اینٹی بائیو ٹیکس کا حد سے زیادہ استعمال صحت کے لئے خطرناک ہے

جب تک سانئس نے اتنی ترقی نہیں کی تھی تو ایک وقت تھا جب کوئی گھر کا کوئی فرد بیمار ہوتا تو گھر موجود دیسی چیزوں سے اس کے علاج میں ٹوٹکے آزمائے جاتے ، بعض اوقات وہ ٹوٹکے کامیاب بھی رہتے اور وہ برسوں تک اس بیماری کے لیے ایسے دیسی نسخے اپنائے جاتے رہے۔ سائنس نے ترقی کی انسانی کھوج سے علاج کے نئے طریقے دریافت ہوئے ، لوگوں ٹوٹکوں کی بجائے بیماری کا علاج ڈاکٹروں کے پاس جا کر کروانے لگے۔ نئی تحقیقات سے ادویات سازی کی صنعت نے بھی ترقی کی ، آبادی بڑھتے ہی مسائل میں بھی آضافہ ہوتا رہا ، ان تمام تر صورت حال میں انسان کو بہتر ماحول کی بجائے آلودہ فضاء میں سانس لینا پڑا ، اور خالص کی بجائے ناقص و ملاوٹ شدہ خوراک کھانی پڑی، اسی طرح ترقی پذیر ممالک میں عام بیماریاں وباء بن کر انسانوں کو ہڑپ کرنے لگیں۔

پھر ایسا ہوا جہاں وسائل کم بیماریاں زیادہ اور خوراک ناقص تھی تو علاج کی سہولیات بھی نہ پائید ہو گئیں۔ ادھر دواء سازی کی صعنت بھی زیادہ منافع حاصل کرنے والی کاروباری سوچ پر چلانی پڑی جہاں انسانیت کا لفظ ان کی ڈکشنری میں نہ تھا۔ مریض بھی غربت کے باعث ناتجربہ کار لوگوں اور پیسے کے پجاریوں سے علاج کروانے پر مجبور تھے ، تو یہی معالج بجائے بیماری کی صیح تشخیصی کرنے کے بس کسی کمپنی کے ساتھ خفیہ معاہدے والی ادویات جن میں خاص کر اینٹی بائیو ٹیکس ادویات نسخہ میں تحریر کرنے لگے، ایک طرف سے مریض سے فیس اور دیگر اخراجات کی مد میں پیسہ بنانے لگے تو دوسری طرف کمپنی سے کمیشن ، تحائف ، گاڑی ، اور باہر ممالک کے تفریحی دورے شامل لیے جانے لگے

اب آپ کسی پرائیویٹ ہسپتال و کلینک پر چلے جائیں آپ سب مریضوں کے ہاتھ میں تقریباً ایک دوائی نسخہ تقریباً دیکھیں گے اور وہ ہوں گی اینٹی بائیو ٹیکس ادویات جن میں انجکشن ، گولیاں اور کیپسول وغیرہ شامل ہوتے ہیں ملک میں عطائیوں کے خلاف کاروائی کی گئی ہے تو وہ ایک الگ بحث ہے پر ان میں سے زیادہ تر اینٹی بائیو ٹیکس ادویات استعمال کرتے تھے، ساتھ ہی یہی ریشو ایم بی بی ایس میں بھی ہے۔ اکثر ڈاکٹر کم تجربے اور پریکٹس کی وجہ سے بھی ان ادویات کا استعمال کرواتے ہیں اور کچھ اس لیے نسخے میں تحریر کرتے ہیں کہ مریض جلد صحت یاب ہو جائے اور ان کی دوکانداری چمک اٹھے، اور ہر وقت ان کے کلینک کے باہر مریضوں کا رش رہے اور ایسے ہی ان کی آمدن دو ضرب دو ہوگی نہیں تو ایک جمع ایک میں ساری زندگی گزر جائے عالی شان کوٹھی ، بڑا ہسپتال تعمیر نہیں ہوسکتا۔

جب 1928ء میں الیگزینڈر فلیمنگ نے پہلی اینٹی بائیوٹک دوا پنسیلین ایجاد کی تھی تو یہ واضح ہو گیا تھا کہ انسان جراثیموں پر قابو پا سکتا ہے تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جراثیم ادویات پر بھاری ہوتے جا رہے ہیں۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مختلف وجوہات کی بنا پر جراثیم مختلف اینٹی بائیوٹک ادویات کے خلاف اپنی مزاحمت بہتر بنانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، اس لیے کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وقت کے ساتھ ساتھ نئی ادویات کی ایجاد جاری رہے تاکہ مہلک جراثیموں سے ایک قدم آگے ہی رہا جائے۔ لیکن ہمارے ملک میں ایک ہی نسخہ بار بار ایک ہی مریض پر آزما آزما کر اس کی قوت مدافعت ختم کر دی جاتی ہے، بجائے اس کے ٹیسٹ کروانے کے ادویات کی مقدار بڑھی جاتی ہے یا پھر کمپنی تبدیل کر دی جاتی ہے اور مریض مطمئن ہو جائے اب کی بار ڈاکٹر نے اور ادویات لکھ دی ہیں۔ حالات یہ آنا پہنچتی ہے کہ ایک بیماری ختم نہیں ہوتی اس کے ساتھ اور بیماریاں بھی لگ چکی ہوتی ہیں ۔

پاکستان اور اس جیسے دیگر غریب ممالک میں ادویات ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر بھی مل جاتی ہیں اگر گھر میں کسی کو بخار یا کوئی اور بیماری ہو تو گھر کے فرد کسی بخار یا اسی بیماری والے کا نسخہ اس پر آزمائیں گے، جن میں اینٹی بائیو ٹیکس بھی شامل ہوتی ہیں اپنی مرضی سے ادویات کا استعمال کیا جاتا ہے ان تجربات سے یا مریض کی حالت زیادہ بگڑ جاتی ہے یا پھر وہ ٹھیک بھی ہو جائے تو آئندہ وہ ادویات اس پر اثر نہیں کرتی ہیں۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے حوالے عالمی ماہرین ادویات و صحت نے عالمی سطح پر ایک تحقیق کی ہے جس رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2000 سے لے 2015 کے درمیانی عرصے میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں پینسٹھ فیصد تک آضافہ دیکھا گیا ہے۔ یہ پیش رفت لوگوں کی صحت پر منفی اثرات کے حوالے سے انتہائی تشیوناک ہے۔ دنیا کے ستر سے زائد ممالک میں ہونے والی اس نئی تحقیق میں اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں اضافے کے حوالے سے پاکستان کو چین اور بھارت کے بعد تیسرے نمبر پر رکھا گیا ہے۔ امریکا کی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کی اس نئی تحقیق میں محققین نے خبردار کیا ہے کہ ان ادویات کے غیر محتاط استعمال میں اضافے سے بیماریوں کے خلاف ان ادویات کا اثر کم ہو رہا ہے جبکہ پاکستان میں مختلف بیماریوں کے خلاف اینٹی بائیوٹک ادویات غیر مؤثر ہو رہی ہیں۔ یہ تحقیق حال ہی میں امریکا کی اکیڈمی آف سائنسز کے پروسیڈنگس نے شائع کی ہے۔

دنیا میں اس وقت پاکستان، بھارت، بنگلادیش، انڈونیشیا، تھائی لینڈ،مراکش، فلپائن، ویتنام، مصر اور تیونس سمیت دیگر کم آمدنی والے ممالک میں ان ادویات کے استعمال میں تیزی آضافہ ہو رہا ہے جبکہ غیر محتاط طریقے سے ہونے والا اضافے کی وجہ سے بیماریوں کے خلاف مزاحمتی اثرات کم ہو رہے۔ اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال کے تحقیقی ٹیم سربراہ پروفیسر ایلی وائی کلائین کا کہنا ہے کہ دنیا میں غیر پائیدار اور بے ہنگم اربنائیزیشن کو ماحول دوست بنا کر صحت کی مختلف وبائی و غیر وبائی بیماریوں سے لوگوں کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ اس سے ان بیماریوں کے خلاف لوگوں میں استعمال ہونے والی اینٹی بائیوٹک ادویات کے استعمال میں بڑی حد تک کمی کرنے میں مدد مل لی جاسکتی ہے۔ اگر ایک بار کسی اینٹی بائیوٹک کی مزاحمت پیدا ہو جائے تو اْس کا سد باب یا اْس کے خلاف نئی ادویات ایجاد کرنے کا عمل نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔ ہمیں ایسی مزاحمت سے بچنے کے لیے تمام کوششیں کرنی چاہییں۔ اور ان ادویات استعمال کو کم کرنا چاہیے۔

گزشتہ سال جینوا میں ہونے والی صحت کے متعلق ڈبلیو ایچ او کی سالانہ کانفرنس موقع پر جرمن چانسلر مرکل نے گلوبل ہیلتھ سسٹم یا عالمی نظام صحت کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط بنانے پرغیر معمولی زور تھا۔ انہوں نے تمام اقوام سے مطالبہ کیا کہ وہ جراثیم مخالف ادویات کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے والے مسائل کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے مل کر کام کریں۔اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام عالمی ادارے اور ماہرین صحت سر جوڑ کر بیٹھیں، اور ان ادویات کے استعمال میں کمی لانے کے لیے مشترکہ اصول تیار کریں جس پر تمام ممالک عمل پیرا ہوں۔ ساتھ ہی وہ ممالک جہاں اینٹی بائیوٹک ادویات کا استعمال زیادہ کروایا جاتا ہے جن میں پاکستان، بھارت، فلپائن، تھائی لینڈ، ویتنام اور انڈونیشا سمیت مختلف نچلی اور درمیانی آمدنی والے ممالک شامل ہیں وہاں ڈاکٹری نسخوں اور تجویز کردہ ادویات کے متعلق قانون سازی کر کے ان ادویات کا استعمال کم کروایا جا سکتا ہے جبکہ امراض پیدا کرنے کے اسباب، خاص کر صاف پانی اور صفائی کی بہتر سہولیات کی فراہمی کے لیے لازمی اقدامات کرنا ہوں گے۔ تاکہ وبائی اور موسمی وبائی بیماریوں کے پھیلاؤ میں کمی واقعہ ہو -

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 144744 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.