فوڈ اتھارٹی کی آنیاں جانیاں ، زہر بِکتا اور خریدتے بچے

عوام کو حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اشیائے خورد ونوش کی فراہمی ہرصورت یقینی بنانے کے لئے حکومت پنجاب کا ایک اہم قدم پنجاب فوڈ اتھارٹی کا قیام تھا وزیر اعلی پنجاب میاں شہباز شریف کے واضح اعلان اور احکامات تھے کہ غیرمعیاری دواؤں، جعلی وغیرمعیاری ادویات تیاروفروخت کرنے والوں کی طرح ملاوٹ مافیا کو بھی نشان عبرت بنائیں گے اور ملاوٹ مافیا کوانسانی صحت سے نہیں کھیلنے دیں گے،اس مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے پنجاب فوڈ اتھارٹی کا دائرہ کار تما م ڈویژنوں کے اضلاع وتحصیل تک بڑھا دیا گیا جدید گاڑیوں میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کے افسران اور ملازمین کی آنیاں جانیاں اور چھابڑی ، ریڑھی اور کھوکھے والوں کو عقابی نظروں سے ملاوٹ والی اشیاء فروخت کرتے پا کر جرمانوں کا لا متناہی سلسلہ شروع کیا گیاتو ہر طرف واہ واہ ہوگئی ہوتی بھی کیوں نا آخر چند سو کمانے والا جب ہزاروں روپے جرمانہ ادا کرنے کے لئے اپنے گلی محلے کے گھر گھر سے اُدھار مانگے گا تو فوڈ اتھارٹی کا نام ہر شخص کویاد ہو جائے گا آغاز میں توقع یہ تھی کہ بہت جلد پنجاب کیا پورا پاکستان ملاوٹ مافیا سے چھٹکارا پالے گا خاص طور پر پنجاب فوڈ تھارٹی کی چھاپہ مار ٹیموں میں خواتین کی ملازمت نے تو کمال ہی کر دیا ایک طرف جرمانوں سزاؤں کا اختیار اوپر سے پڑھی لکھی ملازم پیشہ خواتین کی عزت ومرتبہ کا خیال، ورنہ عام شخص کی ماں بیٹی بہن بیوی کی عزت واحترام کتنا ہوتا ہے؟ ؟؟ہم آئے روز خبریں پڑھتے سنتے اور دیکھتے رہتے ہیں اگرچند جنسی بھیڑیوں سے بچ جائیں تو اُنکی شکایت لے کر تھانہ جانے پر بے بسی کی تصویر بنی نظر آتی ہیں ، راقم نے بارہا اپنے شہر میں دیکھا کہ فراٹے بھرتی پنجاب فوڈ اتھارٹی کی بڑی سی گاڑی سے فوڈ اتھارٹی میں ملازم پیشہ خواتین موبائل کیمرہ اور جرمانوں والی کاپی سمیت کسی ریڑھی ،چھابڑی ،کھوکھے ،چھوٹی دوکان کے پاس جاکر اپنی تمام تر شان وشوکت سے سامنے بیٹھے دوکاندار کو دیکھنے کے اُس کے سامان کو اُلٹ پلٹ کرنے اور چند کرخت جملے ادا کرنے کے بعدموبائل سے تصاویرلیتی اوروہاں موجود سامان سیل کرتی جرمانے کی رسید ہزاروں روپے چند سو روپے کمانے والے کوتھمانے کے بعد اگلی منزل کی جانب روانہ ہوجاتی ہیں مانا کہ ہمارے ہاں شہروں دیہاتوں اور چکوک میں کھانے پینے کی اشیاء ایسے مقام پر فروخت کے لئے رکھی جاتی ہیں جہاں سے گندہ نالہ بہہ رہا ہوتا ہے یا گندگی کے ڈھیر قریب ہی ہوتے ہیں لیکن میرا سوال یہ ہے کہ چھابڑی ،کھوکھا ،ریڑھی والوں کو جرمانہ کر کے آپ خورد ونوش کا غیر معیاری سامان بڑے پیمانے پر تیار کرنے والوں کو کیسے روک سکتے ہیں ؟ہر صاحب عقل کا جواب ہو گاکسی صورت نہیں ،تو پھرہم صاحب اقتدار اورپنجاب فوڈ اتھارٹی کے اعلی حکام سے گزارش کرتے ہیں کہ صرف چند گِنے چُنے غیر معیاری ناقص اشیاء بنانے والوں کی فیکٹریوں کو جرمانے اور سیل کرنے سے یہ زہر بازاروں میں فروخت ہونے سے رُکنے والا نہیں وسیع پیمانے پر بِلا تفریق کاروائی کرنے سے ہی یہ غیر معیاری خوردونوش کی ناقص اشیاء چھوٹی دکانوں اور چھابڑی والوں تک نہیں پہنچ پائیں گی ہمارے ہاں قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کرنے والے اکثربا اثر قانونی گرفت سے بچ نکلتے ہیں۔ پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے بڑے بڑے اشتہار شائع ہوتے ہیں کہ غیر معیاری مشروبات اور ناقص اشیاء بنانے والوں کے خلاف کاروائی ہوگی تو پھر بازاروں میں جگہ جگہ فروخت ہوتی رنگ برنگی بچوں کی ٹافیاں ،سلانٹیاں ،مشروبات کیوں نظر آتے ہیں؟ جنہیں کھا کر بچے بیمار اور مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں آخر گلی محلے تک یہ ناقص اشیاء پہنچنے سے پہلے کہیں تیار بھی ہوتی ہونگی؟ اُنہیں جرمانے اور فیکٹریوں کو سیل کرنے کی ضرورت ہے ۔قارئین کرام !موسم گرما کا آغاز ہو چکا ہے میرے شہر کے گلی کوچوں میں غیر معیاری کھانے پینے کی اشیاء جو خاص طور پر بچوں کے لئے ہی تیار کی جاتی ہیں سرعام فروخت ہورہی ہیں جبکہ محکمہ فوڈ اتھارٹی اپنے تمام تر قانونی اختیارات کے ساتھ بھی یہاں موجود ہے پھر کیا وجہ ہے کہ غیر معیاری خوردونوش خاص طور پر دودھ بھی ملاوٹ سے پاک نہ ہو سکا ہے ہزاروں روپے تنخواہ پر رکھے فوڈ اتھارٹی کے ملازمین اگرسیکورٹی ایجنسیوں سے مل کر ملاوٹ خور مافیا کے خلاف بھر پور کاروائی کریں تو مثبت نتائج نظر آئیں گے معمولی کاروبار کرنے والوں کے خلاف کاروائیوں سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا کاروائی کرنی ہے تو بلا تفریق ملاوٹ خور مافیا کے سرغنوں کے خلاف کریں تاکہ اِس ادارے کے بنانے کا اصل مقصد حاصل ہوسکے ٭
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Mazhar Rasheed
About the Author: Muhammad Mazhar Rasheed Read More Articles by Muhammad Mazhar Rasheed: 129 Articles with 133663 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.