صدیوں سے یہ ہوتا آیاہے کہ طاقتور ممالک کمزور کے
وسائل پر جبراً قبضہ کرلیتے تھے، پہلے یہ عمل ببانگ دھل کیاجاتا تھا اب وقت
کے ساتھ ساتھ کچھ تبدیلی رونما ہوئی ہے ،اب دوسروں کے وسائل پر قبضہ کرنے
کا انداز کافی بدل چکا ہے یہ عمل بہرحال جاری ہے اس دوران یہ بھی دیکھا گیا
ہے کہ اگرکوئی چھوٹا ملک اپنے اقتدار اعلی کے لئے ڈٹ گیا تو بڑی طاقتوں کو
بھی ناکامی کا سامناکرنا پڑھا ان میں وہ اقوام سرفہرست ہیں جن کے حکمرانوں
نے عوامی فلاح کے لئے بلاامتیاز کام کیے اور عوام کو اپنا گرویدہ بنالیا ان
اقوام نے اپنی حفاظت بھی کی اور دنیا میں امن کے لئے بہتر ین کردار ادا کیا
۔
کوریا جرمنی ویتنام بہترین مثالیں ہیں ۔دوہزار سالہ تاریخ کے حامل ملک
کوریانے 1895میں جاپان چین جنگ کیبعد آزادی وخودمختاری حاصل کی لیکن
1910میں جاپان نے اس پر قبضہ کرلیا جو 1945تک قائم رہا ۔دوسری جنگ عظیم کے
بعد 1945’’پوٹسڈم‘‘ معائدہ کے مطابق کوریا دوممالک میں تقسیم ہوگیا دونوں
نے اقوام متحدہ کی ممبرشپ حاصل کر لی ۔10اگست 1945کو روسی افواج شمالی
کوریا میں داخل ہوئیں اور8ستمبر1948کو امریکن افواج جنوبی کوریا میں داخل
ہوگئیں اس کے بعد 1950میں شمالی کوریا کی افواج نے جنوبی کوریا پر حملہ
کردیا اور اقوام متحدہ کے فوجی دستے امریکن قیادت میں جنوبی کوریا پہنچے
اور یوں یہ دنیا کی پہلی پراکسی وار’’ غیر علانیہ جنگ‘‘ کہلائی تھی جسے روس
و امریکہ کوریا میں لڑتے رہے اور اس تین سالہ جنگ میں تیس لاکھ لوگ ہلاک
ہوئے جنمیں سے 37000ہزار صرف امریکن تھے ۔
دوسری جانب متنازعہ ریاست جموں کشمیر جہاں 47میں پڑوسی ممالک کی افواج داخل
ہوئیں اورملک دوحصوں میں تقسیم ہوگیا اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہوا نہ ہی
کوئی انوکھا واقعہ تھا ان ادوار میں کئی ریجن میں ایسے واقعات وقوع پذیر
ہوتے رہے جیسے’’ تقسیم کوریا ‘‘اور جب ہم ملک ’’کوریا‘‘ کے معروض کو دیکھتے
ہیں تو کئی ایسے حقائق سامنے آتے ہیں جنہیں نظراندازکرنا ناگزیرہوجاتا ہے،
جنہیں ہم نصف صدی سے کھلی آنکھ سے دیکھنا ہی نہیں چاہتے تھے آج تاریخ ہمیں
یہ سب جبرا ًدکھا رہی ہے اورہم ان حقائق کو شعوری نظر سے دیکھ رہے ہیں کہ
دنیا کی دو سپر پاورز، کوریا میں داخل ہو کر اسے جبراً تقسیم کر دیتی ہیں
اس ملک میں تین برس تک خطرناک پراکسی وار لڑتی ہیں اس کے باوجود جنوبی و
شمالی کوریا دوآزاد ممالک بن جاتے ہیں اور اقوام متحدہ کی ممبرشپ بھی لے
لیتے ہیں اور وہاں کے عوام کا اقتدار اعلی بھی ان کے پاس رہتا ہے اوروہ
بااختیار رہتے ہیں قیادت ان کے پاس رہتی ہے ۔وہاں کوئی پرو روس یا
پروامریکن سوچ پیدا نہیں ہوتی ۔ان کے حلقہ انتخاب کے ٹکٹ کبھی باہر سے جاری
نہیں ہوتے اور وہاں کی حکومتیں وہاں کے لوگ بناتے وگراتے رہے ہیں جس کی
بنیادی وجہ صرف وصرف یہ کہ ان کے 1895میں علان خودمختاری سے لیکر1910تک
آزادی کے ڈیڑھ عشرہ حکمراں طبقہ نے اپنے عوام کو بلا تخصیص مساوی آئین کے
تحت رول کیا ادارے قائم کئے اور محض پندرہ برسوں میں کوریا ئی عوام قوم بن
گئے ان کے دکھ سکھ سانجھے ہوگئے ۔یہی وہ مضبوط قومی بنیادیں اور رشتے قائم
ہوئے کہ آج پچہتر برس گزرنے کے بعد جزیرہ نمامنقسم کوریا دوبارہ ایک ہونے
کے بلکل قریب پہنچ چکاہے۔اسکے برعکس ہمارے وطن کے ساتھ کیا بیتی؟
دیس کے عوام ایک سوسال ایک خاندان کی حکمرانی میں رہنے کے باوجود قوم نہ بن
سکے جس کی بنیادی وجہ یہ رہی کہ حکمراں وقت نے اس دیس کو ریاست نہیں بلکہ
جاگیر سمجھا جسے قائم رکھنے کیلئے امتیازی و ظالمانہ قوانین متعارف کروائے
جس کے باعث صدیوں سے محکومی ظلم وجبر سے جوجھتے لوگوں کو حالات کے جبر نے
قوم نہ بننے دیا اور وہ بظائر زندہ رہے سانسیں چلتی رہی لیکن اندر سے تمام
جذبے مرچکے تھے جہاں ایک طرف انسان کے قتل کی سزا موت جب کہ وہیں ایک قتل
کی سزا فقط اٹھائیس روپے جرمانہ لیا جاتا تھا اورپھر جب تقسیم ہندوستان کے
وقت نیم خودمختارشخصی ریاستوں کو ہڑپنے کی دوڑ شروع ہوئی تو اس دیس کے بے
ضرر لوگ غیرملکی سازشوں اور حملوں کا سامنا کرنے کے لئے بلکل تیار نہ تھے
وہ یقینا بے بسی و بے کسی کی زندگی گزاررہے تھے کہ انہیں اس بات سے زرہ غرض
نہ تھی کہ ان کا دیس کتنے رقبے پر مشتمل ہے وطن کے مختلف علاقوں جموں گلگت
لداخ وادی کہیں بھی بسنے والوں کے کیا مسائل ہیں وہ یہ جاننے کے قطعی
متقاضی نہ تھے اور وہ برصغیر میں ہونیوالی صدی کی تاریخی تبدیلیوں سے بھی
لاتعلق رہے اور وہ لوگ ہر دو صورتوں میں حکمران وقت سے نجات میں آفیت
سمجھتے ہوئے خود کوحالات کے سپرد کر دیا غور کیجئے اسی زمانے میں ایک ملک
کے عوام ’’پندرہ‘‘برس میں قوم بن گئے اور ہم ایک سو سال میں ایکدوسرے سے نا
آشنا رہیاور خود کو تلاش کرتے ہیں کہ ہم زندہ بھی ہیں کہ نہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب حکمرانوں کو اپنے عوام سے مدد کی ضرورت پڑھی تھی جو کہ وہ
اپنے صدسالہ طرز حکمرانی کے باعث اس عوامی ہمدردی سے محروم ہوچکے تھے اور
مجبوراً وہ ادھر ادھر سے مدد کے طلب گار ہوئے جبکہ پڑوس میں دونئے ممالک
گھات لگائے اس انتظار میں بیٹھے تھے کہ کس طرح سے قدرتی وسائل سے مالامال
اس ریاست کو ہڑپ لیں اور پھر اس طرح سے انہیں موقع ملا تو یہ دونوں ممالک
ریاست میں ریاست کی حفاظت کا بہانہ بنا کر داخل ہوگئے اور دونوں نے یہاں
اپنے اپنے حاشیہ برداروں کی ایک کھیپ تیار کر لی جو ان کی ڈیوٹی نبھانے لگے
اور اقتدار کا ایک گھناونا کھیل شروع ہوا جس کی قیمت ادا کرتے کرتے ہم چار
نسلیں قربان کر چکے ہیں اگر اس صدسالہ دور کے ابتداء سے ہی وطن کے حکمراں
اسے جاگیر سمجھنے کے بجائے ریاست مان لیتے اور عوام سے مساوی سلوک کرتے اور
بلا تخصیص رنگ ونسل ایک نیشنل آرمی کھڑی کردیتے لوگوں کو بلا امتیاز رنگ و
نسل صحت تعلیم اور انصاف جیسی سہولتوں کے اہتما م کی کوشش کیجاتی تویقینا
ہم ایک قوم بن جاتے اور چالیس کی دہائی میں ہونیوالے غیرملکی حملوں کے خلاف
سیسیہ پلائی دیوار بن کر اپنے حکمران کے کندھے کیساتھ کندھا ملا کر کھڑے
ہوتے اور ہمارے وہی حکمراں تاقیات اس قوم کے ہیرو ہوتے ۔۔۔
|