر ۔مدر ٹریسا سمیت کئی نام اس میں شامل ہیں ۔1936 میں محمد علی جناح کو بھی لائف ٹائم ممبر شپ کے اعزاز سے نوازاگیا ۔1938 میں تمام اعزاز یافتہ ممبران کی تصویر وہاں آویزاں کی گئی اس میں بانی پاکستان محمد علی جناح کی بھی تصویر شامل ہے ۔جس وقت یہ تصویر آویزاں ہوئی تھی اس وقت محمد علی جناح مہاتماگاندھی کے ساتھ آزادی کے جنگ لڑرہے تھے ان کی توجہ قیام پاکستان کے بجائے انگریزوں کو بھگانے پر مبذول تھی ۔اس وقت ان کی حیثیت گاندھی اور نہرو جیسی تھی ۔وہ تقسیم ہند کے ذمہ دار ضرور ہوسکتے ہیں،لیکن مجاہد آزادی کی فہرست سے ان کا نام خارج نہیں کیاجاسکتاہے ،ہندوستان کو آزاد کرانے کیلئے ان کی جدوجہد اور خدمات کو تاریخ کے صفحات سے مٹایا نہیں جاسکتاہے ۔جب بھی مہاتما گاندھی اور نہر و کا نام آئے گا محمد علی جناح کا نام بھی لازمی جز بن کر شامل ہوجائے گا ۔اگر اعتراض نفس تصویر پر ہے تو یہ صرف علی گڑھ کے یونین ہال میں نہیں ہے بلکہ دہلی کے میوزم میں بھی ہے ۔مہاتماگاندھی کے ساتھ ان کی تصویر ہے ۔ممبئی میں جناح ہاؤس موجود ہے ۔ممبئی کی ایک سڑک کا نام بھی ان سے منسوب سے ہے (محمد علی روڈ )۔پارلیمنٹ میں بھی ان کی تصویر آویزاں ہے ۔بی جے پی کے سابق صدر اور نائب وزیر اعظم ایل کے اڈوانی نے 2005 میں پاکستان جاکر ان کے مقبرہ پر پھولوں کا گلدستہ پیش کیاتھا ۔رجسٹر میں لکھاتھا ’’تقسیم ایک ایسا سچ ہے جسے ٹالانہیں جاسکتاتھا۔محمد علی جناح ہندو مسلم یکتا کے علمبردار تھے ۔کچھ لوگ تاریخ میں اپنی شناخت قائم کرجاتے ہیں لیکن وہ کم لوگ ہوتے ہیں جو د خود تاریخ بن جاتے ہیں قائد اعظم ان میں سے ایک تھے‘‘ ۔جسونت سنگھ نے پاکستان کا دورہ کرنے کے بعد ان کی حیات پر ایک کتاب ہی لکھ دی تھی ۔جب جناح کی وفات ہوئی تو ہندوستان کی پارلیمنٹ میں انہیں قائداعظم کے خطاب کے ساتھ خراج عقیدت پیش کیاگیا ۔ایک طویل فہرست ہے ایسے غیر مسلم مورخین ،محققین اور مفکرین کی جنہوں نے سب کچھ کے باوجود محمد علی جناح کو تاریخ کا اہم باب اور آزادی کی اہم شخصیت کی فہرست میں شامل کیاہے ۔

آج80 سالوں بعد محمد علی جناح کی تصویر پر اعتراض بے معنی نہیں ہے اس کے پیچھے سیاست ہے ۔گذشتہ چارسالوں میں عوام نے یہ محسوس کرلیاہے کہ بی جے پی کو جب بھی اپنی شکست نظر آتی ہے تو وہ ماحو ل کو فرقہ وارانہ رنگ دینے اور ہندوؤں کی ہمددری حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہے ۔یہ تدبیریں بھی جب ناکام ہوجاتی ہے تو پھر وہ پاکستان کا سہارا لیتی ہے ۔یاد کیجئے 2015 کا بہار اسمبلی انتخاب ۔عظیم اتحاد کے سامنے جب بی جے پی کو اپنی شکست یقینی نظر آئی تو قومی صدر امت شاہ نے کہا’’ اگر بی جے پی ہار گئی تو پاکستان میں پٹاخے پھوٹیں گے ‘‘۔ اتر پردیش اور دیگر ریاستوں کے انتخابات سے قبل پاکستان کے خلاف’’ سرجیکل اسٹرائک‘‘ کا ڈرامہ رچاگیا جس کے حقیقی اور فرضی ہونے پر اب تک بحث جاری ہے ۔گجرات اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی جانب سے سخت ٹکر ملنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے پاکستان کا سہار الیتے ہوئے کہاتھاکہ پاکستان احمد پٹیل کو وزیر اعلی بنانا چاہتاہے ۔انہوں نے کانگریسی لیڈر منی شنکر ایئرکے ساتھ سابق وزیر اعظم منموہن سنگھ پربھی پاکستان کے ساتھ خفیہ ڈیل کرنے کا الزام عائدکیا۔ کرناٹک میں بی جے پی نے اپنی شکست یقینی نظر آنے کے بعد یہی کارڈ کھیلتے ہوئے بڑی چالاکی سے بانی پاکستان کی تصویر پر اعتراض کرکے ہندوو ووٹوں کو کانگریس سے برگشتہ کرکے اپنی جانب منتقل کرنے کی کوشش کی ہے ۔ علی گڑھ سے بی جے پی ایم پی ستیش گوتم نے کوئی اپنی مرضی سے اے ایم یو کے وائس چانسلر کو خط لکھ کر محمد علی جناح کی تصویر پر جواب طلب نہیں کیاہے ۔اس کے بعد جو کچھ ہواہے اس نے واضح کردیاہے کہ یہ منصوبہ سازش کا حصہ تھا ۔عین انتخابات کے دوران میڈیا کا استعمال کرکے اسے قومی ایشو بناناتھا ۔

حامد انصاری ہندوستانی تاریخ کے اہم اشخاص میں سر فہرست ہیں ۔ان کی فیملی کے 18 لوگوں نے انگریزوں کے خلاف جہاد میں حصہ لیاہے ۔تحریک خلافت اور کانگریس پارٹی سے گہرا رشتہ رہاہے ۔وہ خود عظیم ڈپلومیٹ ہونے کے ساتھ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں ۔دوسری طرف یہ بھی سچائی ہے کہ حامد انصاری صاحب بی جے پی کو کبھی نہیں بھائے ۔نائب صدر رہنے کے دوران بھی انہیں ٹارگٹ کیاگیا اور اب ریٹائر ہونے کے بعد انہیں نشانہ بنایاجارہاہے ۔اگست 2017 میں جب راجیہ سبھا میں حامد انصاری کو الوداعیہ پیش کیاجارہاتھا اس وقت وزیر اعظم نریندر مودی نے ان کیلئے چبھتی ہوئی زبان استعمال کرتے ہوئے کہاتھاکہ جو بے چینی تھی اب وہ ختم ہوجائے گی ۔دس سالوں تک آپ نے خود کو آئین اور دستور کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کی ،اس دوران بہت ساری بے چینی رہی تاہم اب وہ نہیں ہوگی ،سوچ وفکر کے اعتبار سے آزادی مل جائے گی ۔ان کے جانشیں بننے والے موجودہ نائب صدر جمہوریہ وینکیانائیڈو نے بھی کچھ ایسی زبان استعمال کی تھی ۔2017 میں انہوں نے کیرلامیں ایک بین الاقوامی خواتین کانفرنس میں شرکت کی تھی۔راقم الحروف بھی اس کانفرنس میں موجود تھا۔ اس موقع پر بھی فرقہ پرست طاقتوں او رحکمراں جماعت کے لوگوں نے ان پر تنقید کی ۔نائب صدر رہتے ہوئے مشاورت کی گولڈن جبلی تقریب میں ہوئی ان کی تقریر پر بھی ہنگامہ مچایاگیا ۔گذشتہ دنوں جب علی گڑھ میں اسٹوڈینٹ یونین کی لائف ٹائم ممبر شپ دیکر ایک اہم تایخ کا حصہ بنانے کیلئے انہیں مدعو کیا گیاتوبھگوا طاقتوں کو یہ برداشت نہیں ہوسکااور پوری پلاننگ کے ساتھ ہندو یووا واہنی کے دہشت گردوں نے ان پر حملہ کیا ۔پولس نے سابق نائب صدر جمہوریہ کو تحفظ فراہم کرنے کے بجائے دہشت گردگروپ کی حمایت کی ۔عینی شاہدین کا کہناہے کہ اگر بروقت طلبہ وہاں نہیں پہونچتے تو حامد انصاری پر حملہ کرنے میں یہ دہشت گردو کامیاب ہوجاتے ۔افسوس کا لمحہ یہ ہے کہ پولس نے مسلح حملہ آور کو گرفتار کرنے کے بجائے رہاکردیا اور الٹے مظاہرہ کررہے طلبہ پر لاٹھیاں برسادی ۔

اے ایم یو کے طلبہ کا احتجاج جاری ہے ۔ان کا مطالبہ ہے کہ مسلح حملہ آور وں کے گرفتارکر کے ان کے خلاف کاروائی کی جائے ۔لاٹھیاں چار ج کرنے والے پولس اہلکاروں کو معطل کیاجائے ۔وہ اس موقف پر بھی قائم ہیں کہ محمد علی جناح ہندوستانی تاریخ کا لازمی جز ہیں ان کی تصویر نہیں ہٹائی جائے گی ۔اے ایم یو کی انتظامیہ وہاں کے اساتذہ سبھی یونین کے ساتھ ہیں ۔اس پور ے قضیہ میں یہ سوال موضوع بحث ہے کہ کیا محمد علی جناح کی تصویر ہٹادینے سے اے ایم یو کا تنازع ختم ہوجائے گا؟ ۔بی جے پی ،سنگھ اور فرقہ پرستوں کی جانب سے آئند ہ نشانہ نہیں بنایاجائے گا؟ ۔مستقبل میں کسی اور معاملے کو لیکر اے ایم یو پر حملہ نہیں کیاجائے گا ؟کسی اور ادارے کی تاریخ سے چھیڑ چھاڑ نہیں کی جائے گی ؟ آپ کا جواب ہاں اور نہیں دونوں میں ہوسکتاہے لیکن اس سے پہلے ان سوالوں کے تشفی بخش جوابات حاصل کرلیں کہ بی جے پی کو تکلیف جناح کی تصویر سے ہے یا اے ایم یو کے وجودسے ؟۔وہاں تعلیم حاصل کرنے والے مسلم طلبہ سے؟ ۔مسلمانوں کی تعلیمی ومعاشی ترقی سے؟ ۔ان کا اگلا اعتراض یونیورسیٹی کے نام میں شامل لفظ مسلم پر ہوگا ۔کہاجائے گا ایک سیکولر اور جمہوری ملک میں کسی تعلیمی ادارے کا نام کسی ایک مذہب کے نام پر نہیں ہوسکتاجس کے اخراجات حکومت اداکرتی ہو ۔کبھی کیمپس میں موجود مساجد کو لیکر ہوگا ۔کبھی کسی طالب علم کو پاکستان کا ایجنٹ کہکر سلاخوں کے پیچھے ڈال دیاجائے گا ۔کبھی شعبہ اسلامیات کو بنیاد بناکر طالبانی فکر کو پروان چڑھانے کا الزام عائد کیاجائے گا ۔اقلیتی کردار کا معاملہ پہلے سے ہی زیر بحث ہے ۔

Shams Tabrez Qasmi
About the Author: Shams Tabrez Qasmi Read More Articles by Shams Tabrez Qasmi: 214 Articles with 180498 views Islamic Scholar, Journalist, Author, Columnist & Analyzer
Editor at INS Urdu News Agency.
President SEA.
Voice President Peace council of India
.. View More