دنیا کو دیکھنے کے لیے سیرو سیاحت کرنا اور قدرتی مناظر
سے لطف اندوز ہونا جہاں صحت مند سرگرمی ہے ساتھ ہی معلومات آضافے کے ساتھ
ان علاقوں کے رسم رواج سے واقفیت بھی ملتی ہے ہر انسان کی یہ خواہش ضرور
ہوتی ہے وہ دوسرے علاقوں میں جائے وہاں سیرو سیاحت کرے اور خاص کر پہاڑی
علاقے جہاں فضاء پرسکون آلودگی سے پاک اور آنکھوں کو بھانے والے خوبصورت
قدرتی مناظر ہوں اور جن دیکھا انسان واقعی ذہنی و جسمانی طور پر راحت محسوس
کرتا ہے ۔پوری دنیا میں سیر و سیاحت ایک انڈسٹری کا درجہ اختیار کر چکی ہے
دنیا کے بیشتر ممالک ایسے ہیں جن کا نظام اسی سیاحتی انڈسٹری کی آمدن سے
چلتا ہے سوئیزرلینڈ ، اٹلی ، اسٹریلیا، جزیرہ آنا تاؤ ، سری لنکا ، نیپال ،
تھائی لینڈ جیسے ممالک میں سیاح زیادہ رخ کرتے ہیں جس کی وجہ یہاں کے قدرتی
مناظر ہیں اسی طرح تاریخی اور ثقافتی سیاحت کے لیے مصر، بھارت، چین ، اور
دیگر ممالک شمال ہیں جبکہ ابوظہبی دوبئی میں سیاح بناوٹی شاہکار دیکھنے اور
شاپنگ کرنے جاتے ہیں لیکن ہر کوئی اپنی استدعا اور جیب کو دیکھ کر سفر
سیاحت کو جاتاہے ۔ہمارے ملک میں بھی سیاحت کے کافی مواقعے ہیں ہمارے شمالی
علاقہ جات سوئزرلینڈ سے کم نہیں ملکہ کوہسار مری ، گلگت ، سوات ، کلام ،
وادی نیلم کے علاوہ کراچی کا ساحل سمندر اور دیگر ایسے علاقے ہیں جہاں لوگ
سیاحت کے لیے نکلتے ہیں -
جن علاقوں میں سیاح آتے ہیں اور وہاں سیاحت فروغ پاتی ہے تو ان علاقوں میں
ترقی خود بخود ہونا شروع ہو جاتی ہے ایسے علاقوں میں ایک تو گورنمنٹ
ترقیاتی کام شروع کر کے سیاحوں کو سہولیات دیتی ہے کہ یہاں زیادہ سے زیادہ
سیاح آئیں اور ان علاقے لوگوں کے روز گار میں آضافہ ہو جبکہ دوسرا حصہ
مقامی آبادی بھی اس میں شامل کرتی ہے کہ زیادہ سیاح ان کے علاقے کا رخ کریں۔
وہ اپنی مہمان نوازی ، اعلی اخلاق اور بہترین رویوں کی بنیاد پر باہر سے
آنے والے مہمانوں کے دل میں گھر کر لیتے ہیں۔ تاکہ یہ لوگ واپس جا کر ان کے
علاقے کی تعریف کریں گے تو وہ ایک قسم کے ان کے سفیر ہوں گے اور وہ مزید
لوگوں کو بھیجنے کا ذریعہ بنیں گے۔ ملک میں طویل عرصے تک جاری رہنے والی
دہشت گردی کی جنگ نے اس شعبہ کو شدید متاثر کیا سوات میں جب طالبان کی
موجودگی تھی تو وہاں کی سیاحت ختم ہو کر رہے گئی تھی پھر آپریشن شروع ہوا
تو سب کچھ خالی کروا لیا گیا مقامی افراد نقل مکانی کر کے دوسرے علاقوں کو
چلے گئیے ہوٹل ویران ہو گئے ، لوگ کی سرمایہ کاری ڈوب گئی اور مقامی افراد
بے روز گار ہو گئے پاک فوج کے آپریشن سوات میں امن قائم ہوا اور سوات میں
دوبارہ سیاحت فروغ پارہی ہے اب ہر سال ہزاروں سیاح موسم گرما اور سرما میں
وہاں کا رخ کرتے ہیں -
ملکہ کوہسار مری کی اپنی ایک خوبصورتی ہے اور وہاں حکومت کی توجہ سے کافی
سہولیات دستیاب ہیں اس لیے سیاح مری کی سیر کے لیے زیادہ جاتے ہیں اور خاص
کر مری میں فیمیلز کا آنا جانا زیادہ ریتا ہے جیسے سیاح زیادہ محفوظ سمجھ
کر جاتے ہیں۔ لیکن کچھ عرصہ سے مری میں سیاحوں کے ساتھ مقامی افراد کی لوٹ
مار ، خواتین کے ساتھ بدتمزی ، اور چھیڑ چھاڑ کی شکایات رہتی تھیں لیکن اس
پر حکومت نے نوٹس نہیں لیا اور یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا ، اب حال ہی میں
سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ویڈیوز میں مری کے کچھ مقامی افراد سیاحوں
پر تشدد کر رہے ہیں ، ویڈیو میں واضع دیکھا جا سکتا ہے باہر سے گئے معزز
مہمان جو اپنی فیملز کے ساتھ بے بسی کی تصویر بنے کھڑے تھے ان پر اور ان کے
ساتھ خواتین اور بچوں پر تھپڑوں مکوں لاتو کی بارش کی گئی ، خواتین کی اور
بچوں کی چیخ پکار رونگٹے کھڑے کر دیتی ہے ان افراد نے خواتین اور بچوں کا
ذرہ بھی خیال نہ کیا ، انہیں یہ بھی خیال نہیں آیا یہ مہمان ہیں ، مہمان اﷲ
کی رحمت ہوتے ہیں مری والوں کے لیے یہ ایسے مہمان ہیں جو مری کے لوگوں کے
لیے ڈبل رحمت ہیں یہ ان کے روز گار کا ذریعہ ہیں لیکن ان مہمانوں کے ساتھ
سلوک شرمناک ہے اگر یہی صورت حال رہی تو ملک میں سیاحت تباہ ہو جائے گی
بلکہ مری بھی ویران ہو جائے گا لوگ مری میں سیر و تفریحی کے لیے جاتے ہیں
ناکہ کے مقامی افراد سے مارکھانے -
آناؤ تاؤ اسٹریلیا کے قریب جزیرے نما ملک ہے وہاں ایک پاکستان سیاح گیا جس
نے اپنے سفر نامے میں لکھا ایک رات میں بس سٹاپ پر کھڑا اکیلا بس کا انتظار
کر رہا تھا رات کافی ہوچکی تھی سٹرک سنسان پڑھی تھی ایک آدمی میری طرف چل
کر آیا اور میرے ساتھ کھڑا ہوگیا وہ لکھتا مجھے اس سے بہت زیادہ ڈر لگ رہا
تھا کہیں یہ مجھے لوٹ نہ لے کچھ دیر بس آئی میں اس میں سوار ہوا اور وہ
میرے بس میں سوار ہوتے ہی چل پڑا بعد میں مجھے انداز ہوا وہ میری حفاظت کی
خاطر میں ساتھ کھڑا رہا ، یہی جذبے ہوتے ہیں ملک اور علاقے کی نیک نامی
بنانے کے لیے -
مری میں پہلے مہنگائی بہت زیادہ تھی ہر چیز کے ریٹ کئی گناہ زیادہ تھے اور
اب مقامی افراد کی مہمان نوازی کو دیکھ کر اب شاید ہی کوئی مری کا رخ کرے
گا۔ اس تمام تر صورت حال پر حکومت کو غور کرنا چاہیے سوشل میڈیا اور میڈیا
پر مری کے ناخوشگوار واقعات کی خبروں کا نوٹس لینا چاہیے وہاں شرپسند مقامی
افراد کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کا لگام ڈالنی چاہیے ، اس بارے خاص کر
وزیراعظم شاید خاقان عباسی صاحب کو نوٹس لینا ہوگا۔ اور مری کے علاوہ دیگر
سیاحتی مقامات پر سیاحوں کو تحفظ فراہم کرنے کے ساتھ مہنگی اشیاء کی مد میں
کی جانے والی لوٹ مار کو بھی رکوایا جانا ہوگا ، ہماری حکومت کو سیاحت پر
بھر پور توجہ دینی چاہیے جس سے ہم اچھی آمدنی حاصل کر سکتے ہیں- |