سوشل میڈیا پر ان دنوں مری بائیکاٹ مہم پورے زور و شور سے
جاری ہے اور کچھ حضرات لوگوں کی منتیں ترلے کررہے ہیں کہ خدارا مری میں نہ
جائیں وہاں بڑا ظلم ہو رہا ہے ، مہنگائی کا طوفان برپا ہے، ایجنٹ حضرات بد
تمیزی کرتے ہیں ، گاڑیوں والے زیادہ کرایہ لیتے ہیں ، لوگ لڑائی جھگڑے کرتے
ہیں۔ یہاں تک تو بات سمجھ بھی آتی ہے اور کوئی بھی اصلاح کی نیت سے تنقید
کرے تو اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تنقید کو برداشت بھی کرنا چاہیے اور
اپنی اصلاح کی کوشش کرنی چاہیے لیکن سوشل میڈیا پر تنقید کی آڑ میں جو
طوفان بد تمیزی برپا ہے اور مری کے ہر خاص و عام کو فحش گالیاں دی جا رہی
ہیں اور جھوٹے قصے اور کہانیاں سنائی جا رہی ہیں اس سے صرف یہی اندازہ ہوتا
ہے کہ اصل مسئلہ نہ مہنگائی کا ہے نہ بد تمیزی کا اصل مسئلہ لوگوں کو مری
سے متنفر کرنا ہے۔ لیکن آخر یہ لوگ مری آتے کیوں ہیں؟ مری میں ایسی کون سی
بات ہے کہ ہر ہفتہ ،اتوار ، چودہ اگست،عید کے دنوں میں اور ہر سرکاری چھٹی
پہ مری میں سیاحوں کا ہجوم جمع ہو جاتا ہے ،جو مری کے دس بارہ فیصد لوگوں
کے لیے تو خوشی کا ذریعہ بنتا ہو گا لیکن 80 فیصد لوگوں کو ان دنوں میں
شدید رش کی وجہ سے پریشانی اور تکلیف سے دو چار رہنا پڑتا ہے اب اصل موضوع
کی طرف آتا ہوں کہ مری میں کیا خصوصیات ہیں کہ لوگ یہاں پر کھنچے چلے آتے
ہیں۔
مری کی ایک بڑی خصوصیت محل وقوع کے حساب سے ہے کہ اسلام آباد سے 1 گھنٹے کی
مسافت طے کرنے کے بعدبندہ مری پہنچ جاتا ہے اسی طرح لاہور ، فیصل آباد اور
پنجاب کے سب شہروں سے کم کرایہ اور کم وقت میں سیاح مری پہنچ جاتے ہیں جن
کا فاصلہ بھی اتنا زیادہ نہیں ہوتا ، ورنہ ایک دو چھٹیاں گزارنے کے لیے
ناران کاغان یا سوات اور گلگت ، چترال جانا نا ممکن ہے کیونکہ آدھے سے
زیادہ چھٹیاں تو سفر میں گزر جاتی ہیں شائد اسی بات کا غصہ ان علاقوں کے
لوگ مری پر نکال رہے ہیں اور ایک منظم انداز میں مری بائیکاٹ کی مہم شروع
کر رکھی ہے۔
مقا می لوگوں کی نظر سے دیکھا جائے تو میرے خیال میں یہاں سوائے موسم کے
اور کوئی خوبصورتی نہیں ہے کہ سیاح یہاں پر جوق در جوق چلے آتے ہیں، لیکن
ایک سیاح کی نظر سے دیکھا جائے تو مری میں ایسی کئی خصوصیات ہیں جو سیاح کو
مری آنے پر ہی مجبور کرتی ہیں ۔ ورنہ سوات، ناران، کاغان گلگت، چترال میں
موسم بھی مری سے کئی درجے بہتر اور خوبصورتی میں بھی اپنی مثال آپ ہیں مری
میں سیاحوں کی زیادہ آمد اس وقت شروع ہوئی جب سے پاکستان میں امن و امان کی
صورت حال خراب ہوئی ہر جگہ بم دھماکے ، لسانی بنیادوں پر جھگڑے، اور جب سے
غربت میں اضافہ ہوا، ایسے حالات میں مری سیاحوں کے لیے جنت بن گیا کیونکہ
ریکارڈ چیک کیا جائے تو مری میں امان و امان کی صورت حال پاکستان کے کسی
بھی بڑے سیاحتی مقام سے زیادہ بہتر ہے جہاں کبھی کسی نے نہیں سنا ہو گا کہ
کوئی بم بلاسٹ ہوا ہے یا پھر ٹارگٹ کلنگ ہوئی ہے، یا کسی مخصوص کمیونٹی کے
افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے یہاں پر سیاح آزادانہ نقل و حرکت کرتے ہیں اور
اس طرح کی پریشانیوں سے آزاد ہو کر سکھ کا سانس لیتے ہیں ۔
مری میں آج تک نہ ہی کوئی سیاح اغواء ہوا ہے اور نہ ہی کوئی زینب کسی کے
ظلم کا شکار ہوئی ہے اور کبھی کسی مہمان کے ساتھ ڈکیتی کی واردات نہیں ہوئی
، نہ کبھی یہ سنا ہے کہ یہاں پر کسی کی بوری بند لاش ملی ہو چند فیصد لوگوں
کے علاوہ یہاں کے لوگ ہر مشکل وقت میں سیاحوں کی مدد کرتے ہیں گاڑیاں پھنس
جاتی ہیں نکال کر دیتے ہیں رستہ سمجھاتے ہوئے کبھی کسی نے غلط گائیڈ نہیں
کیا ۔دوکانداروں کے علاوہ جن کی مجبوری اور ذریعہ آمدن ہی کاروبار ہے کوئی
مقامی لڑکوں کا لفنگا گروپ آپ کو مال روڈ پر بیٹھا ہوا اور خواتین پر ٓوازیں
کستا ہوا نظر نہیں آئے گا اگر پھر بھی ایسی کوئی شکائت ہے تو اس سے پتا
پوچھ کر آپ کنفرم کر لیں تو اس میں آپ کو مقامی لوگ نظر نہیں آئیں گئے ۔
مری کی ایک خوبصورتی یہ بھی ہے کہ یہاں پر کوئی بھی فحاشی کا اڈا قائم نہیں
ہے اور نہ ہی یہاں پر انتظامیہ کی طرف سے سیاحوں کو ایسی بے ہودہ سہولت
دستیاب ہے جو اکثر سیاحتی مقامات پر دستیاب ہوتی ہے اگر پھر بھی آپ کو کوئی
ایسی عورت مل جائے تو اس چھان بین کرنے سے آپ کو پتا چلے گا کہ یہ بھی ان
سیاحوں میں سے ہی کسی کے ساتھ ان کی بیوی یا بہن بن کر آئی ہے ۔ مری شہر
میں نہ تو طالبان دور والی سختی ہے اور نہ ہی ہیرا منڈی والی بے راہ روی
ورنہ یہاں پر سیاحوں کا نام و نشان آج سے 10 سال پہلے ہی مٹ گیا ہوتا۔
لیکن اس کے باوجود لوگوں کے کچھ گلے شکوے بجا بھی ہیں او ر ان کو دور کرنے
کے لیے مقامی لوگوں اور انتظامیہ کو کوشش کرنی چاہیے ، سب سے پہلے تو یہ
یاد رکھیں کہ اچھا اخلاق اچھے خاندان اور اعلیٰ روایات کی پہچان ہے ،مال
روڈ تو کیا ارد گرد کے ہوٹلوں میں بھی کھانے کے نرخ انتہائی زیادہ ہیں جس
کا گلہ اکثر سیاح حضرات بھی کرتے ہیں اور مقامی افراد کی تو جیب ہی اجازت
نہیں دیتی کہ مری شہر میں جا کر کھانا کھائیں اور کھانے کا معیار بھی غیر
معیاری ہوتا ہے فوڈ اتھارٹی والے آتے ہیں تو یہ مافیا ان کے خلاف احتجاج
شروع کر دیتا ہے اور تھانے میں درخواستیں دے دی جاتی ہیں ایسے میں معیار
اور ریٹ کیسے بہتر ہو سکتے ہیں؟
دوسری بات مال روڈ پر ہر چیز کے نرخ آسمانوں سے باتیں کر رہے ہیں لیکن تاجر
حضرات اس کا ذمہ دار کرایوں اور دوسرے اخراجات کو ٹھہراتے ہیں اس کے لیے
کوئی ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے کہ عام عوام کے ساتھ ساتھ سیاحوں اور
تاجر حضرات کے ساتھ بھی زیادتی نہ ہو جس کا بہترین حل کرایہ داری کا نظام
نافذ کیا جائے اور ریٹ لسٹ کو نمایاں جگہ پر آویزاں کیا جائے ۔
اگلا مسئلہ ایجنٹ حضرات کا ہے جن کی رویے اور اخلاق کی وجہ سے پورے مری کی
عوام بدنام ہو رہی ہے اللہ کے بندو ایجنٹی بھی کوئی کام ہے؟ اور سونے پہ
سہاگہ یہ کہ یہ لوگ اپنے بچوں کا مستقبل بہتر بنانے کے بجائے ان کو بھی یہی
کام سکھا رہے ہیں بچوں کو سکولوں میں بھیجو اور کوئی ڈھنگ کا کام کرو جس
میں آپ کی عزت نفس بھی نہ مجروح ہو اور پورا دن سیاحوں کے پیچھے بھی نہ
بھاگنا پڑے ،اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ خوش اخلاق گائیڈ متعارف کروائے جائیں
اور ان کو با قاعدہ کارڈ جاری کیے جائیں اسی میں مری کے لوگوں کی عزت ہے
صفائی نصف ایمان ہے اپنے کپڑے صاف ستھرے رکھیں اور پہناوہ بھی ایسا رکھیں
کہ لوگوں کے ذہن آپ سے متنفر نہ ہوں اپنی عزت کا خود خیال رکھیں۔
ٹیکسی یونین اور باقی ٹرانسپورٹر حضرات کو چاہیے کہ فاصلے کے حساب سے قابل
قبول ریٹ رکھیں اور سیاحوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا بند کریں ،نیلم جہلم
پوائینٹ کے بارے میں غلط بیانی نہ کریں اگر عوام کی سہولت کے لیے اوبر یا
کریم سروس گاڑیاں چلاتی ہے تو ان کا مقابلہ گھونسوں اور لاتوں سے کرنے کے
بجائے اپنے اخلاق سے کریں ،پاکستان میں آن لائن ٹیکسی کی کامیابی کی وجہ
صرف یہی بنی ہے کہ ہمارے پرانے ڈرائیور بھائیوں کا رویہ عوام کے ساتھ
انتہائی غلط رہا ہے مجبوریوں سے فائدہ اٹھانا ان کا وطیرہ بن چکا تھا۔ اللہ
آپ کو اپنے نصیب کا رزق ضرور دے گا اس لیے عوامی سہولت کو مد نظر رکھتے
ہوئے کریم اور اوبر ڈرائیورزکے ساتھ رویہ اچھا رکھیں اور کوشش کریں کہ اپنی
گاڑیاں بھی ان ہی کے ساتھ رجسٹر کروا لیں۔ اگر اپنے علاقے کی عزت برقرار
رکھنی ہے تو ان مسائل کے حل کے لیے مل جل کر بیٹھیں اور ان کا حل نکالیں۔
وگرنہ کل کسی دوسرے شہر جائیں گئے تو لوگ مری کا نام سن کر تمام مری والوں
کے لیے بھی مسائل پیدا کر یں گئے۔ |