جس مُلک کے حکمران جمہوریت کا نعرہ لگا کر اقتدار کی کنجی
تھام لیں اور مسندِاقتدارتوسنبھال لیں مگر جمہوریت کے ثمرات سے عوام کو
محروم رکھیں،جہاں اُصولوں کی سیاست کی مالاچپنے والے خود بے اُصول کی راہ
پر چل نکلیں، حب الوطنی کے دعوے تو کریں مگر اپنے ذاتی اور سیاسی مقاصد کے
خاطرمُلکی راز فاش کرکے مُلکی سلامتی اور خودمختاری کو ہی داؤ پر لگا دیں ،
آئین اور قا نون کی پاسداری کے دعوے بھی بڑے بڑے کریں مگر اعلیٰ عدلیہ
اورقومی اداروں سے خود ہی محاذ آرا ئی کریں ، قومی خزا نے کو قوم کے لئے
استعمال کرنے کے بجا ئے اِسے اپنی ذات اور آف شور کمپنیوں کے لئے لوٹ کھا
ئیں ، انصاف کی بات تو کریں،مگر خود انصاف کے کٹہرے میں کھڑے ہونے سے
ڈریں،سرکاری سستی اور معیاری تعلیم کے لئے درسگاہوں کے قیام کاتو لہک لہک
کر اعلان کریں؛ مگر اِن کی اولادیں مہنگے یورپی ممالک کی درسگاہوں میں
تعلیم حاصل کریں اور عوام کے بہترین علاج و معالجہ کے سرکاری مراکز اور
سہولیات کی توخوب جھوم جھوم کر باتیں کریں مگر جب یہ خود بیمار پڑیں یا
فیملی کا کوئی فردبیمار ہوتو علاج کرانے (حتی کہ دانت نکلوا نے کے لئے بھی
)یورپ کے مہنگے ہستپالوں کا رخ کریں ایسے حکمرانوں اور سیاستدانوں کے ہوتے
ہوئے اَب یہاں جھوٹ ،فریب ،دھوکہ اورکرپشن ہی پروان چڑھے گا۔ ایسے قومی
جھوٹوں اور لٹیروں کی موجودگی میں کسی قسم کی اچھائی کی اُمید لگانابھی
پاگل کا خواب ہوگا۔
من حیث القوم سچ تو یہ ہے کہ آج پاکستا نی عوام اشرافیہ کے پون صدی سے
جمہور اور جمہوریت کے نام پر رچائے جانے والے ڈرامے کے حصاراور نوٹنکی کے
طلسماتی اثرسے نکلنا چاہتے ہیں عوام ستر سال سے جمہوریت کے اُس سچ کی تلاش
میں ہیں جِسے سِول حکمرانوں ، سیاستدانوں اور اِن کے افسرشاہی کی شکل میں
چیلے چانٹوں نے اپنے لئے تواستعمال کیا مگرکسی نے بھی عوام تک اِس کے حقیقی
جمہوری ثمرات نہیں پہنچائے۔غرضیکہ آج تب ہی عوام برطانیہ میں منی لانڈرنگ
کرنے والے زرداری ، نواز اور عمران و قادری جیسے دیگر ملامولوی اور سیاسی
بازی گروں اور بار بار جھوٹ بول کر عوام سے ووٹ لینے والوں سے بیزار ہوچکے
ہیں ۔اِن سیاسی بہروپیوں اور مکاروں سے عوامی نفرت اوربیزاری کا نتیجہ
تواگلے متوقع انتخابات میں کھل کر سا منے آجا ئے گا ؛ بس ذراسا انتظار اور
چاہئے ۔ دنیا جلد دیکھ لے گی کہ عوام نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق سے خائف
اقتدار کے پجاریوں کا کیا حشر کرتی ہے؟
اِس میں شک نہیں کہ قومی خزانے پر ہاتھ صاف کرنے کی نیت سے جمہوریت کا نعرہ
بلند کرکے اقتدار حاصل کرنے والوں کے ہر حربے کو عوام سمجھ رہے ہیں کہ ستر
سال سے سب نے سِوائے قومی خزا نے کو اپنے اللے تللے کے لئے استعمال کرنے کے
کبھی بھی کسی نے مسائل اور بحرانوں میں جکڑی قوم اور اقتصادی لحاظ سے بدحال
مُلک کی بہتری کے لئے کچھ نہیں کیا ہے اِس عرصے کے دوران سِول یا آمرجو بھی
حکمران آیا ۔عوامی فلاح و بہبود کے نام پر اشرافیہ نے مُلک اورقوم کا کیسے
بیڑاغرق کیا ہے ؟ آج یہ کسی سے ڈھکا چھپاہوا نہیں ہے۔
بہر کیف ، آج حکمرانی کے ٹھیکدار مٹھی بھر اشرافیہ اور نادیدہ قوتوں اور
خلائی مخلوق کا رونا رونے والے خود ہی درست سمت پر ہوتے تو کسی طلسماتی
قوت(اسٹیبلشمنٹ) کی کیا مجال تھی ؟کہ وہ اِن کے سر پر سوار ہوتی ،بوٹوں سے
روندتی اور ڈنڈے مارتی ؛حقیقت یہ ہے کہ نادیدہ قوتوں اور ماروا ئی خلائی
مخلوق کا راستہ تو اِنہوں نے ہی ہموار کیا آج جو سر پر ہاتھ رکھ کر دردر
نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق کا رونا رو رہے ہیں۔
آج ہماری یہ بدقسمتی اور یہی رونا کچھ کم ہے کہ من حیث القوم ہم اپنے حقوق
کے حصول کے لئے خود سے کچھ کرنا نہیں چاہتے ہیں۔ بس ہم چاہتے ہیں کہ ہمیں
سب کچھ پکاپکایا مل جا ئے توہم آرام سے بیٹھ کر کھا ئیں اور مزے کریں۔
ہماری اِسی خصلت اور سو چ کا فائدہ تو ستر سال سے اشرافیہ کوہورہاہے ۔جِسے
معلوم ہے کہ عوام کو اپنے اقتدار اور مفادکے لئے کس قسم کے سبزباغ دِکھاکر
بے وقوف بنایاجاسکتاہے سوآج مٹھی بھر ہمارااشرافیہ کا طبقہ ایسا کررہاہے
اور فائدہ اُٹھا رہاہے؛ ہمیں یہ بات اچھی طرح ذہن نشین رکھنی ہوگی کہ اگرآج
ہم ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور ہم نے اپنا مستقبل اِن لیٹرے حکمرانوں
اور سیاستدانوں کے ہاتھوں میں تھمائے رکھاتو پھر ہم صدیوں پستی اور گمانی
کی کھا ئی اور بدبودار دلدل میں ہی پڑے رہیں گے؛ اگرواقعی ہمیں اپنا اور
اپنی نسل کا کل بہتر کرنا ہے تو پھرآج ہمیں شاطر اور لٹیرے حکمرانوں اور
سیاستدانوں سے نجات حاصل کرنی ہوگی ورنہ؟ہم قصہء پارینہ بن جائیں گے۔ یہ
ہماراقومی المیہ ہے کہ قومی خزا نے پراپنے اللے تللے کے لئے نظر رکھ کر
اقتدار حاصل کرنے والے مُلک اور قوم کی فلا ح و بہبود اور بھلا ئی سے متعلق
کیا سوچیں گے؟جس مُلک میں سرمایہ کار اور صنعت کار الیکشن میں جیت کے لئے
اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیں ، انتخابات میں انویسٹمنٹ کریں ، اوراِس نیت
سے اپناسرمایہ انتخابات میں لگا دیں کہ جیت کے بعد قومی دولت سے بلے بلے
ہوگا۔پھرتو مُلک اور قوم کا ایسا ہی حال ہوگا جیسا کہ آج مسائل اور بحرانوں
میں گھیرے ارضِ مقدس پاکستان اور اِس کے بنیادی حقوق سے محروم عوام کے
چہروں سے ٹپکتی بدحالی نظرآتی ہے۔
سُپر یم کورٹ کے 27جولائی 2017 ء کے نااہلی کے فیصلے کے بعد سے ابھی تک
نوازشریف کی نااہلی کی عدت ختم نہیں ہوئی ہے۔ جیسے جیسے متوقع عام انتخابات
کے دن قریب آتے جارہے ہیں۔ نوازشریف کی نادیدہ قوتوں اور خلائی مخلوق سے
پنچہ آزما ئی آخری مراحل میں داخل ہوتی جارہی ہے؛ آج شرطیہ طورپراِس سارے
عمل سے گزرتے میاں صاحب کی ایک خواہش یہی ہے کہ کو ئی اِنہیں گرفتاکرکے
اڈیالہ جیل میں قید کردے تو اِن کے تمام سیاسی عزائم اگلے متوقع الیکشن میں
جیت کی صورت میں سُنہرے موتی بن کر سا منے آجا ئیں گے۔ اَب اِس کوشش میں
متحرک نوازشریف ملکی خود مختاری اور سا لمیت کو بھی داؤ پر لگا کر اپنے
سیاسی مقاصد میں کا میا بی کے خوا ب دیکھ رہے ہیں؛ مگر یہ کچھ بھی
کرلیں۔اَب قوم اِن کا اصل چہرہ دیکھ چکی ہے اور جان چکی ہے کہ یہ مُلک اور
قوم کے لئے ایک ناقابل اعتبار اور مفاد پرست شخص ثابت ہوئے ہیں جو اپنے
فائدے کے لئے مُلک اور قوم کا سودا کرنے سے بھی کبھی دریغ نہیں کریں گے۔
جبکہ عوام یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ سِول حکمران اور سیاستدان نوازشریف
اور آصف علی زرادری اقتدار حاصل کرکے قومی خزا نے کا منہ تو اپنی عیاشیوں
اور اللے تللے کے لئے کھول دیتے ہیں مگریہ دونوں اپنی حکمرانی کے دوران
مُلک اور قوم کی ترقی اور خوش حالی کو کیو ں بھول جاتے ہیں؟ پاکستانی عوام
اِس سچ کی تلاش میں کل بھی سرگرداں تھے اور آج بھی ہیں؛ کیا زرداری یا نواز
میں سے کوئی ہے جو عوام کو تسلی بخش جواب دے ؛ اوراُس سچ کو عوام کے سا منے
عیاں کردے جس کی تلاش میں پاکستا ن کے عوام ستر سال ہیں۔(ختم شُد) |