تحریر: خاور جتوئی بلوچ، جھگی والا
جمہوریت کے سابقہ دس سال اگر عوامی حکومت کا نام تھے تو عام آدمی جمہوریت
سے متنفر کیوں ہوا ہے؟ اب جمہوریت کے نعرے تو صرف وہی لوگ مار رہے ہیں جن
کے کاروبار، اثاثے، بینک اکاؤنٹس اور بیرونِ ملک جائیدادیں ان دس سالوں میں
دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتی گئیں؟ عام انسان کو تو بوڑھی بیمار ماں کیلیے
ایک نمبر دوائیں بھی نہ مل سکیں۔ ان دس سالوں میں غریب کسان تو بیٹیوں کے
جہیز بھی نہ بنا سکے کہ کبھی مل مالکان بدمعاشی کرتے رہے، کبھی گندم کے ریٹ
گرتے رہے اور کبھی باردانہ نایاب ہوتا رہا۔
جمہوریت کا مقصد اگر ملک کی ترقی ہے تو جمہوری ادوار میں میرا پاکستان
پسماندہ سے پسماندہ اور نیچے سے نیچے کیوں چلا گیا۔ زرداری اور نواز کے
پچھلے دس جمہوری سالوں کا جائزہ لے لیں۔ ایک ایک کر کے سرکاری ادارے تباہ
ہوتے گئے، جو بچے کچھے ادارے تھے ان کو نواز شریف نے آ کر پرائیوٹائیزیشن
کی نظر کر دیا۔ ملک پہ قرضوں کا انبار کیٹو کو شرمندہ کرتا رہا لیکن حاکم
پھر بھی باز نہ آئے۔ اور تو اور ملک کی ساکھ اتنی گر گئی کہ ہم دنیا بھر
میں چور مشہور ہو گئے۔ ملک کے وزیر اعظم ایئر پورٹ پہ تلاشیں دیتے پھرے۔
جمہوریت اگر بنیادی حقوق کی فراہمی کا نام ہے تو صحت، تعلیم، تحفظ، انصاف،
معیاری خوراک سمیت ہر بنیادی سہولت انسانیت کی منڈی اور بازاری منڈی دونوں
سے غائب کیوں ہوئے پچھلے دس سالوں میں؟ پچھلے دس سالوں میں کیوں ہر سرکاری
ادارے میں میرے ملک کے لوگوں کی عزتِ نفس پامال ہوتی رہی؟ لوگ کیوں تھانوں
کے سامنے خود کو آگ لگاتے رہے؟ ان دس سالوں میں لوگ بجلی کے بل دیکھ کر
کیوں جلاتے تھے؟ ہماری مائیں بہنیں کیوں سڑکوں پہ بچے جنتی رہیں؟ اور سو سے
زائد ننھی زینبیں کیوں خون آشام درندوں کی بھینٹ چڑھتی رہیں؟عوام کیوں اپنے
جنازے لے کر گندے پانی سے جوہڑ بنی گلیوں سے گزرتے رہے؟ اپنے دل پہ ہاتھ
رکھیں اﷲ کو حاظر ناظر جان کر بتائیں کیا جمہوریت کے پچھلیدس سالوں نے ہم
عوام کو نفسیاتی مریض نہیں بنا دیا؟ خدا کو گواہ بنا کر کہیں کیا پچھلی دس
سالہ جمہوریت کا فائدہ آپ لوگوں کو ہوا یا نواز شریف، زرداری، فضل الرحمن
سمیت تمام حکمرانوں اور سیاستدانوں کو ہوا؟ جمہوریت تو ڈلیور کرنے کا نام
ہے۔ تو کیا ڈلیور ہوا ہم لوگوں کو؟ او مونگ کی دال گوشت سے مہنگی ملتی رہی
ہمیں۔ پیاز سیب سے مہنگے خرید کر ہم گھر دیتے رہے۔
چند ماہ بعد پھر یہی تماشہ جمہوریت کے نام پہ لگنے والا ہے جو دس سال سے
دیکھ دیکھ کر ہماری آنکھوں سے اب لہو کے آنسو نکلتے ہیں۔ آپ میں اگر غیرت
کا ایک زرہ بھی ہے تو اس دفعہ توڑ دو ہر وہ شیشہ جس میں آپ کو جمہوریت نام
کی نازک اندام حسینہ دکھانے کی کوشش کی جائے۔ دس سالوں سے ہم لوگوں کو وحشت
میں رکھا گیا جمہوریت کے نام پہ۔
تعلیم، صحت، صفائی، انصاف، تحفظ، روزگار، صاف پانی اور خوراک کچھ بھی نہیں
رہنے دیا گیا ہمارے پاس۔ اب اپنی وحشت کا کھل کے مظاہرہ کریں۔ قطعی یہ نہیں
کہتا کہ سڑکوں پہ نکلیں یا توڑ پھوڑ کریں۔ وہی کریں جو میں کر رہا ہوں۔
لوگوں کو آگاہ کریں کہ یہ اب بھی وہی جھوٹ ہے جس میں ہم دس سالوں سے جی رہے
ہیں۔ بے نقاب کریں اس جھوٹی جمہوریت کا چہرا۔ جو لکھ سکتے ہیں اس جمہوریت
کے بائیکاٹ کیلیے لوگوں کو دعوت دیں۔ جو نہیں لکھ سکتے وہ اس موضوع پہ
لکھنے والوں کا پیغام آگے پھیلائیں۔ یہ کام جنون سمجھ کے کرنا کیونکہ یہ
صرف ہم اپنی زات کیلیے ہی نہیں کر رہے بلکہ اس جمہوریت کے خونی پنجوں سے
اپنا ملک چھڑانے کیلیے بھی کر رہے ہیں۔ اور جہاں بات ملک کی ہو وہاں ہم لوگ
جنونی بنیادوں پر ہی کام کرتے ہیں۔ |