رنجشوں اوردشمنی کانیامرکز

پچھلی تین دہائیوں سے زائدصومالیہ خشک سالی اورخانہ جنگی کی وجہ سے تباہ وبربادہوچکاہے اورصومالیہ کی نصف سے زائدآبادی دنیاکے دیگرممالک میں پناہ لے چکی ہے۔سیاسی تجزیہ نگاروں کے مطابق صومالیہ زیرزمین قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے اورانہی وسائل پرقبضہ کرنے کیلئے امریکا اور دیگرمغربی ممالک صومالیہ کے بااثر مگرکرپٹ افرادکے تعاون سے ان پرقبضہ کرنے کیلئے کوشاں تھے ۔ان کوششوں کوروکنے کیلئے کئی عسکری گروپ میدان میں اترآئے جس میں القاعدہ اپنے مضبوط اورطاقتورگروپ کے طورپر سامنے آئی اورانہوں نے صومالیہ کوغیرملکی طاقتوں کے چنگل سے آزادی کے نام پر امریکی اورمغربی مفادات کواس لئے نشانہ بناناشروع کر دیا جس کے بعد امریکانے ان گروپوں کوختم کرنے کیلئے ڈرون حملوں کاآغاز کر دیاجوتاحال ابھی تک جاری ہیں۔

ان عسکری گروہوں نے امریکی مفادات کے خلاف اب خودکش حملوں کابھی آغازکردیاہے اور موغادیشو میں۱۵/اکتوبر۲۰۱۷ء میں ہونے والے دوبم دہماکوں میں۳۰/افراد موقع پرہی ہلاک اور سو سے زائدافرادزخمی ہوگئے جن میں درجن سے زائدبعدازاں زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے اپنی جانوں سے ہاتھ دھوبیٹھے۔پہلادہماکہ شہرکے پرہجوم علاقے میں کیاگیاجبکہ دوسرادہماکہ دارلحکومت کے مدینہ ضلع میں ہواجس میں کئی افراد ہلاک ہوگئے۔پولیس کپتان محمدحسین نے مشہورخبررساں ادارے رائٹرزکوبتایا کہ پہلادہماکہ موغادیشو کے ایک بڑے ہوٹل جہاں امریکی قیام کرتے ہیں،اس کے صدردروازے کے قریب دہماکہ خیزموادسے بھرے ٹرک سے کیاگیاجس سے تیس افراد ہلاک ہوگئے اورآج تک یہ واضح نہیں ہوسکاکہ یہ خوفناک دہماکہ کاذمہ دارکون ہے تاہم موغادیشومیں ایسی کاروائیوں میں پہلے بھی القاعدہ ملوث رہی ہے۔صومالیہ میں بی بی سی کے نمائندے نے یہ کہاکہ میں نے آج تک ایساخوفناک دہماکہ نہیں دیکھاجس نے آن کی آن میں پورے علاقے کوتباہ وبربادکرکے رکھ دیا۔اس دہماکے میں ملک کاسب سے بڑاپرتعیش سفاری ہوٹل مکمل طورپرتباہ ہوگیاجہاں غیرملکیوں کی اکثریت موجودتھی ۔

لیکن اب صورتحال قطعی بدل گئی ہے اور ستمبر۲۰۱۴ءسے یمن کے دارلحکومت صنعاپرقابض ایران نوازحوثی باغیوں نے خلیجی ممالک کے باہمی اختلافات اورایک دوسرے کے خلاف محلاتی اورعلاقائی سازشوں سے فائدہ اٹھا کر حوثی باغیوں نے صومالیہ میں متحرک ہونے کاسلسلہ شروع کردیا ہے۔مشرقی افریقہ کے اہم ترین مسلم ملک صومالیہ کوپورے براعظم میں سب سے بڑے ساحل رکھنے کا اعزاز حاصل ہے،طویل تربھارتی ساحلی علاقہ اوراہم بندرگاہوں کے باعث ہی اسے صومالیہ کہاجاتاہے جس کامطلب ''دودھ سے بھراپیالہ''ہے ۔ایران نے صومالیہ میں فوجی اہمیت وبرتری حاصل کرنے کیلئے یہاں کے طویل تجارتی بندرگاہوں سے حوثیوں کوعرب ممالک کے خلاف متحرک کرنے کامنصوبہ بنارکھاہے۔حوثی سپریم کونسل کے سربراہ محمدعلی حوثی نے باقاعدہ اعتراف کرتے ہوئے بتایاکہ حوثی باغی متحدہ عرب امارات کے ساتھ صومالیہ کے سیاسی تنازع میں صومالیہ کے ساتھ تعاون کررہے ہیں۔باوثوق ذرائع کے مطابق حوثی باغیوں سے منسلک عسکری گروپوں کی صومالیہ میں عسکری سرگرمیاں سترکی دہائی سے جاری ہیں تاہم ماضی میں حوثیوں کے پاس زیادہ اسلحہ نہ ہونے کی وجہ سے انہیں زیادہ بہترتعاون فراہم کرنے سے قاصر تھے جس کے باعث یہ معاملہ زیادہ نہ ابھرسکاتھاچونکہ صومالیہ کی سرحد شمال میں یمن کے ساتھ ملتی ہے،اس لئے حوثی باغی بڑی آسانی سے صومالیہ میں متحرک رہتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق حوثی باغیوں کے صومالیہ کی مرکزی حکومت میں بعض اعلیٰ حکام کے ساتھ خفیہ روابط ہیں جن کے ذریعے حوثی باغیوں نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے وہاں پرجاری منصوبوں کوناکام بنانے میں اہم کرداراداکیاہے۔یمن کے حوثی باغی صومالیہ کے ساحلوں سے مستفیذہو رہے ہیں اوراسلحہ اورمنشیاکی اسمگلنگ کیلئے صومالیہ کی بندرگاہوں کو آزادانہ استعمال کرتے رہے ہیں۔اس سال دبئی کی ایک کمپنی نے بربرہ بندرگاہ کی تعمیرکامعاہدہ کیا۔کمپنی کی تعمیری سرگرمیوں کے آغازسے قبل وہاں سیکورٹی انتظامات کیلئے فورسز تعینات کی گئیں جس سے حوثیوں کی اسمگلنگ کادھندہ رک گیا۔ نقصان کے اندیشے کے پیش نظرباغیوں نے غریب صومالیہ کے کرپٹ رہنماؤں کوبھاری رشوت دیکرانہیں ان کے محسن ملک عرب امارات کے خلاف استعمال کیا۔صومالیہ میں حوثیوں کاکرداراس وقت منظرعام آیاجب۸/اپریل کوعرب امارات کے جہازکو صومالیہ کے دارلحکومت موغادیشومیں روکاگیا،جہازمیں عرب امارات کے فوجیوں کے ساتھ توہین آمیزسلوک اوران کوحراساں کیاگیااوران سے وہ ساری رقم بھی ضبط کرلی گئی جووہ فوجیوں کو تنخواہ دینے کی غرض سے لائے تھے۔اماراتی حکام کی جانب سے ایک بیان میں کہاگیاہے کہ اس طیارے پر۴۷/اماراتی سیکورٹی اہلکارسوارتھے ،نہ صرف جہازکوروکاگیابلکہ ان سے انتہائی نارواسلوک کرنے کے بعدان سے وہ ساری رقم بھی چھین لی گئی جووہ تنخواہ دینے کیلئے اپنے ساتھ لیکرگئے تھے۔

بیان میں کہاگیاہے کہ گن پوائنٹ پرجہازروکنا،اماراتی سیکورٹی فورسزکے ساتھ توہین آمیز ناروا سلوک اوررقوم کوضبط کرنے کی کاروائی دوطرفہ معاہدوں اورعالمی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔اماراتی سرکاری نیوزایجنسی صرام کے مطابق اماراتی حکومت کاکہناہے کہ طیارے میں رکھی گئی رقم ایک معاہدے کے تحت صومالیہ کی فوج کی مددکیلئے بھیجی گئی تھی ۔ واضح رہے کہ متحدہ اامارات اورصومالیہ کے درمیان۲۰۱۴ءمیں یہ دوطرفہ فوجی معاہدہ طے پایاتھا لیکن موغادیشومیں طیارہ روکے جانے کے بعدمتحدہ عرب امارات نے صومالیہ کی فوج کی تشکیل دینے اوراس کی تربیت دینے کے مالی مشن کے علاوہ ہرقسم کے تعاون کوختم کرنے کااعلان کردیاہے اوراس کے ساتھ ہی اماراتی حکومت نے موغادیشومیں متحدہ امارات کاامدادی ہسپتال بھی بندکر دینے کااعلان کردیاہے۔امارات کی جانب سے ان پابندیوں کے اقدامات کے بعدحوثی باغیوں نے کھل کرپرپرزے نکالنے شروع کردیئے ہیںاورانہوں نے سومالی عوام کوجھوٹی طفل تسلیاں دینی شروع کردی ہیں کہ امارات کی جانب سے امدادی سرگرمیوں پرپابندیوں کے بعدوہ صومالیہ کی مددکیلئے میدان میں موجود رہیں گے۔خیال رہے کہ عرب امارات اورصومالیہ کے درمیان متبادل احترام پر مبنی تاریخی تعلقات ہیں۔

امارات نے امارات نے صومالیہ کی سیکورٹی فورسزاورفوج کے ہزاروں اہلکاروں کوعسکری تربیت کے علاوہ دوسرے کئی فلاحی کاموں میں بھی بے پناہ امدادفراہم کی ہے۔پچھلے کئی برسوں سے متحدہ امارات کی جانب سے صومالیہ کے۲۴۰۷/صومالی فوجیوں کی تنخواہ اوردیگراخراجات بھی اداکئے جاتے تھے ۔اس کے علاوہ صومالی عوام کے علاج معالجے کیلئے ہسپتال اوردیگر اماراتی طبی ٹیموں کے اخراجات بھی عرب امارات حکومت برداشت کررہی تھی۔نیزدہشتگردی اور قذاقی کے انسدادکیلئے بھی عرب امارات پرنٹ لینڈصوبے میں سمندری پولیس کی نگرانی کررہاتھا۔ صومالیہ کے سیکورٹی اور عسکری اداروں کے معیارکوبلندکرنے میں عرب امارات نے بھرپور مالی کرداراداکیاہے۔اس سے سب سے زیادہ نقصان حوثی باغیوں کے عسکری باغی گروپوں کوہو رہاتھا جس کے خلاف سازش کے ذریعے حوثیوں نے اپنے مہربان ممالک کے ذریعے صومالیہ کی حکومت میں اپنے وفادارتلاش کر لئے ہیں اوریوں عربوں کے درمیان رنجشیں اوردشمنی ڈالنے کیلئے انہیں بہترین جگہ مل گئی ہے۔

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349747 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.