محترم قارئین اور کالم نگار
حضرات ایک بات اچھی طرح جانتے ہونگے کہ اگر آپ کسی اور کی تحریر کو اپنے
کالم یا مضمون میں استعمال کررہے ہیں تو اصولی طور پر اس کا حوالہ دیا جانا
چاہئے،نہ کہ اس تحریر کو توڑ موڑ کر اپنے نام سے پیش کیا جائے۔ایسا کرنے
والے فرد کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور یہ بات غیر اخلاقی بھی ہے۔خیر آمدم
برسر مطلب ہمارے ایک ساتھی نے گذشتہ دنوں لگاتار تین چار کالم جماعت اسلامی
اور ایم ایم اے کی مخالفت اور مولانا فضل الرحمان صاحب کی َ َ عزت افزائیَ
َ میں اسی فورم پر پیش کئے۔ ہمیں نہ تو جماعت اسلامی پر تنقید پر اعتراض ہے
اور نہ ہی ایم ایم اے یا مولانا فضل الرحمان کی مخالفت پر۔ کیوں کہ ہر فرد
کا یہ حق ہے کہ وہ اپنی رائے کا اظہار کرے، صرف ہم یہ بات یہاں بیان کرنا
چاہتے ہیں کہ نام نہاد حق پرستوں کے بارے میں ہم جو بات کہتے ہیں کہ یہ لوگ
اپنے مقصد کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں اور کسی بھی قسم کی اخلاقیات کی
ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں ہوتی تو ہمارے معزز کالم نگار بھائی نے بھی
ہماری بات سچ ثابت کردی۔
ہمیں بہت خوشی ہوتی اگر ہمارے یہ بھائی اپنی محنت سے کوئی تحریر سامنے لاتے
لیکن ان مضامین کو پڑھنے کے بعد ہمیں دال میں کچھ کالا محسوس ہوا اور
بالاخر یہ بات سامنے آئی کہ موصوف نے انٹرنیٹ پر شائع ہونے والے مضامین بڑی
دیدہ دلیری سے اپنے نام سے یہاں پیش کئے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان مضامین
میں سے بڑی صفائی سے اپنے مطلب کی عبارت لیکر کچھ کا کچھ بنا دیا ہے۔ اسد
اللہ خان غالب صاحب کا مضمون جو کہ ایم ایم اے کی حمایت میں لکھا گیا تھا
اور www.millat.com پر شائع ہوا تھا اس میں سے بڑی صفائی سے اپنے مطلب کی
عبارت لیکر الٹا اس مضمون کو ایم ایم اے اور مذہبی جماعتوں کے خلاف استعمال
کرنے کی مذموم کوشش کی گئی۔ اس حرکت سے نام نہاد حق پرستوں کا اصل چہرہ بھی
سامنے آتا ہے اور یہ بات بھی کہ یہ لوگ جو جرائم خود کرتے ہیں بڑی دیدہ
دلیری سے اس کا الزام دوسروں پر دھرتے ہیں یعنی چور مچائے شور۔ تاکہ لوگ ان
کے اس شور شرابے سے مرعوب ہوکر ان کے جرم کو نہ دیکھیں۔ دیکھیں ہماری ویب
پر شائع ہونے والا مضمون َ َ بانی و تحریک پاکستان کے دشمن َ َ اور ذیل میں
ہم یہ اصل اور مکمل مضمون یہاں پیش کر رہے ہیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی
کا پانی ہوسکے۔ لیکن ہمیں پتہ ہے کہ نام نہاد حق پرستوں اور ان کے حامیوں
پر کوئی اثر نہ ہوگا کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی کیوں کہ ان لوگوں کا کام ہی کٹ حجتی ہے اور اعتراض
برائے اعتراض ہے۔ ڈھیٹ لوگ ہیں ان کا علاج تو علامہ اقبال بقول پھول کی پتی
سے کٹ سکتا ہے ہیرے کا جگر مرد ناداں پہ کلام نرم و نازک بے اثر بہر حال
اصل مضمون کا عنوان ہے اینٹی ایم ایم اے نسخہ تحریر اسد اللہ خان غالب
لنک :https://www.millat.com/news.php?id=3756
ایم ایم اے کی سیاست کا باب ختم تو نہیں ہوا ، بس بیانات کے ذریعے ایم ایم
اے کی پارٹیاں اپنے کارکنوں کے جذبات کو گرمانے کی کوشش کر رہ ہیں لیکن
"تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں"۔ایم ایم اے کو مستقبل قریب کی
شاطرانہ چالوں سے ہوشیارر رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ بات تو ایم ایم اے کو بھی
معلوم ہے کہ جب تک اس کا خاتمہ نہیں ہوتا کسی کو چین نہیں آئے گا۔آخر شب
دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ۔اس وقت ایم ایم اے کی کیفیت دلچسپ ہو رہی
ہے۔گو اس میں زندگی کی رمق باقی ہے اور سانس کی ڈوری چل رہی ہے، لیکن کب
تک۔اگر ایک منصوبے کے تحت کام کیا جائے تو ایم ایم اے بہت جلد ایک قصہ ماضی
بن کر رہ جائے گی اور مورخ۔۔ فاعتبرویااو لی الا بصار ۔۔کے عنوان سے آنے
والی نسلوں کے لئے اسکا نوحہ تحریر کرے گا۔
سرگوشیاں ہو رہی ہیں کہ ایم ایم اے کے تضادات کو نمایاں کیسے کیا جائے۔اس
کے لئے ایک جامع جائزہ مرتب کیا جانا چاہئے کہ ایم ایم اے میں کون کون سی
پارٹیاں شامل ہیں، ان کی انتخابی حیثیت کیا ہے،کس پارٹی کے کتنے
صوبائی،قومی اسمبلی اور سنییٹ کے رکن ہیں، جب سیٹیں الگ الگ گوشواروں میں
درج ہوں گی تو پھر ہر پارٹی کی جوہری قوت کا بھید کھل جائے گا۔
بعض تجزیوں میں یہ ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ایم ایم اے
کو طالبان سے ہمدردی کا نہیں، اصل میں ملٹری الائنس کی وجہ سے ووٹ ملے۔ اس
تجزیے کی بنیاد یہ ہو سکتی ہے کہ صدر مشرف کو پارلیمنٹ اور صوبوں میں مولوی
درکار تھے جن کے بل بوتے پر وہ امریکہ کے سامنے ایک ہوا کھڑا کر سکیں۔ اس
تجزیے کے آخر میں کہیں درج کیا جاسکتا ہے کہ اب صدر مشرف کو مولوی کی ضرورت
باقی نہیں رہی کیونکہ ان کی موجودگی میں اعتدال پسند،آزاد فکر ،روشن خیال
اور مغرب پرست نظریے کی نفی ہوتی ہے۔اس نظرئے کو پروان چڑھانا ہے تو مولوی
کی سیاست کا قلع قمع کرنا بہت ضروری ہے۔
وار کہاں سے کیا جائے، اس پر زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔جماعت
اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام دونوں نے تحریک پاکستان،بانی پاکستان اور
پاکستان کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔مولانا مودودی کی اس کتاب کا
اصل نسخہ ڈھونڈنے کی کوشش کی جائے جس میں انہوں نے پاکستان کے بارے میں
انتہائی نازیبا ریمارکس دیے تھے۔ پاکستان بنتے دیکھ کر اس کتاب میں تحریف
کر دی گئی اور یہ ریمارکس حذف کر دیے گئے لیکن قلم اور منہ سے نکلی ہوئی
بات آخر کیسے واپس ہو سکتی ہے۔
یہی قصہ جے یو آئی کا ہے جو کانگریس کا ایک دست و بازو تھی۔اور جس نے
قائداعظم کے سامنے گاندھی کا اوتار کھڑا کر رکھا تھا۔اس تجزیے میں علامہ
اقبال کی ایک رباعی بھی کام آ سکتی ہے۔جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ۔۔ز دیو
بند حسین احمد ایںچہ بو العجبیست۔۔ میں معذرت خواہ ہوں کہ میرے بیشتر
قارئین کو اس کا مطلب نہیں آتا لیکن علامہ اقبال نے جن کے بارے میں یہ
رباعی لکھی تھی ان کو اس کی اچھی طر ح سمجھ آ جاتی ہے۔
پاکستان بننے کے بعد بھی ان دونوں جماعتوں کو زیادہ عقل نہیں آئی۔ کشمیر کا
مسئلہ پیدا ہوا تو مولانا مودودی نے جہاد کشمیر کے خلاف فتویٰ دے دیا اور
یوں پاکستان کی شہ رگ اور اس کے ایک اٹوٹ انگ پر کاری ضرب لگائی۔ مولانا
مودودی نے یہ رکاوٹ نہ کھڑی کی ہوتی تو صرف قبائلی لشکری ہی نہیں پاکستان
کے چپے چپے سے مجاہدین کا بگولہ اٹھتا۔کشمیر میں ڈوگرہ اور بھارتی افواج کو
خس و خاشاک کی طرح " رول" دیتا۔کشمیریوں کی محکومی اور قتل عام کی ذمہ داری
بڑی آسانی سے مولانا مودودی کے اس فتوے پر ڈالی جا سکتی ہے۔
مولانا سمیع الحق کی پوزیشن بے حد کمزور ہے۔ان کا مدرسہ تو بڑا سادہ سا ہے
لیکن اس نے طالبان کی کئی نسلوں کی تربیت کی ہے اور افغانستان اور پاکستان
ہی نہیں پوری دنیا میں اس نے ایک فساد کی بنیاد رکھی ہے۔ان طالبان کی
فہرستیں آج بھی اکوڑہ خٹک میں جامع حقانیہ سے ملحقہ مدرسے کے ہر کلاس روم
کے باہر آویزاں ہیں۔اس فہرست کی روشنی میں مولانا سمیع الحق اور ان کے
خاموش طبع فرزند مولانا حامد الحق پر فرد جرم عائد کرنا مشکل کام نہیں ہونا
چاہیے۔
حافظ حسین احمد تو اتنا بولتے ہیں کہ ان کے خلاف مزید مواد کی ضرورت
نہیں۔ان کے خلاف اصل الزام یہی ہونا چاہیے کہ مولوی اور حافظ ہو کر سنجیدہ
نہیں ہیں اور مخولیہ طبیعت کے مالک ہیں۔جو شخص بات بات پر مذاق کرنے کا
عادی ہو،اس کی بات کو سنجیدگی سے کیسے لیا جا سکتا ہے،حافظ حسین احمد پر یہ
الزام بھی عائد کیا جا سکتا ہے کہ وہ اسمبلی میں نہیں بولتے لیکن ہر ٹی وی
چینل پر چہکتے دکھائی دیتے ہیں۔وہ تنخواہ تو پارلیمنٹ کے خزانے سے لیتے ہیں
لیکن اپنی صلاحیتوں کے جوہر ایوان سے باہر دکھاتے ہیں۔
مولویوں کے بارے میں عمومی تبصرے یہ بھی ہو سکتے ہیں۔ فتوے تو دے سکتے
ہیں،استعفے نہیں دے سکتے۔ان کا اپنا انجن جام ہے،پہیہ جام کیسے کریں
گے۔72فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں، وہ ایک ایم ایم اے کی گدڑی میں اکٹھے کیسے رہ
سکتے ہیں۔حالیہ بلدیاتی انتخابات میں الگ الگ الیکشن لڑنے سے ان کی جو درگت
بنی ہے، خاص طور پر جماعت اسلامی کو جو سبق حاصل ہوا،اس سے اسے اپنی اوقات
سمجھنے میں غلطی نہیں کرنی چاہیے ۔سینیٹ کے الیکشن میں مولویوں نے کروڑوں
کی رقم حلوہ سمجھ کر ہضم کی ہے ،جہاں مسلم لیگ کا نام و نشان نہیں تھا،
وہاں سے سیف اللہ خاندان کی جیت اسی چمک کا نتیجہ ہی تو ہے۔ جماعت اسلامی
اور جے یو آئی میں پاکستان کی مخالفت کے سوا کوئی قدر مشترک نہیں۔مذہب سے
ان جماعتوں کا کوئی لگاﺅ ہوتا تو مذہب دشمن تحفظ حقوق نسواں بل پر یہ
استعفے دینے میں دیر نہ کرتیں۔یہ جماعتیں دراصل اقتدار کی بھوکی ہیں
پارلیمنٹ سے ملنے والی مراعات کو چھوڑنا ان کے بس کی بات نہیں۔
میں نے ایم ایم اے پر کاری وار کرنے کے لئے تیر بہدف نسخے درج کئے ہیں۔ بس
ایک احتیاط ضروری ہے کہ ایم ایم اے پر حملہ اس قدر شدید ہونا چاہیے کہ کہ
اسے جوابی وار کرنے کا موقع نہ ملے اور وہ حکمرانوں کے تضادات کو نمایاں نہ
کر سکے۔ایم ایم اے کے خلاف پراپیگنڈا کے لئے بیک وقت تمام ذرائع استعمال ہو
سکتے ہیں۔ اخبارات،ٹی وی ،ریڈیو اور کانا پھوسی کی مہم۔کالم نویس اس مہم
میں ہراول دستہ کے کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ ایک فقرے میں تحفظ حقوق
نسواں بل کے مضمرات کو اُجاگر کرتے ہیں۔ دوسرے فقرے میں حکومت پر تنقید کی
بجائے ایم ایم اے سے استعفے مانگتے ہیں جیسے یہ بل حکومت نے نہیں ایم ایم
اے نے منظور کیا ہو۔مادر زاد برہنہ رقص کے بعد تو ایم ایم اے کو پاکستان
بدری قبول کر لینی چاہئے کہ یہ روز سیاہ ان کی غفلت کی وجہ سے دیکھنا پڑا۔
اخبارات کو اگلے چند ہفتوں میں احتیاط سے کام لیتے ہوئے ق لیگ ،ن لیگ اور
پی پی پی کے خلاف ریمارکس کی اشاعت سے احتراز کرنا ہوگا تاکہ ایم ایم اے کا
کریا کرم کرنے کے لئے لوگ یکسو ہو سکیں۔ آج کے اخبارات میں سپریم کورٹ کے
ریمارکس تو بہر حال شائع ہونے ہی تھے کہ قرض اتارو ملک سنوارو کا فنڈ کون
کھا گیا۔ توہین عدالت سے بچنے کا طریقے یہ ہے کہ نیوز ایڈیٹرز اس خبر کو
اندرونی صفحات پر سنگل کالمی پھینک سکتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمن کے لئے ہوا صرف ایک ہی ہے اور وہ ہے سینیٹرز خاندان جس
نے ڈیرہ اسماعیل خان سے ان کی سیاست کا صفایا کر دیا ہے۔اگر جونئیر سینیٹر
کو کھل کھیلنے کا موقع دیا جائے تو اپوزیشن لیڈر کا تیا پانچاکرنے کے لئے
کسی اور کو زور آزمائی کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔
ایم ایم اے کے خلاف مہم کی کامیابی کے لئے میرے پاس اور بھی مشورے موجود
ہیں ۔ اخبار کی تنگ دامانی آڑے آ رہی ہے۔براہ راست رابطہ مفید رہے گا۔ میں
یہ بھی بتا سکتا ہوں کہ دھشت گردی کے خلاف جنگ جیتنے میں ایم ایم اے کی کس
پارٹی نے اہم کردار ادا کیا ہے۔۔ ہے نا پتے کی بات!
جی قارئین کرام تو یہ نام نہاد حق پرستوں کا مکروہ و چہرہ اور مکاری دکھانے
کی پہلی کوشش،ہم اسی فورم پر دوسرے مضامین کا بھی پوسٹ مارٹم کریں گے۔ |