وفاقی وزیر داخلہ پر قاتلانہ حملے نے پاکستان کے با شعور
عوام کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے کہ ملک میں جاری بد امنی ، عدم تحفظ اور
بڑھتی ہوئی عدم برداشت کی وجہ کیا ہے ؟ ویسے تو یہ وہی آگ ہے جو کل تک عام
آدمی کے گھر کو جلا رہی تھی اوراشرافیہ اسے بطور ہتھیار جان کر اپنے اپنے
فوائد کے لیے سرگرم تھے ۔ ایک دوسرے کیخلاف محاذ قائم کر رکھے تھے ۔یہاں تک
کہ ایک دوسرے کو بلیک میل کر رہے تھے ۔ایسے میں سیاسی اور مذہبی منافرت نے
عوام میں جذباتی گروہ پیدا کر دئیے جنھوں نے ماورائے عدالت ہتھیار اٹھا لیے
اور مستقبل میں ملکی منظر نامہ سنگین خطرات کا عندیہ دے رہا ہے کہ پہلے
وزیراعظم پر جوتا پھینکا گیا ،پھر خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی اور اب
احسن اقبا ل پر قالانہ حملہ سبھی انتہائی تشویشناک ہیں ۔ ۔۔یہی وجہ تھی کہ
ذوالفقار علی بھٹو نے عنان حکومت سنبھالنے کے بعد سب سے پہلے ختم نبوت کے
مسئلے کوحل کیا تھا جو کہ 90سال سے متنازعہ تھا اور خونریزی کروا رہا تھا۔
اس فتنے کو آج کے نا عاقبت اندیش حکمرانوں نے پھر ہوا دے دی ہے ۔اور پھر
خود ہی اس پر بیان بازی اور اشتعا ل انگیز تقاریر بھی کرتے رہے بلکہ کہیں
نادم نظر ہی نہیں آئے اور اپنی کم فہمی، ہٹ دھرمی اور ڈھٹائی کا مظاہرہ
کرتے رہے یہی وجہ ہے کہ بعض مبصرین اس حملے کو موجودہ سیاسی صورتحال سے جوڑ
رہے ہیں اور بعض احسن اقبال کی ذاتی رنجش کا تذکرہ کر رہے ہیں ۔مفروضوں اور
مشاہدوں پر ریاستیں نہیں چلتیں ۔ ہر کوئی یہ سوال پوچھ رہا ہے کہ اگر وزیر
داخلہ محفوظ نہیں تو پاکستانیوں کا تحفظ چہ معنی ؟ ویسے عرض ہے کہ عزتیں
اور جانیں پہلے بھی محفوظ نہیں ہیں بس یہ سوچیں کہ اس انتشار اور نفرتوں کے
بیوپار کی وجہ کون ہیں ؟ ابراہام لنکن نے کہا تھا ’’تم چند لوگوں کو کچھ
عرصے کے لیے بے وقوف بنا سکتے ہو لیکن تمام عرصے کے لیے بیوقوف بنانا ممکن
نہیں ہے ۔‘‘اگر ہم پاکستان کے حکومتی ادوار کا مطالعہ کریں تو جمہوریت اور
آمریت کے بیچ ہچکولے کھاتا ہوا یہ ملک سنگین بحرانوں کا شکار چلا آرہاہے
۔سیاستدان کہتے ہیں کہ آمریتی ادوار نے اسے اس مقام تک پہنچایا ہے جبکہ
تاریخ گواہ ہے کہ سیاستدانوں کے نا مناسب رویوں او ران کی ذاتی مفادات
پرستیوں کی آڑ میں ان کی مذموم منصوبہ بندیوں نے اس کے خدوخال بگاڑے اور وہ
مفادات کی جنگ میں خود کو دیوتا ثابت کرتے رہے لہذا پاکستان کی ساکھ اور
سالمیت کو قائم رکھنے کے لیے ہمیشہ افواج پاکستان کو آگے آنا پڑا ۔ویسے بھی
ہر باشعور سمجھ سکتا ہے کہ جو لوگ سیسہ پلائی دیوار کی طرح جان ہتھیلی پر
لیے ملک کی سرحدوں پر کھڑے ہیں وہ چمن کو لٹتا ہوا کب تک دیکھ سکتے ہیں ؟
جبکہ اب بھی چشم فلک نے دیکھ لیا ہے کہ جمہوریت کی آڑ میں جو لوٹ مار ،لوٹ
کھسوٹ ہوئی ہے اور میرٹ کی دھجیاں بکھری ہیں اور کسی غریب اور عام شہری کی
کوئی زندگی نہیں رہی جبکہ ملک نہ صرف لٹا ہے بلکہ مقروض ہو کر بکنے لائق ہو
رہا ہے تو ایسے میں یہی کہنا مناسب ہے کہ
لے اڑی بوئے گل رازِ چمن بیرون چمن
کیا قیامت ہے کہ خود پھول ہیں غماز چمن
سو عیبوں پر چشم پوشی کی جا سکتی ہے مگر پاکستان کے دشمنوں سے یارانہ سمجھ
سے بالاتر ہے کہ پہلے نریندر مودی ویزے کے بغیر میاں صاحب کی نواسی کی شادی
میں بلایا گیا ، پھر جندال ویزے کے بغیر مری بلایا گیا اور اب شنید ہے کہ
بھارتی صحافیوں کو بلایا جا رہا تھا جو کہ پاکستان مخالف آرٹیکلز لکھنے اور
ہرزہ سرائی میں نام رکھتے ہیں ۔ ایسے میں پاکستان کی خیر خواہی کا واویلا
اور اس دوستانے پر لیت و لعل کرنا حیران کن ہے ۔یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن
تین مرتبہ برسر اقتدار آئی اور قدرت نے تین بار میاں نواز شریف کو وزیراعظم
کا حلف اٹھانے کا موقع دیا مگر تینوں مرتبہ اداروں سے محاذ آرائی اور ذاتی
مفادات سے محبت انھیں لے ڈوبی اور وہ مدت اقتدار مکمل نہ کر سکے لیکن انھیں
ابھی بھی گمان ہے کہ وہ پاکستان کے آنے والے حا کم ہو نگے ۔ یہ حاکمیت کا
نشہ بھی عجیب ہے انسان کو عزت ،ذلت اور خوف الہی سب بھلا دیتا ہے شاید اسی
لیے بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا : ’’جب تک حاکمیت
کے تکبر کا نشہ نہیں ٹوٹے گااور حاکم خود کو قوم کا حقیقی غلام نہیں سمجھے
گا تب تک غریب مجبور اور بے حال مرے گا اور خوشحال پاکستان کا خواب کبھی
شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا ‘‘۔بد قسمتی سے خوشحال پاکستان کا خواب تو کوئی
نہیں دیکھتا البتہ سبھی دن رات کرسی اقتدار کا خواب ضرور دیکھ رہے ہیں
بمطابق بلاول بھٹو انتخابات کے قریب آتے ہی سبھی ’’برساتی مینڈک‘‘ باہر نکل
آئے ہیں اور ٹر ٹرا رہے ہیں حالانکہ اس ٹر ٹراہٹ میں ان کے والد اور وہ خود
بھی شامل ہے ۔اب کیا کیا جائے کہ بولتے وقت یہاں کوئی بھی نہیں سوچتا اور
جس کے منہ میں جو آتا ہے بولتا چلا جاتا ہے ۔ایسا لگتا ہے کچھ تھڑے باز مرد
و زن (ا ندرون شہر کے محلہ مکین )سٹیجوں اور ٹاک شوز میں بیٹھے ہیں اور
الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق ایک ہی راگ آلاپ رہے ہیں کہ حکمرانوں
اور عہدے داران پر کی جانے والی قانونی گرفت ملکی بدنامی کا باعث بن رہی ہے
حالانکہ جو کام حکومت کو کرنے چاہیے تھے وہ جناب چیف جسٹس کر رہے ہیں مگر
حکمران ہوا میں قلعے بناتے رہے اور ان پر اتراتے رہے ۔
اب جب کہ اندھوں کی طرح اپنوں کو ہی ریوڑیاں بانٹی جا رہی ہیں تو اﷲ کی
لاٹھی تو بے آواز ہے او رایسے میں اﷲ کمزور کا مددگار ہے ۔ حکومت نواز
میڈیا کہتا ہے کہ بیرونی دنیا میں موجودہ حکومت کی بہت عزت ہے اور وہ سارے
معاملات انھی کے ساتھ کرنا چاہتے ہیں اور موجودہ حالات میں بہت پریشان ہیں
تو جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا اپنے ملک میں تو اپنی ہی پارٹی کے لوگ
ایک ایک کر کے چھوڑ کر جا رہے ہیں اور چوہدری نثار نے پھر کہہ دیا ہے کہ
میں نے چار برساتیں زیادہ دیکھی ہیں کہ میری عمر اور تجربہ زیادہ ہے میاں
صاحب خوشامدیوں میں پھنس چکے ہیں اور اگر انھوں نے ان درباریوں اور
خوشامدیوں سے جان نہ چھڑائی تو ۔۔۔۔ تو کے آگے وہ مصلحت کا دامن تھام لیتے
ہیں لیکن واضح ہے کہ ن لیگ ش لیگ ہو چکی ہے اور یہ تبھی قائم رہ سکتی ہے
اگر یہ ش لیگ ہو جائے ۔اسی لیے ن لیگی ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں وہ آصف علی
زرداری اور عمران خان کی طرف مبینہ ہاتھ بڑھا چکے ہیں اور ایم کیو ایم کو
جگا چکے ہیں ۔ باقی رہی مذہبی جماعتیں ان کا نہ پہلے کوئی نظریہ یا ایجنڈا
تھا اور نہ ہی اب ہے اس لیے انھوں نے حالیہ سیاسی حالات کو سازش قرار دیکر
آپس میں ہاتھ ملا لیا ہے کیونکہ وہ اسلام کی بات کرتے ہیں اور مفادات کی
سیاست کرتے ہیں ۔
ان حالات میں میاں نواز شریف نے ہمیشہ کی طرح ’’خلائی مخلوق‘‘ کا ایک نیا
شوشہ چھوڑا ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ میرا مقابلہ نہ عمران خان سے ہے اور نہ ہی
آصف علی زرداری سے ہے بلکہ میرا مقابلہ خلائی مخلوق سے ہے جوکہ نظر نہیں
آتی ۔۔بلاشبہ خلائی مخلوق کو میاں صاحب سے بہتر کوئی نہیں جانتا ۔،پھر بھی
وہ پرعزم ہیں کہ وہ خلائی مخلوق کو شکست دیکرسب کچھ ٹھیک کر دیں گے جس میں
ججوں کی تعیناتی کا طریقہ کار بدلا جائے گا ، نیب کو غیر مؤثر کرنے کی بات
وزیراعظم سے چل رہی ہے سپریم جوڈیشل کونسل کے طریقہ کار کو بھی بدلیں گے
اور مضبوط پارلیمینٹ بنائیں گے کہ الیکشن میں کامیابی کے بعد نیا نظام
لائیں گے ۔انوشے رحمان تو پانامہ کیس کے آغاز سے ہی آرٹیکل 62 اور 63 میں
تبدیلی کا عندیہ دے چکی تھیں الغرض ایسا نظام جس میں سیاستدان ہر قسم کے
قانون سے بالاتر ہوگا اور سیاہ و سفید کا مالک ہو۔دنیا جانتی ہے کہ ملک و
ملت سے مخلص لیڈران ملک و ملت کے نفاذ میں قوانین کو بہتر بناتے ہیں تاکہ
ملک و قوم ترقی و خوشحالی کی طرف سفر کرسکے اور یہ کہنے کو یہی کہتے دکھائی
دیتے ہیں کہ ترقی و خوشحالی کے سفر میں رخنہ ڈالنے والوں کا عوام محاسبہ
کریں گے مگر ان سب نے ہمیشہ ایسے قوانین بنائے ہیں اور ایسے کام کئے ہیں جن
سے ان کے حالات اور مستقبل بہترین ہو جائے اور اب تو تقریباً ہر کوئی گناہ
گار ثابت ہو رہا ہے ۔آگے آگے دیکھیے ! ہوتا ہے کیا ! |