یہ 2جولائی 1789ء کا دن تھا،
پیرس کی مشہور سڑک “شانزے لیزے”کے ایک سرے پر لوگوں کا مجمع لگا تھا۔مجمعے
کے اندر ایک شاہی محافظ ایک غریب اور مسکین شخص کو پیٹ رہا تھا۔ محافظ اس
شخص کو ٹھڈوں، مکوں اور ڈنڈوں سے مار رہا تھا او ر درجنوں لوگ یہ منظر دیکھ
رہے تھے جبکہ پٹنے والا دہائی دے رہا تھا منتیں کر رہا تھا اورمحافظ کے
پاؤں پڑ رہا تھا۔ پٹائی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ مجمعے کے اندر سے کسی نے
محافظ کو ایک پتھر مار دیا۔محافظ تڑپ کر مجمعے کی طرف مڑا اور مجمعے کو
گالی دے کر پوچھا :“یہ کون گستاخ ہے؟”مجمعے میں سے کوئی شخص باہر نہ نکلا۔
محافظ بپھر گیا اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر مجمعے پر لاٹھیاں
برسانا شروع کردیں۔ مجمعے نے “ریکٹ ایکٹ”کیا۔ لوگوں نے محافظوں کو پکڑا اور
مارنا شروع کردیا۔ محافظوں کو بچانے کے لیے نئے محافظ آئے لیکن وہ بھپرے
ہوئے مجمعے کا مقابلہ نہ کرسکے اور میدان سے بھاگ کھڑے ہوئے۔اس حادثے میں
دو شاہی محافظ مارے گئے اور شاہی محافظوں کی یہ دو نعشیں آگے چل کر انقلاب
فرانس کی بنیاد بنیں۔لوگوں کو اپنی طاقت کا اندازہ ہوا اور طاقت کے اس
اندازے سے 14جولائی 1789 سورج طلوع ہوا۔ فرانس میں انقلاب آیا اور ظلم کی
سیاہی بالآخر چھٹ گئی۔
فرانس کا یہ عوامی انقلاب آج تک دنیا بھر میں آنے والے انقلابات میں سر
فہرست ہے۔ اس انقلاب کی وجوہات بہت دلچسپ تھیں۔ فرانس میں ان دنوں بوربون
خاندان کی حکومت تھی۔ بادشاہ کے پاس وسیع اختیارات تھے اور اس نے یہ
اختیارات اپنے منظور نظر لوگوں میں تقسیم کر رکھے تھے۔ تمام عدالتی منصب
باقاعدہ فروخت کیے جاتے تھے جنہیں دولت مند لوگ خریدتے تھے اور ان کے مرنے
کے بعد یہ عہدے وراثت میں چلے جاتے تھے۔ یہ لوگ یہ عہدے دوسرے لوگوں کے
ہاتھوں بیچ بھی سکتے تھے۔اس زمانے میں ججوں کی تنخواہیں قلیل تھیں لہٰذا وہ
مقدمہ بازوں سے بھاری بھاری رشوتیں بھی لیتے تھے اور ان رشوتوں کو جائز
سمجھا جاتا تھا اور بادشاہ کو کسی بھی شخص کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کا
اختیار تھا۔ اس وقت فرانس میں پارلیمنٹ آف پیرس کے علاوہ بارہ صوبائی
پارلیمنٹس تھیں اور ان پارلیمنٹس کا کام صرف بادشاہ کے ہر حکم کو قانونی
اور آئینی شکل دینے کے سوا کچھ نہیں تھا۔ معیشت کے حوالے سے بات کریں تو
فرانس میں اس وقت بھاری ٹیکس نافذ تھے، یہ ٹیکس صرف اور صرف عوام پر لاگو
تھے جبکہ امرا، جاگیردار، بیوروکریٹس، شاہی خاندان اور پادری ٹیکسوں سے
مستثنیٰ تھے۔ ٹیکسوں کی وصولی کا کام ٹھیکے داروں کے حوالے تھا اور یہ
ٹھیکیدار وصولی کے لیے کسی شخص کی جان تک لے سکتے تھے۔ ٹھیکداروں کے
ملازمین ملک بھر میں پھیل جاتے تھے اور ٹیکس جمع کرنے کے بہانے عوام سے لوٹ
مار کرتے تھے۔ فرانس میں فوجی اخراجات پورے کرنے کے لیے بھی ٹیلی ٹیکس نافذ
تھا، حتیٰ کہ عوام پر نمک ٹیکس تک نافذ تھا اور سات سال سے زائد عمر کے ہر
شخص کو نمک استعمال کرنے پر سالانہ سات پونڈ ادائیگی کرنا پڑتی تھی جبکہ
عدم ادائیگی پر ہر سال تین ہزار سے زائد افراد کو قید ،کوڑوں اور ملک بدری
کی سزا دی جاتی تھی۔
انقلاب فرانس سے قبل فرانسیسی معاشرتی نظام طبقاتی تقسیم کا شکار تھا۔
فرانسیسی قوم پادری، امرا اور عوام میں بٹی ہوئی تھی۔ چرچ کی آمدنی پادریوں
کی جیبوں میں چلی جاتی تھی۔ اسٹراس برگ کا پادری سال میں چار لاکھ لیرا کما
لیتا تھا جبکہ عام پادری کی آمدن بھی ایک لاکھ سے دو لاکھ تھی۔ فرانس میں
امرا اور جاگیردار خاندانوں کی تعداد بیس اور تیس ہزار تھی جبکہ ملک میں
ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پادری تھے اور ان میں سے دس ہزار اعلیٰ پادری
تھے جبکہ چھوٹے پادریوں کی تعداد ساٹھ ہزار تھی۔اس وقت فرانس کی آبادی
اڑھائی کروڑ تھی اور ان اڑھائی کروڑ لوگوں میں سے چار پانچ لاکھ لوگ مراعات
یافتہ تھے۔ گویا چار لاکھ لوگ اڑھائی کروڑ لوگوں کی کمائی کھاتے تھے۔ان
دنوں فرانس میں ایک قول بہت مشہور تھا:“امرا جنگ کرتے ہیں۔ پادری دعا
مانگتے ہیں جبکہ عوام ان کا مالی بوجھ برداشت کرتے ہیں۔”فرانس ایک زرعی ملک
تھا جس میں دو کروڑ سے زائد لوگ کھیتی باڑی کرتے تھے لیکن ان لوگوں کی
کمائی ٹیکسوں کی نذر ہوجاتی تھی۔ کسان جاگیرداروں کے رحم وکرم پر تھے،وہ
جاگیر داروں کی اجازت کے بغیر اپنی زمینوں کے گرد باڑھ تک نہیں لگا سکتے
تھے اور فصلوں کو خراب کرنے والے جنگلی جانوروں اور پرندوں کو ہلاک نہیں
کرسکتے تھے۔اس دور میں فرانس میں قانون کی تمام کتابیں لاطینی زبان میں
تھیں اور عوام اس زبان سے واقف نہیں تھے۔ ملک میں 360 اقسام کے قوانین
تھے۔عوام کو معمولی جرائم پر کڑی سزائیں دی جاتی تھیں جبکہ امرا قانون سے
بالاتر تھے۔ بادشاہ پیرس سے بارہ میل دور “ورسائی” کے محلات میں رہتا تھا۔
اس کے دربار میں اٹھارہ ہزار افراد موجود ہوتے تھے۔ محل میں سولہ ہزار شاہی
خادم تھے۔ صرف ملکہ کی خادماؤں کی تعداد پانچ سو تھی۔ شاہی اصطبل میں انیس
سو گھوڑے تھے جن کی دیکھ بھال کے لیے چالیس لاکھ ڈالر سالانہ خرچ ہوتے تھے
اور باورچی خانہ کا خرچ پندرہ لاکھ تھا۔ بادشاہ کی ان شاہ خرچیوں کے سبب
فرانس چار بار دیوالیہ ہوچکا تھا۔ دو لاکھ سے زائد مزدور بے روزگار ہوچکے
تھے۔ فرانس میں روٹی کی قمیت چار پاؤنڈ تک پہنچ چکی تھی سالانہ خسارہ 15
کروڑ لیرا اور قرضوں کی رقم چار ارب چالیس کروڑ لیرا تھی اور 23کروڑ 60
لاکھ لیرا سالانہ بطور سود ادا کیا جاتا تھا اور فرانس کی کل آمدنی کا تین
چوتھائی حصہ فوجی اخراجات پر صرف ہوجاتا تھا۔ ملک کے جیل خانے معصوم اور بے
قصور لوگوں سے بھرے پڑے تھے لہٰذا ان حالات میں عوام کے اندر نظام کے خلاف
نفرت ابلنے لگی۔ اس نفرت کو 14جولائی 1789ءمیں میٹریل لائز ہونے کا موقع مل
گیا۔ پیرس میں دو شاہی محافظ مارے گئے اور اس کے بعد فرانس میں وہ انقلاب
آیا جس نے دنیا کا نقشہ بدل دیا۔ اس انقلاب میں 22لاکھ لوگ مارے گئے اور
فرانس میں 20سال تک امن قائم نہ ہوسکا۔
اگر ہم آج کے پاکستان اور 18ویں صدی کے فرانس کا تجزیہ کریں تو حالات کچھ
مختلف نہیں۔سرکاری محکمے تو دور کی بات خود سرکار عوامی مشکلات حل کرنے کے
بجائے عام آدمی کو ہی”حل“ کرنے پر تلی بیٹھی ہے جس کا ایک ثبوت اسٹیٹ بینک
کے جاری کردہ وہ اعداد و شمار ہیں جن کے مطابق رواں مالی سال جولائی سے
گیارہ دسمبر تک صرف اپنے اخراجات کے لئے وفاقی حکومت نے مجموعی طور پر چار
سو سولہ ارب اٹھاسی کروڑ روپے کے قرضے لیے جبکہ دوسری جانب نئے نوٹوں کے
اجراء نے بھی زیر گردش نوٹوں کو دو سو چھ ارب روپے سے بڑھا کر دو سو چھیاسی
ارب روپے تک پہنچا دیا جس سے مہنگائی میں ناقابل برداشت حد تک اضافہ ہوا
ہے۔ کرپشن سے لیکر قوانین کی پامالی تک اور اقرباء پروری سے لیکر امن عامہ
کی صورتحال تک اور ناانصافی کے لے کر ظلم کے ہر ہر حربے تک ہم تمام معاشرتی
برائیوں میں سر سے پاﺅں تک دھنسے ہوئے سیاستدانوں کے پیدا کردہ حالات سے اس
قد عاجز ہیں کہ اندر ہی اندر کڑھنے کا سلسلہ بس پھٹنے کے قریب ہی ہے، یقین
مانیے جس دن بحران زدہ بپھرے عوام نے کسی حکومتی عہدیدار یا منتخب نمائندے
کو سر راہ گریبان سے پکڑ لیا، انقلاب کی بنیاد پڑ جائے گی اور انقلاب بھی
ایسا کہ پوری انسانی تاریخ شاید اس کی مثال نہ دے سکے، وہ وقت قریب ہے، بہت
ہی قریب، جیسے جیسے وقت گزرتا جارہا ہے سیاسی قیادت اور ملکی معاملات پر
دھاک بٹھائے لوگوں کے لئے سنبھلنے کی مدت ختم ہوتی جارہی ہے اور غیر محسوس
طریقے سے سنائی دیتی انقلاب کی تھاپ انہیں اس وقت سے ڈرنے کی تنبیہہ کر رہی
ہے جب انصاف عام، احتساب سرعام کا نعرہ سننے والے لوگ خود ہی اس پر عمل کی
ٹھان لیں گے۔ |