صفائی نصف ایمان ہے

حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے۔ اگر صفائی کا روزہ کی زندگی میں اپنا شعور بنا لیں تو ہم بہت سی بیماریوں سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ دوسرے ملکوں کی مثال دینے کی بجائے اپنے ملک ، گلی محلہ کو صاف رکھیں اور خود دنیا کے لیے مثال بن جائیں۔

صفائی کو اپنا شعار بنالینا چاہیے

دُنیا کی مصروفیت اس قدر بڑھ چکی ہے کہ انسان کو انسان دکھائی دینا مشکل ہے۔ دنیا کے دھندوں کے پیچ و خم نے انسان کو ویسے ہی روند ڈالا ہے۔ یہی انسان یہاں اپنے لیے دو وقت کی روٹی، آسائش، لگژری زندگی کا خواہاں ہے وہاں ہی اپنی زندگی کا دشمن بھی نظر آتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسان اپنے لیے اتنا کچھ حاصل کرتا ہے تو پھر اپنی تباہی کا سامان کیسے اکٹھا کرتا ہے۔ ہم مسلمان ہیں، مسلمان ہونے کے ناطے سے اللہ کریم نے اپنا پسندیدہ دین سے نوازا ہے۔ اور یہ دین مکمل ضابطہ حیات ہے، اس میں زندگی گزارنے، معاشی اور معاشرتی معاملات حتیٰ کہ ہر پہلو کو بڑے اچھے انداز میں اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب حضرت محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے ہم تک پہنچا دیئے۔ آپ ﷺ کی زندگی ہمارے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ اور بحیثیت ہم سب اس کا اقرار بھی کرتے ہیں۔ میں آج زندگی کے ایک ایسے پہلو کی طرف اپنی اور آپ سب کی توجہ مبذول کروانا چاہتا ہوں۔ اللہ کریم کا ارشاد ہے۔”اپنے رب کی بڑائی بیان کرو، پاکیزگی رکھواور گندگی سے دور رہو“ (سورۃ المدثر)۔ حدیث مبارکہ ہے ”صفائی نصف ایمان ہے“۔ ہم اس چیز کو مانتے بھی ہے ہر صورت اس کا تذکرہ بھی کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل کرنا کافی مشکل لگتا ہے یا پھر ہم عادتاً عمل نہ کرنے پر مجبور ہیں۔ اللہ پاک نے ہمیں پاکستان جیسا جنت نظیر ملک دیا جس کی دنیا میں کہیں بھی مثال نہیں۔ مجھے اپنی زندگی کا بہت سا حصہ پاک وطن کے مختلف شہروں، صوبوں میں چند سال، چند ہفتے گزارنے کا موقع ملا۔ اگر کوئی حصہ رہ گیاتو وہ اللہ تعالیٰ سروس کے بعد بھی دکھا دیا۔ اسلام آباد سے کاغان، ناران، بابو سر ٹاپ، چلاس، گلگت، وادی ہنزہ، کریم آباد، عطاآباد جھیل، جھیل سیف الملوک، حتی ٰ کہ خنجراب چائنہ بارڈر دیکھنے کا بھی موقع ملا۔اتنا سفر کرنے کے بعد دیکھا کہ ہم صفائی کو مد نظر نہیں رکھتے۔ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود، آلودگی کے نقصانات اور اس کے پھیلاؤ کے اسباب جانتے ہوئے بھی ہم صفائی سے نظریں کیوں چراتے ہیں؟ ہم اپنے لیے اور اپنے بچوں کے کھانے اور پینے کے لیے مہنگے سے مہنگے کھانے، فاسٹ فوڈز، جوسز، اور نہ جانے کیا کچھ خرید تے ہیں لیکن ہم ماحول کی آلودگی، گندگی اور آب و ہوا کو گند ا کرنے والے عوامل کو یکسر نظر انداز کردیتے ہیں یا پھر سرے سے ہی بھول جاتے ہیں۔ جب ہم اتنا کچھ خریدتے ہیں، ایک شاپر یا ہینڈ بیگ میں لیے پھرتے ہیں، لیکن جب ہم ان چیزوں کو استعمال کر لیتے ہیں جو وزن میں بھی ہلکی ہو جاتی ہیں اپنے ساتھ رکھنا یا اٹھانا معیوب سمجھتے ہیں، یہاں موقع ملا وہیں پھینک دیتے ہیں۔ یہ خالی بوتلیں، چھلکے، ریپرز وغیرہ وغیرہ کتنے نقصان دہ ہیں کبھی سوچا ہی نہیں۔ ہمیں چاہیے کہ استعمال شدہ یا فالتوسامان کو کسی قریبی ڈسٹ بن یعنی کوڑا دان میں پھینک دیں۔ تاکہ وہاں کی انتظامیہ اس کچرے کو اٹھا کر لے جائے اور اس کا مناسب طریقے سے ضائع کرے۔ کچھ جگہیں ایسی بھی دیکھنے کو ملی ہیں جہاں پر انتظامیہ کی طرف سے کوڑا دان نصب نہیں کیئے گئے یا پھر وہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کربیکار ہو چکے ہیں۔ اگرکہیں ایسی صورت حال دیکھنے کو ملے تو پلیز اپنی خالی بوتلوں، چھلکوں اور ریپرز کو شاپر میں سنبھال کر گاڑی میں ہی رکھیں اور یہاں مناسب جگہ ملیں پھینک دیں۔ دراصل میں اس بات پر زور دینا چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اپنے شہر کو کس طرح بہتر انداز میں صاف رکھ سکتے ہیں۔ یہ بھی ٹھیک ہے کہ کچھ تنظمیں اپنا کردار ادا کرتی ہیں لیکن ہمیں چاہیں کہ ہم بھی اپنا کردار کرتے ہوئے اپنے گلی محلہ کو صاف رکھیں۔ میں اکثر شام مغرب کی نماز کے بعد تقریبا ً جب دکاندار اپنی دکانیں بند کرے اپنے اپنے گھر کی راہ لیتے ہیں میں بھی اپنے گھر لی راہ لیتاہوں۔ میں جہاں پر آپ کی توجہ اس لمحہ فکریہ کی طرف مبذول کروانا چاہتاہوں، اگر ان دکانداروں کو صبح کے وقت دیکھو تو ان سب کے ہاتھوں میں جھاڑو، برش ہوتاہے۔ یہ خود صفائی کریں یا ان کے ملازمین۔شہر کے مین بازار، صدر بازار، نیا بازار،وغیرہ وغیرہ میں بڑے بڑے عرب پتی اور کروڑ پتی کاروباری حضرات ہیں، یہی دکاندار شام کو جاتے ہوئے اپنی دکان کا کچرا، سارے دن کی سیل ہونے پر خالی ہونے والے دیدہ زیب ریپرز،شاپرز، گتے کے فالتو ڈبے، اس طرح پھینک دیئے جاتے ہیں جیسے آج دن ہمارا آخری دن ہے یا پھر یہ سوچ کر بازار کو گند ا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں کہ ہم کسی اور ملک میں انوسٹمنٹ کر کے بیٹھے ہیں ہم سے وہ بھتہ یا ٹیکس لیتے ہیں، وہ خود ہی کریں۔ لیکن صبح آکر خود ہی انہیں صفائی کرنا پڑتی ہے۔ تحریر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ جب آپ نے اپنی دکان کا کچر ایا سیل ہونے والے سامان کے خالی ریپرز پھینکنے ہی ہیں تو ان سب کو کسی مناسب جگہ پر لگے ہوئے جالگائے ہوئے کوڑا دان میں ہی کیوں نہ پھنکا جائے تاکہ اگلے روز آپ کو زیادہ صفائی نہ کرنا پڑے،خاص طور پر پوری رات یہ فالتوریپرز، شاپرز اڑ اڑ کر جگہ جگہ گندگی کا سبب بنتے ہیں جس سے نا صرف ہوائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے بلکہ اپنی صحت کے ضیا ع کا سامان بھی خود ہی پیدا کر رہے ہیں۔ جبکہ ہمیں اسلام نے تربیت بھی دے رکھی ہے کہ صفائی نصف ایمان ہے تو پھر اس پر عمل کیوں نہیں کرتے، اس پر صرف چند عمل کرکے تو دیکھا جائے ہمارے بازار اور گلیاں کتنی خوبصورت ہو جائیں گے اور ماحول بھی آلودہ ہونے سے محفوظ ہو جائے گا۔ نہ صرف ماحول بلکہ ہماری صحت بھی پہلے سے بہتر ہونا شروع ہو جائے گی۔ اگربازار میں کسی بھی مناسب جگہ پر بلدیہ کی طرف سے کوڑا دان نہیں نصب کیئے گئے تو بلدیہ سے درخواست کی جائے، یا پھر خود اپنی بہتری اور اچھے شہری ہونے کے ناطے سے نصب کر لیے جائیں، یا پھر بلدیہ سے ہی درخواست کی جائے کہ ان چاربازاروں کو شام کے وقت بھی صاف کیا جائے، جو اس میں مناسب عمل ہو اس پر عمل شروع کر دینا چاہیے۔اسی طرح ہمارے رہائشی علاقہ جات وہاں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال دیکھنے کو ملے گی۔ کروڑوں مالیت کی کوٹھی میں رہنے والے عرب پتی اپنی اور اپنے بچے کی صحت کو بہتر بنانے کے لیے اچھی سے اچھی غذا کا تو بندوبست کرتا ہے لیکن دوسرے لمحے ہی اپنی اور اپنے محلے کی صحت کا دشمن بن جاتا ہے، وہ کیسے؟ وہ غذا ئی چھلکے، فالتو یا خراب ہونے والی سبزی، فروٹ وغیرہ کو اپنے گھر کے باہر ادھر اُدھر دیکھ کر گلی میں یا دوسرے گھر کے قریب پھینک دیتا ہے۔اس طرح کا عمل تقریباً ہم سب دل کھول کر کرتے ہیں۔ پھر یہی گندگی گل سٹر کر فضائی آلودگی کا سبب بنتی ہے، یہ نہ صرف فضائی آلودگی کو گندا کرتی ہے بلکہ ہماری اپنی صحت پر بہت ہی نقصان دہ اثرات چھوڑ تی ہے جس سے کینسر جیسی لا علاج بیماریاں بھی پیدا ہوتی ہے۔پچھلے دنوں میرا نے درختوں کا کردار آرٹیکل آن لائن ہوا، جس میں درختوں کی افادیت پر کچھ لکھا گیا تھا۔ جب شام کو گھر واپس آیا تو کسی صاحب نے میرے گھر کے باہر رکھے ہوئے پودوں کو گملوں سمیت توڑنے کی کوشش کی لیکن گملوں کو نقصان پہنچا پودے بچ گئے۔ ایسا کیوں معلوم نہیں،پہلے میرے من میں آئی کہ کیمرے ریورس کر کے چیک کروں پھر سوچا نہیں خوامخواہ اس کے متعلق دل میں بے رخی پیدا ہو جائے گی۔ میرے ہم وطنو! اگر ہم صفائی نصف ایمان پر ایمان رکھتے ہیں تو اس پر عمل بھی کر کے دیکھیں۔ دوسرے ملکوں کی مثالیں دینے کی بجائے خود مثال بن جائیں، ضروری نہیں کہ ہمارے اوپر کوئی ڈنڈے والا ہی تو ہم یہ سب کریں گے۔ یہ تحریر عام شہری اور خاص شہری سے لے کر متعلقہ محکمہ جات تک ہے۔اس پر ذرا سوچیں اور اپنی اپنی جگہ پر اپنی مثال بن جائیں۔ اس طرح میرا پاک وطن دنیا میں ایک خوبصورت ملک بھی بن جائے گا اور فضائی آلودگی بھی کم ہو جائے گی۔ اللہ کے پیارے محبوب کی باتوں پرعمل کرنے سے ہی ہماری زندگی میں بہتری ممکن ہے۔ اللہ کریم ہم سب کو اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔ ثم آمین۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 156687 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More