آزاد کشمیراسمبلی کی گڑیا اپوزیشن اور بے اثرپابندیاں

آزاد کشمیراسمبلی کی گڑیا اپوزیشن اور بے اثرپابندیاں

آزاد جموں وکشمیر قانون ساز اسمبلی کے اجلاس اپنے اصل مقام ہال میں ہوا کرتے تھے تو دو ہزار پانچ کے زلزلے سے پہلے تک گیلریوں میں سیاسی کارکنان اور دلچسپی رکھنے والے بھی سننے دیکھنے کیلئے موجود ہوا کرتے تھے بلکہ دو ہزار تک تو ان سب کو سیکھنے کے مواقع میسر تھے پھر جب عدم اعتماد کے کھیل چلے تو خطہ کے سب سے مقتدر ایوان کے حوالے سے دلچسپی ختم ہونے لگی اور رہی سہی کسر ایوان اسمبلی ہاسٹل کے لابنگ ہال میں منتقل کر کے نکال دی گئی ‘ اس لیے اب باامر مجبوری میڈیا ہوتا ہے یا پھر اسمبلی کے اندر بیٹھنے والوں کے سٹاف اور سیکورٹی کے متعلق آفیسرز اہلکاران ہوتے ہیں گزشتہ دو سال سے اسمبلی کے اندر ایجنڈے ہی سوالات قلیل المہلت سوالات تحریک التواء اور عوامی ایشوز پر قراردادوں کا وجود برائے نام ہی آ رہا ہے ‘ 49 کے ایوان میں گیارہ رُکنی اپوزیشن ہے مگر سابق وزراء اعظم چوہدری عبدالمجید ‘ سردار عتیق احمد خان اور اپوزیشن لیڈر چوہدری یٰسین ‘ سردار خالد ابراہیم جیسے بڑے نام ان میں شامل ہیں ان کی ذمہ داری بنتی ہے اس ایوان کی سابقہ روایات کو بحال کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ‘ بین الاقوامی قومی ایشوز پر بات کرنے کیلئے ایوان سے باہر بھی ان کی وہی اہمیت ہے جو ایوان کے اندر ہے ‘ اسمبلی اجلاسوں کے متعلق محض آئینی ضرورت پوری کرنے کیلئے نشست و برخاست اور ٹی اے ڈی اے کا تاثر ختم کرنے میں اپوزیشن کو کارروائی بامقصد بنانے چاہیے ‘ اپوزیشن سمیت حکومت میں سینئرز کے علم و تجربہ سے ان کے بعد آنے والے سیکھیں نہ اور جیسے تھے ویسے ہی رہیں تو پھر بہت بڑا ستم ہے ‘ پینے کا صاف پانی میسر نہ ہونا ‘ سیوریج لائنوں کا واٹر سپلائی لائنوں سے مکس ہو کر سوالیہ صورتحال ہے تو بے شمار بیماریوں اور ماحول کا بگڑتا طوفان ہو یا پھر تفریحی صحت مندانہ سرگرمیوں کے بحران سے حاشرات العرض کی طرح پیدا ہوئے معاشی ‘ سماجی مسائل ہوں ‘ قانون ساز اسمبلی کا کردار عوام کے لیے مشعل راہ ہونا چاہیے ‘ حکومتوں کا کام وسائل مہیا کرنا پالیسی دینا ہوتا ہے اور سرکاری مشینری عملدرآمد کرتی ہے پھر ہسپتالوں میں ایمرجنسی ادویات دیکر بُرا حال ہو ‘ تعلیمی بدحالی کے ختم ہونے کا نام ہی نہ لے ‘ سیاستدان اور سیاسی کارکنوں کو سب سے زیادہ شادیوں کی دعوت ہوتی ہے پھر سلامی سے لیکر گاڑی کے ڈیزل تک اخراجات کیلئے ہاتھ پاؤں نہ ماریں تو کیا کریں ‘ علماء کو بلاکر اس طرح کی رسومات پررشتہ داروں ‘ قریبی احباب تک محدود کرنا ‘ رہنمائی کرنا کسی کی ذمہ داری ہے ‘ اس وقت لوگوں کی اخلاقی فکری تربیت اور بہتری کیلئے ساز گار ماحول کیلئے بہت محنت ‘ اجتماعی کاوشوں کی ضرورت ہے یہ اچھی بات ہے اس بات راجہ قیصر قتل کیس میں گرفتاری کے طریقے پر دیوان محی الدین اور عبدالماجد خان نے بہت ذمہ داری سے اس المیہ پر آواز اُٹھائی اور سینئر وزیر طارق فاروق نے بغیر لگی لپٹی کے حقائق پسندانہ موقف اختیار کیا ‘ ان کا یہ تجزیہ انتظامیہ ‘ پولیس ‘ سرکاری آفیسران کے اندر ول پاور نہیں رہی ہے ‘ اور طریقہ گرفتاری پر ایکشن لیں گے ‘ ریاست کی اجتماعی بھلائی سے تعلق رکھتا ہے ‘ جرم کا تعلق کسی علاقے ‘ قبیلے ‘ جماعت ‘ سوچ فکر نہیں ہوتا ہے ‘ ہر معاشرے ۔۔۔ برادری میں اچھے بُرے لوگ ہوتے ہیں ‘ اس لیے بُرے عمل کو بُرا کہنا چاہیے ‘ نہ کہ علاقے ‘ برادری سوچ کو معیوب ٹھہرانا چاہیے ‘ یہ سب سے بڑا ظلم ہے تو جرم کرنے والے کے ساتھ اس کی سپورٹ کرنا بھی ظلم عظیم ہوتا ہے ‘ یہاں کابینہ اجلاس میں متاثرین کنٹرول لائن شہداء ‘ زخمیوں متاثرہ افراد کے نقصانات کیلئے واقعتا حوصلہ افزائی کے اقدامات لائحق تحسین ہیں مگر یہ سوشل میڈیا کے استعمال پر آفیسران ملازمین پر پابندی عائد کی گئی ہے ‘ ایس ایم بی آر فیاض عباسی سے لیکر سیکرٹری تعلیم زاہد عباسی تک سب سے تعزیت بنتی ہے ‘ بہت خوبصورت دنیا کے حسین علاقوں کے مناظر اور دیگر اشعار کے دیکھے دیکھانے پڑھنے پڑھانے سے احساس محرومی ‘ دل دُوریاں پیدا ہو گا مگر عمومی طور پر پابندیاں کسی بھی مسئلہ کا حل نہیں ہے ‘ بائیو میٹرک حاضری ‘ رُخصتی پر ایک آفیسر نے کیا آنا اور جانے کیلئے انگوٹھا لگانا ہوتا ہے ‘ درمیان میں نہیں لگانا ہوتا ‘ دروازے سے آؤ کھڑکی سے جاکر واپس آجاؤ اب فلمی ناموں سے سوشل میڈیا اکاؤنٹ چلیں گے اس لیے جن پر پابندی لگا رہے ہیں انہی کو بلا کر رضاکارانہ بات چیت کے ذریعے عملدرآمد کرانا زیادہ مناسب بات ہوتی ہے‘ لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کا واپس ہونا معمولی بات نہیں ہے ‘ اپنی گفتگو ‘ اعلانات اور اقدامات کو متنازعہ بنا کر پسپائی کے بجائے جس کے متعلق اُمور طے کیے جا رہے ہیں ان کو اعتماد میں لیکر کیے جائیں تو بلے بلے کرا ئی جا سکتی ہے ‘ فاؤنڈیشن کا تصور صرف ریسکیو ون ون ٹو ٹو ہے اس کو کشمیر کونسل نہ بنایا جائے اور پریس اینڈ انفارمیشن کا جو مطلوب ہے وہی رکھا جائے ‘ یہاں ساری عمر یا پندرہ بیس سال تک اقتدار میں رہنے کی گارنٹی ہے تو پھر آپ کی خاطر سب کچھ قبول کیا جا سکتا ہے ؟؟؟
 

Tahir Ahmed Farooqi
About the Author: Tahir Ahmed Farooqi Read More Articles by Tahir Ahmed Farooqi: 206 Articles with 149006 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.