خواجہ آصف کی نااہلی نے سیاسی درجہ حرارت مزید بڑھا دیا
ہے ۔ سیاستدانوں کی صفوں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے اور کسی کو کچھ بھی سجھائی
نہیں دے رہا کیونکہ ایک کے بعد دوسرا عدلی شکنجے میں پھنستا چلا جا رہا ہے
۔دوسری طرف خان صاحب نے مینار پاکستان میں بہت بڑا جلسہ کر کے تخت لاہور کو
بوکھلا دیا ہے ۔ہر طرف بوکھلاہٹ اور خجالت پر مبنی بیانیوں سے الیکٹرانک
،پرنٹ اور سوشل میڈیا اٹا پڑا ہے ۔اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ کے مصداق
سبھی پارٹیاں جلسے جلوسوں میں اپنی اچھائیاں اور دوسروں کی برائیاں بیان
کرنے میں مصروف ہیں جبکہ بادی النظر میں پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتیں
فرینڈلی اپوزیشن کا مذموم وعدہ نبھاتے ہوئے موجودہ کرپٹ انداز حکمرانی نظام
کو بچانے میں کوشاں ہیں ۔
تاہم خواجہ آصف کی نا اہلی نے ن لیگ کے سیاسی چہرے کو مزید داغدار کر دیا
ہے ۔وزیراعظم نا اہل ، وزیر خارجہ نا اہل اور وزیر خزانہ اشتہاری اور جو
لوگ بچے ہیں ان کے بارے مبینہ الزامات کی لمبی فہرستیں تیار ہو رہی ہیں ۔ن
لیگ کا مستقبل غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے یہی وجہ ہے کہ کھسیانی بلی
کھمبا نوچے کے مصداق ن لیگی وزرا کے بیانات اور انداز جھنجلاہٹ میں
اخلاقیات کادامن چھوڑ چکے ہیں ۔ رانا ثنا اﷲ اور عابد شیر علی نے خصوصاً
خواتین بارے حسبِ روایت نا زیبا گفتگو کو اپنا وطیرہ بنا لیا ہے جبکہ خواجہ
آصف بھی اس میں پیش پیش رہے ہیں اور طلال چوہدری کا انداز گفتگو اور الفاظ
کا چناؤ ہمیشہ سے سوالیہ نشان چلا آ رہا ہے ۔ احسن اقبال کہتے ہیں کہ ہماری
بھی کوئی عزت ہے ایسے میں عوام سوال کرتے ہیں کہ کیا عام آدمی کی کوئی عزت
نہیں جبکہ ایسے لوگوں کو تو ہم نے منتخب نہیں کیا تھا جو صرف ذاتی وفا
داریاں نبھانے پر مامور چلے آرہے ہیں۔
اب جبکہ وزیراعظم کے بعد وزیر خارجہ بھی تا حیات نا اہل ہو چکے ہیں ایسے
میں دیگر وزراء اور سیاستدانوں کو اپنا انجام نظر آرہا ہے کیونکہ اکثریت نے
اپنا اقامہ اور اثاثے چھپارکھے ہیں۔ ایسے میں ہرکوئی سوچ رہا ہے کہ اگلی
باری کس کی ہوگی ۔خواجہ آصف کی نا اہلی بھی اقامہ پر ہوئی ہے جس پر لیگی
وزراء اور رفقاء کا جو ردعمل سامنے آیا وہ انتہائی افسوسناک تھا۔ ان کے
مطابق اقامہ بیرون ملک سفر میں سہولت کے لیے ہوتا ہے اس سے زیادہ اس کی
کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ اوپر والے اقامے کو جواز بنا کر جمہوریت کا گلا
گھونٹنا چاہتے ہیں اور یہ ذاتی دشمنی ہے۔
سوال یہ ہے کہ اقامہ کیوں لیا جاتا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اقامہ خفیہ
ویزہ ہے اور اس لیے لیا جاتا ہے کہ ویزے کی ضرورت نہ پڑے تو غلط نہ ہوگا
۔کیونکہ جب دل چاہا دوسرے ملک چلے گئے اور کسی کو پتہ بھی نہ چلا کہ یہ
عہدے دار یا وزیر کب اور کس لیے باہر گیا تھا۔جبکہ اس کے پس پردہ
تفریح،سیاسی رازو نیاز ،کاروبار ،پیسوں کی منتقلی وغیرہ شامل ہے اگر آپ
اقامہ ہولڈروں کا ریکارڈ نکالیں تو سترفیصد سیاستدانوں اور عہدے داران کے
پاس اقامہ موجود ہے اور ان کے بیوی بچے ،کاروبار الغرض ہر چیز باہر ہے ۔وہ
یہاں سے لوٹ کھسوٹ کرتے ہیں جسے ’’فیوچرسیونگ‘‘ کہا جاتا ہے اور سب کچھ لے
کر رفو چکر ہو جاتے ہیں ۔اب یہ سب بلا تاسف کہہ رہے ہیں کہ اقامہ رکھا ہوا
ہے کوئی جرم نہیں کیا مگر سزا انھیں ہو رہی ہے جنھوں نے ڈکلیئر نہیں کیا
اور اقامے کے نام پر ملکی پیسہ خورد برد کیا ہے ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ
عام آدمی نہیں بلکہ سیاسی بھائی ہی ایک دوسرے کا کچا چٹھا کھول رہے ہیں اور
سر عام پگڑیاں اچھل رہی ہیں ایسے میں یہ غم بھی لاحق ہے کہ دنیا کیا کہے
گی؟
عرض ہے کہ یہ تو ہونا ہی تھا ہم نے پہلے لکھ دیا تھا کہ پگڑیاں اچھالنے کا
سلسلہ بند کر دیں کیونکہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو کوئی سر نہیں بچے گا
۔کہنے کو تو سبھی یہی کہتے ہیں کہ
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیا دیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
مگر کمرہ عدالت میں جا تے ہیں گڑگڑانے لگتے ہیں ’ ’ مری توبہ ،مر ی توبہ
‘‘۔جناب چیف جسٹس ایک محبت وطن شخص ہیں اور وہ برائی کے خلاف جہاد کر رہے
ہیں بدیں وجہ سبھی کی آنکھ میں کھٹک رہے ہیں یہی وجہ ہے کہ کرپٹ عناصر اپنی
پشیمانیاں اور رسوائیاں چھپانے کے لیے دن رات سوشل میڈیا پر انھیں ٹارگٹ
کرتے رہے ہیں مگر چہرے کے داغ یوں نہیں چھپتے اوراب تو پاکستان کا بچہ بچہ
کہہ اٹھا کہ سچ ہے کہ جمہوریت آمریت سے بہتر ہے مگر جمہوریت شفافیت کے بغیر
بیکار ہے ۔۔!جناب چیف جسٹس کے کرپشن کے خلاف حالیہ اقدامات نے کرپشن کی
جڑیں ہلا کر رکھ دی ہیں ۔دکھ والی بات یہ ہے کہ جناب چیف جسٹس جس بھی جگہ
جاتے ہیں یا جس بھی کیس کو اٹھاتے ہیں کرپشن کے سراغ ہی ملتے ہیں ایسا لگتا
ہے کہ دیکھا دیکھی آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مگر سبھی دکھنے کو حاجی ہیں ۔
بعض مبصرین کے مطابق وزیر خارجہ کی نا اہلی سے خارجہ امور کے معاملات متاثر
ہونگے کیونکہ ایسی صورتحال میں ملک کے اندر پائے جانے والے عدم استحکام اور
غیر یقینی صورتحال کا تاثر ملتاہے ۔ دوسرے ممالک یہ سوچنے پر مجبور ہوجائیں
گے کہ ہم پاکستان کی جس اہم شخصیت سے ملاقات کر رہے تھے وہ صادق اور امین
نہیں تھا تو ایسے میں بیرونی دنیا میں پاکستان کی ساکھ متاثر ہو گی۔ایسے ہی
خیالات ن لیگی قائدین اور انکے رفقاء کے ہیں ۔وہ کہتے ہیں کہ پاکستان ایسا
ملک بن چکا ہے کہ جہاں وزیراعظم اور وزیر خارجہ نا اہل ہو چکے ہیں اور وزیر
خزانہ کرپشن کے الزامات کیوجہ سے باہر بیٹھا ہوا ہے ایسے میں پاکستان سے
اہم مذاکرات اور سفارتی معاہدے کرنے والوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ پاکستان کے
ساتھ کیے جانے والے معاملات کا انجام کیا ہوگا ۔
جہاں تک بات ہے وزیرخارجہ کی نا اہلی کی تو امور خارجہ کے ماہرین کی رائے
کے مطابق خارجی سطح پر کوئی بحران پیدا ہونے کا اندیشہ نہیں ہے کیونکہ آپ
جن ممالک کی بات کر رہے ہیں وہاں کرپشن کا الزام بعد میں ثابت ہوتا ہے پہلے
وہ وزیر یا عہدے دار ازخودمستعفی ہو جاتا ہے جبکہ کوئی دوسرااہل اس کی جگہ
لے لیتا ہے ۔ایسا صرف پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ الزام ثابت ہونے پر بھی
اعلیٰ اور ذمہ دار اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کی جاتی ہے کیونکہ اقتدار کی
ہوس ان میں ذلت اور عزت کو برابر کر دیتی ہے۔ پاکستان تو وہ ملک ہے جس نے
اپنے دور حکومت کا بڑا حصہ بغیر وزیر خارجہ کے گزارا ہے تو ایسے میں کسی کو
کیوں فکر لاحق نہیں ہوئی تھی کہ بیرونی دنیا سے تعلقات اور معاہدات کن
ذماداران کے کندھوں پر کئے جا رہے تھے ۔اور سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ
معاملات اور مذاکرات دو ممالک کے مابین ہوتے ہیں کسی انفرادی شخصیت کے ساتھ
نہیں ہوتے اور آج دنیا میں جس تیزی کے ساتھ تبدیلیاں واقع ہو رہی ہیں ایسے
میں پاکستان کو نئی خارجہ اور داخلہ پالیسی کی اشد ضرورت ہے تاکہ عوام میں
اشتراکیت کا جذبہ پیدا ہوسکے اور اقوام عالم میں پاکستان کا وقار بلند ہو
سکے بلاشبہ عدالتی فیصلوں سے قانون اور انصاف کا بول بالا ہوا ہے اور دنیا
کو پیغام ملا ہے کہ طاقتور اور کمزور کے لیے یکساں قانون اور قابل اعتماد
احتساب شروع ہو چکا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ دنیا کی مضبوط اور دلیر ترین
پاکستانی افواج قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہیں ۔
تحریک انصاف کے لاہور جلسہ نے تمام سیاسی جماعتوں پر اپنی دھاک بٹھا دی ہے
مگر خان صاحب کو ایک بات نہیں بھولنی چاہیئے کہ ان کی صفوں میں اکثر حالیہ
شامل سیاستدان مفاد پرست اور موقع پرست ہیں ۔یہ فائدہ دیں یا نہ دیں مگرقوم
کو نقصان ضرور دے سکتے ہیں کیونکہ ان کا ایجنڈا ملکی مفادات کا نہیں بلکہ
ذاتی مفادات کا تحفظ ہے ۔
اس میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ جلسے جلوسوں میں عوام کی تعداد کامیابی کا
تعین نہیں کر سکتی کیونکہ جو بھی جلسہ کرتا ہے وہ عوام کی اچھی خاصی تعداد
اکہیں نہ کہیں سے اکٹھی کر ہی لیتا ہے کیونکہ مزدور ، کسان اور محنت کش
پیسوں کے لالچ و دیگر مفادات کے تحفظ کے لیے سیاستدانوں کے ہاتھوں کٹھ پتلی
بننے پر مجبور ہوتے ہیں ایسے میں یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ سیاسی بساط
میں کون ہوگا کھلاڑی اور کون اناڑی ۔کیونکہ تعلیم سے نا بلد اپنا اچھا برے
کبھی نہیں سوچتے وہ نسل در نسل ذہنی غلامی کے قائل ہوتے ہیں اب جیسا کہ کل
مزدوروں کا عالمی دن منایا گیا ہے جبکہ ایک بھی مزدور نہیں جانتا تھا کہ اس
کا عالمی دن کیا منایا گیا ہے کیونکہ وہ اس دن بھی جھاڑو پوچے ہی لگا رہا
تھا اور بعدازاں بچا کچھا چھپا رہا تھا۔حالانکہ سیاستدانوں اور عہدے داروں
کے بیانات میں مزدرکی حالت زار کو بہتر کرنے کا عندیہ اور آئندہ کے لیے
دلکش وعدے اور دعوے سارا دن الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی زینت ر ہے۔ آج
ہمارے سیاستدانوں کو یہ خیال نہیں رہا کہ ان ہوشیاریوں ،مکاریوں اور
عیاریوں پر مبنی بیانات اور کارکردگی کے فرق کو دیکھ کر دنیا کیا کہے گی ۔ |