ممبئی حملوں کے حوالے سے سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کے
غیرذمہ دارانہ بیان نے پاکستان کے امیج کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ بھارت جو
پہلے ہی پاکستان پر الزام تراشی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اس
بیان کو لے کر ایک مرتبہ پھر پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
بھارتی میڈیا کو پاکستان پر تنقید کا نیا موقع ملنے کے بعد وہاں کے اینکرز
ہمارے خلاف مسلسل آگ اگل رہے ہیں۔ وہ دنیا کو بار بار جتا رہے ہیں کہ ممبئی
حملوں کے حوالے سے پاکستان پر ان کا الزام درست تھا۔ ادھر اسلام آباد میں
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی زیرصدارت قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس
بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا گیا کہ غلط تصورات کی بنیاد پر اور حقائق سے
ہٹ کر رائے قائم کرنا بدقسمتی ہے۔ کمیٹی نے متفقہ طور پرمتنازعہ بیان کو
غلط اور گمراہ کن قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس حوالے سے کیس میں تاخیر
کا ذمہ دار پاکستان نہیں، بھارت ہے۔ اجمل قصاب تک رسائی دینے سے انکار اور
اس کی عجلت میں پھانسی کے باعث کیس مکمل نہ ہوسکا۔ پاکستان بھارت سے
کلبھوشن یادیو اور سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ پر تعاون کا بھی منتظر ہے۔ شرکاء
کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردی کی ہر شکل کی مذمت کرتا ہے۔ پاکستان نے
دہشت گردی کیخلاف جنگ میں سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں اورآئندہ بھی اس کے
خاتمے کے لیے اپنا کردار ادا کرتا رہے گا۔ تین مرتبہ پاکستان کے وزیراعظم
رہنے والے نوازشریف سے اس طرح کے غیرذمہ دارانہ بیان کی ہرگز توقع نہ تھی۔
انہوں نے ممبئی حملوں کا جس طرح ذکر کیا ہے اس سے پاکستان کے عالمی تشخص کو
شدید نقصان پہنچا ہے۔ پہلے ہی ہمارے دشمن وطن عزیز کے خلاف دراندازی اور
نان اسٹیٹ ایکٹرز کی پناہ گاہ ہونے جیسے الزامات عائد کرتے چلے آ رہے ہیں۔
خاص طور پر لشکر طیبہ اور حافظ سعید کے حوالے سے بھارت پاکستان پر بہت سے
الزامات لگا چکا ہے۔ بھارتی حکومت اور میڈیا دہشت گردی کے ہر واقعے کا ذمہ
دار بلا سوچے سمجھے پاکستان کو ٹھہرانے کا عادی ہے۔ اڑی اور پٹھانکوٹ میں
ہونے والے دہشت گرد حملوں کا الزام پاکستان پر تھوپ دیا گیا تھا۔ مگر حقائق
منظر عام پر آنے کے بعد بھارتی حکومت کو یہ الزامات واپس لینے پڑے تھے۔
ممبئی حملوں کا الزام بھی پاکستان پر لگا کرخوب پراپیگنڈہ کیا گیا۔ پاکستان
نے اس سلسلے میں تحقیقات میں تعاون کی پیشکش کی تاہم بھارت کی ہٹ دھرمی
یہاں بھی آڑے آ گئی۔ اس واقعے کے مرکزی ملزم اجمل قصاب تک پاکستان کو رسائی
نہ دی گئی۔ اس کی پھانسی سے بہت سے پہلو بے نقاب نہ ہوسکے۔ جس ڈرامائی
انداز سے یہ واقعہ رونما ہوا، وہ دنیا کے لیے ابھی تک حیرت کدہ ہے۔ اس
حوالے سے تحقیقات میں سقم اور پاکستان سے عدم تعاون سے ثابت ہو گیا ہے کہ
یہ منصوبہ بھارتی خفیہ اداروں نے محض پاکستان کو بدنام کرنے کے خود تیار
کیا تھا۔ دراصل بھارت 11/9 کے واقعے کی طرح ممبئی حملوں کو رچا کر پاکستان
کے خلاف استعمال کرنا چاہتا تھا، مگراسے اپنے اس مذموم مقصد میں ناکامی
ہوئی۔اس ہزیمت سے بچنے کے لیے بھارتی منصوبہ سازوں نے تمام ایسے کردار جو
حقیقت کا پردہ چاک کرسکتے تھے، راستے سے ہٹا دیئے ۔ انہی میں سے ایک ہیمنت
کرکرے بھی تھا۔ وہ دہشت گردی کے ایسے واقعات کی تفتیش کر رہا تھا جن میں
ہندوجنونی ملوث تھے۔ ممبئی حملوں کے دوران وہ مشکوک حالات میں ہلاک ہوگیا۔
جس پر اس وقت کے مرکزی اقلیتی امور کے وزیر اور ایک سبکدوش انسپکٹر جنرل آف
پولیس نے بہت سے سوالات اٹھائے۔ پھر اس کی بلٹ پروف جیکٹ کی گمشدگی اس بات
کو ثابت کرنے کے لیے کافی تھی کہ کچھ نادیدہ طاقتیں اصلیت کو چھپانے کی
کوشش کررہی ہیں۔یہ سلسلہ یہی نہیں رکا بلکہ اس کی پوسٹ مارٹم رپورٹ کو بھی
غائب کردیا گیا۔ جس کے بعد اس کی بیوی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی کہ یہ کوئی
سوچا سمجھا کھیل لگتا ہے۔ جس وقت ہیمنت کرکرے نہایت محتاط اور نپے تلے
انداز میں اپنا کام کر رہا تھا، ہندوتوا کے سیاسی گروہ، شیوسینا اسے تنقید
کا نشانہ بنا رہے تھے۔ حتی کہ نریندرا مودی نے اسے ملک دشمن قراردیاتھا۔
ممبئی حملوں سے جڑے اس طرح کے پراسرار معاملات کے پیش نظر دنیا بھارتی موقف
کی سچائی پر قائل نہ ہوسکی اور بہت سے عالمی تجزیہ نگاروں نے اس واقعہ کو
محض "بالی ووڈ" فلم قرار دے دیا۔ اب دس سال بعد اس واقعے پر میاں نوازشریف
کے متنازعہ بیان نے ایک مرتبہ پھر جھوٹ کے اس مردے میں جان ڈال دی ہے اور
دشمنوں کو پاکستان کے خلاف پھر سے انگلیاں اٹھانے کا موقع فراہم کردیا ہے۔
پہلے ہی پاکستان اس حوالے سے شدید دباؤ کا شکار ہے۔ بھارت کی جانب سے
پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کی جو کوششیں جاری ہیں، اس متنازعہ بیان
کے بعد انہیں تقویت ملے گی ۔ امریکہ بھارت گٹھ جوڑ بھی پاکستان کے لیے کوئی
نیک شگون نہیں۔ دونوں ممالک پاکستان کی ایسی ہی کمزوریوں کے متلاشی ہیں۔
ٹرمپ "ڈومور" سے انکار کی پاداش میں پاکستان پر اقتصادی اور دفاعی پابندیاں
عائد کرنے کا بہانہ تلاش کررہے ہیں۔ پاکستان کا نام پہلے ہی واٹف کی گرے
لسٹ میں شامل کیا جاچکا ہے۔ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی حالات اور سازشیں ہم
سے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کا تقاضا کرتے ہیں مگر افسوس ہم خود ہی اپنی
کشتی میں چھید کر کے اپنے خلاف سازشوں کی راہ ہموار کررہے ہیں۔ اس پس منظر
میں نوازشریف کے غیرذمہ دارانہ بیان نے بلاشبہ پاکستان کو سیاسی، سفارتی
اور اقتصادی لحاظ سے شدید نقصان پہنچایا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو
اپنی تمام تر وابستگیوں کو پس پشت رکھتے ہوئے اس بیان پر وضاحت دینے کی
بجائے، شدید الفاظ میں مذمت کرنی چاہئے تھی۔لیکن صورتحال اس کے برعکس ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے تمام ذاتی اور سیاسی وابستگیوں سے بالاتر
رہتے ہوئے صرف اور صرف قومی مفادات کو ترجیح دیں۔ ایسا طرزعمل اختیار کرنے
سے ہی ہم اپنے وطن کو دشمنوں کی سازشوں اور چالوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ |