کرناٹک میں عجب جگل بندی چل رہی ہے ۔مودی جی اپنی تقاریر
میں راہل گاندھی کو نشانہ بناتے ہیں اور اس کا منہ توڑ جواب سدھاّ رمیہ دے
دیتے ہیں مثلاً جب وزیراعظم نے کانگریس کے صدر سے متعلق کہا کہ وہ اپنی
مادری زبان میں سہی ۱۵ منٹ بغیر نوٹ دیکھے خطاب فرمائیں تو وزیراعلیٰ نے اس
کے جواب میں کہہ دیا مودی جی نوٹ دیکھ کر سہی ۱۵ منٹ سابق وزیراعلیٰ یدورپاّ
کی کارکردگی پر اظہار خیال فرمادیں ۔ اسے کہتے ہیں’ جیسے کو تیسا ملا بڑا
مزہ آیا‘۔ مودی جی کو اپنی بدزبانی کے سبب اس طرح کی رسوائی سہنے کی عادت
سی ہوگئی ہے لیکن راہل گاندھی کے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آپ ملک کی باگ
ڈور سنبھالنے کے لیے تیار ہیں ؟ جواب دے دیا جی ہاں اگر آئندہ انتخاب میں
کانگریس سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرتی ہے تو وہ اس ذمہ داری کو ادا کرنے کے
لیے تیار ہیں نے مودی جی کے ہوش اڑادئی۔ انہیں ایسا لگا گویا اقتدار ان کے
ہاتھ سے چن گیا اور وہ ہذیان بکنے لگے ۔راہل گاندھی کے جواب میں مودی جی نے
ایک کہانی سنا دی ۔ ویسے ان کی تقاریر میں حکایت کے سوا ہوتا بھی کیا ہے؟
حقیقت تو ہوتی نہیں ہے۔
مودی جی نے فرمایا (ان کے اپنے الفاظ) ’’ گاوں میں پانی کا ٹینکر آنے سے
پہلے لوگ لائن میں بالٹی لگا دیتے ہیں۔ وہ ایماندار لوگ بالٹی لگا کر اپنے
اپنے کام میں لگ جاتے ہیں۔ تین بجے ٹینکر آتا ہے تو لوگ باری باری پانی
بھرتے ہیں۔لیکن گاوں میں کوئی دبنگ ہوتا ہے ۔ لوک تنتر(جمہوریت) کو مانتا
نہیں ہے ۔وہ تین بجے ٹھیک پہنچتا ہے ۔ چھاتی تانتا نکلتا ہے اور اپنی بالٹی
پہلے رکھ دیتا ہے۔ اور ٹینکر کا پانی خود لے لیتا ہے۔ کرناٹک میں ،
ہندوستان میں ، ہندوستان کی راجنیتی (سیاست ) میں کل ایسا ہی ہوا۔ باقی کی
قطار کا جو ہوگا سو ہوگا ، گٹھ بندھن کے دلوں (الحاق میں شامل جماعتوں ) کا
جو ہوگا سو ہوگا۔ ۴۰ سال سے انتظار کررہے نیتاوں کا جو ہوگا سو ہوگا۔ اس
نےقطار میں اپنی بالٹی پہلے رکھ دی ۔ کہا میں پردھان منتری بنوں گا ۔ یہ
آہنکاری (انا پرست) نامدار کا خود کو پردھان منتری گھوشیت (اعلان) کرنا کا
نگریس کی اپریپکوالوک شاہی (ناپختہ جمہوریت) کو ویکت(اظہار) کرتا ہے کی (یا)نہیں؟
۲۰۱۹ سے پہلے خود کو پردھان منتری گھوشیت کر دینا ، میں آپ سے پوچھتا ہوں
کہ نامدار آہنکار ساتویں آسمان پر پہنچا ہے یا نہیں ؟‘‘
اس بیان کا اگر پوسٹ مارٹم کیا جائے تو اس میں ایماندار لوگ پانی کے انتظار
میں ٹینکر کی لائن میں کھڑے نظر آتے ہیں ۔ یہ صورتحال مودی جی کے وزیر
اعظم بننے سے پہلے بھی تھی اور اب بھی ہے لیکن ایک فرق یہ واقع ہوا ہے کہ
پہلے انہیں دیر یا سویر پیاس بجھانے کے لیے پانی مل جاتا تھا اب سرکا درد
بھاشن سننے کو ملتا ہے ۔ سونیا گاندھی نے درست کہا کہ مودی جی کی تقاریر سے
پیٹ نہیں بھرتا۔ تقریر میں آگے ایک دبنگ کا ذکر ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ فی
الحال ہندوستان میں مودی جی سے بڑا دبنگ کوئی اور نہیں ہے۔ ان کے بارے میں
خود بی جے پی کے سابق رکن پارلیمان پاٹولے نے بتایا کہ وہ سوال تک سننے کے
قائل نہیں ہیں اور اگر کوئی پوچھنے کی جرأت کرے تو بگڑ جاتے ہیں۔ ان کی
اپنی پارٹی کے یشونت سنہا اور ارون شوری کی داستان الم خون آشام ہے ۔ وہ
اپنے ساتھیوں کو ملنے کا وقت تک نہیں دیتے ۔ لوک تنتر(جمہوریت) کی دھجیاں
جس طرح مودی راج میں اڑائی گئی ہیں اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی ۔ ہزاروں
کروڈ کا بجٹ بغیر بحث کے منظور ہوجاتا ہے ۔ پارلیمان کا پورا اجلاس شور
شرابے کی نذر ہوجاتا لیکن انہیں اس کی فکر نہیں ہوتی۔
تقریر میں اس دبنگ کے اپنی بالٹی آگے رکھ دینے سے مودی جی کو پریشانی ہوتی
ہے۔ اس موڑ پر ایسا لگتا ہے کہ گویا جس وقت مودی جی وزارت عظمیٰ کے امیدوار
بنے تھے ،وہی سب سے معمر رہنما تھے۔ان کے آگےقطار میں کوئی نہیں تھا ۔
حالانکہ یہ بات سراسر غلط ہے۔ ۲۰۱۳ کے اندر بی جے پی میں سابق نائب
وزیراعظم اور ان کے گر و لال کرشن اڈوانی جی موجود تھے جن کی بالٹی مودی جی
نے اٹھا کربحرِعرب میں پھینک دی ۔ اپنے آپ کو اڈوانی سے افضل سمجھنے والے
سابق وزیرانسانی وسائل مرلی منوہر جوشی بھی تھے جن کے حلقۂ انتخاب پر مودی
جی نے قبضہ کرلیا ۔ پارٹی کے دیگر دو صدور راج ناتھ سنگھ اور نتن گڈکری بھی
وزیر اعظم بننا چاہتے تھے ۔ ان میں سے ایک کو مرکزی وزارت کا تجربہ تھا اور
دوسرا آرایس ایس کا منظور نظر تھا مگر مودی جی نے ان سب کوٹھکانے لگا کرکے
اپنی بالٹی آگے رکھ دی ۔ آنِ واحد میں ۴۰ تو کیا ۵۰ سال سے انتظار کرنے
والے نیتاوں کو مارگ درشک منڈل میں بھیج کر موک(گونگا) درشک بنادیا۔
این ڈی اے میں ۲۵ جماعتیں شامل ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے جو
مودی جی کے رویے سے خوش ہے ۔ شیوسینا کو جتنی ذلت مودی جی کے ہاتھوں ہوئی
اس کا تصور بھی محال تھا اس لیے وہ صبح شام گالیاں بکتی ہے۔ اکالی دل نے
منہ موڑ لیا ہے۔ پی ڈی پی آئے دن دھمکی دیتی ہے۔ تیلگو دیشم خلع لے چکا ہے
۔ بہار میں کشواہا اور پاسوان ناراض ہیں ۔ جتن رام مانجھی دور ہوچکے ہیں ۔
اپنا دل پرایا ہوچکا ہے مودی جی نے ماں بیٹی میں جدائی ڈال کر ان دونوں کو
الگ کردیا ہے۔ اتر پردیش میں بھارتیہ سماج پارٹی کے اوم پرکاش راج بھر دن
رات کھڑی کھوٹی سناتے ہیں۔ مہاراشٹر میں سوابھیمان شیتکری سنگٹھن کے شرد
جوشی بی جے پی سے ناطہ توڑ چکے ہیں اور رام داساٹھاولے دکھی بیٹھے ہیں۔
جہاں تک چھاتی تاننے کا سوال ہے ہندوستانی سیاست میں ۵۶ انچ کی چھاتی والی
اصطلاح مودی جی ایجاد ہے ۔ ان کی انا پرستی کا راز اڈوانی کی عوامی رسوائی
سےظاہر ہو چکا ہے ۔
بی جے پی کی ناپختہ جمہوریت کا سب سے بڑا ثبوت امیت شاہ کوپارٹی کی صدارت
سونپ دیا جانا ہے۔ امیت شاہ کو پارٹی چلانے کا کون سا تجربہ تھا؟ کیا انہیں
محض وفاداری کے سبب پارٹی کے سب اہم عہدے پر نہیں فائز کیا گیا؟ یہی بات
یوگی ادیتیہ ناتھ کے ساتھ ہوئی کہ جس شخص کو مرکزی یا صوبائی حکومت چلانے
کا کوئی تجربہ نہیں تھا اس کو معمر لوگوں پر فوقیت دے کر مودی جی
نےوزیراعلیٰ بنادیا ۔ مودی جی ۲۰۱۹ سے پہلے خود کو پردھان منتری گھوشیت کر
دینے کو خود پسندی کی انتہا دیتے ہوئے بھول جاتے ہیں کہ ۲۰۱۴ الیکشن سے
قبل بی جے پی کے ہر پوسٹر یہ نہیں لکھا ہوتا تھا کہ’ اب کی بار بی جے پی
سرکار‘ بلکہ یہ نعرہ ہوتا تھا ’اب کی بار مودی سرکار‘ تو کیا اس طرح کا
اعلان کرنے کا حق صرف مودی جی کو ہے کسی اور کو نہیں ہے؟ اس وقت ان کا
آہنکار کون سے آسمان پر تھا اور اب راہل کے میدان میں آجانے سے کس پاتال
میں چلا گیا ہے؟ خود راہل گاندھی کو بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا ان کا معمولی
سا بیان مودی جی کو اس قدر نروس کردے گا ۔ |