تھائی لینڈ کے کھانوں میں کاکروچ اورچارسدہ کے موٹے چاول

تھائی لینڈ کے سفر میں دو مختلف شہروں کے سیر کا موقع ملا اس میں ایک بنکاک جبکہ دوسرا شہر چنگ مائی ، جہاں پر مختلف لوگوں کیساتھ اکیلے ملاقات کی ساتھیوں کے ہمراہ بازاروں کا چکر لگایا سیر کی اپنے دورے میں مختلف فیکٹریاں بھی دیکھیں ان لوگوں کی سب سے بہترین بات یہ تھی کہ تھائی لینڈ کے لوگ اپنی ثقافت کیساتھ محبت کرنے والے لوگ ہیں خواہ وہ انکے کپڑوں کا ہے مقامی رواج ہے شہر میں رہنے والے تھائی لوگ ہیں یا کسی گاؤں میں رہائش پذیر تھائی شہری ، ہر کوئی اپنے علاقائی کلچر کا خیال رکھتا ہے-

تھائی ڈانس سے لیکر تھائی لوگو ں کی زندگی کے دیگر پہلو میں یہ لوگ اپنی ثقافت سے محبت کرتے ہیں بلکہ اس کی حفاظت بھی کرتے ہیں اور اسی طرح حفاظت کرتے ہیں کہ اگر باہر سے کوئی بھی شخص آجائے یعنی وہ غیر ملکی بھی ہو تو ان کی ثقافت کا خیال کرنے پر مجبور ہوتے ہیں.اگر آپ تھائی لینڈ میں کہیں پر ہوں اور کسی چیز یا جگہ کے بارے میں معلومات لینا چاہتے ہیں اگر کسی مقامی شہری کو انگریزی زبان کی سمجھ آتی ہیں تو وہ لازما آپ کو ایڈریس سمجھائے گا بلکہ میں نے تو بعض ایسے بھی دیکھے ہیں کہ وہ متعلقہ جگہ پر آپکو لیکر ہی جائیں گے اگر کسی کو انگریزی زبان سمجھ نہیں آتی ہے تو اشاروں کی بین الاقوامی زبان میں سمجھانے کی کوشش کریگا اگر معلومات فراہم کرنے والے کے معلومات بھی نہ ہوں اور انگریزی سے بھی خیر خیریت ہو تو وہ کسی اور شخص کے حوالے کرکے آپ کو بتا دے گا کہ اس کے پاس اس بارے میں معلومات ہیں اور متعلقہ شخص کو بتا دیتا ہے کہ اس کو اس جگہ کی معلومات فراہم کردینا جبکہ ہمارے ہاں اس طرح کا رواج اب کم ہوتا جارہا ہے-

ہمارے ایک جاننے والے جواب ماشاء اللہ سینئر ٹیچر ہیں کسی زبان میں ٹیچر بھی تھے اور میڈیکل ریپس کی ڈیوٹی بھی کرتے تھے چونکہ جس سکول میں وہ ٹیچر تھے اس کے پرنسپل سے ان کا تعلق تھا اور فری میڈی ادویات ملتی تھی اس لئے دونوں کام چلتے تھے.. خیر یہ سال 2000 ء سے پہلے کا واقعہ ہے ایک دفعہ میڈیکل ریپس کے حوالے سے ایک سیمینار میں شرکت کیلئے لاہور گئے تھے واپس آگئے تو ملاقات ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا کہ صاحب کیسا رہا سیمینار تو اس نے منہ بنا کر کہہ دیا کہ ایک شخص سے لاہور میں ہوٹل کے بارے میں معلومات لینی چاہی تو اس نے غلط جگہ بھیج دیا اور اضافی خرچہ بھی کرنا پڑا. ساتھ میں اس نے لاہور سے تعلق رکھنے والے اس شخص کی وہ گالیاں دی کہ الامان الاحفیظ.. میں نے بھی افسوس کا اظہار کیا.اور بات آئی گئی..کچھ عرصہ بعد وہی ٹیچر ایک مرتبہ پھر ملا تو بڑا خوش تھا میں نے اس سے سوال کیا کہ خیریت ہے کیوں خوش ہو تو اس نے جواب دیا کہ میں نے اپنا بدلہ لے لیا جب میں نے اس سے سوال کیا کہ کس سے بدلہ لیا اور کہاں پر تواس نے بتا دیا کہ ہشتنگری چوک میں ایک شخص جس کا تعلق لاہور سے تھا مجھ سے ملا اور حیات آباد جانے کیلئے راستہ پوچھا تو بقول اس ٹیچر کے میں نے لاہور والے صاحب کو مخالف سڑک پر جانیوالی گاڑی میں بٹھا دیا اس کی یہ بات سن کر میں افسوس ہی کرتا رہ گیا یہ ہماری نفسیات ہے لوگوں کیساتھ زیادتی کر جاتے ہیں اور پھر اسے فخریہ انداز میں بیان بھی کرتے ہیں-

خیر اپنی بات کی طرف آتے ہیں تھائی لینڈ میں آپ خریداری کرو تو دکاندار دونوں ہاتھ ملا کر سرجھکا کر شکریہ ادا کرتے ہیں اور یہ ہر کوئی کرتا ہے کہ خواہ مرد ہو یا خاتون یا ..درمیانے والے. میں نے خواجہ سراء تھائی لینڈ میں بہت زیادہ دکانوں میں دیکھے اور یہ اتنی معصومیت سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ دل کرتا ہے کہ بندہ خریداری کرتا ہی رہے اور یہ لوگ اسی طرح شکریہ ادا کرتے رہ جائے شائد یہی وجہ ہے کہ تھائی لینڈ میں آنیوالے سیاحوں کی تعداد مسلسل بڑھ رہی ہیں اور اس سے حکومت کو ٹھیک ٹھاک آمدنی مل رہی ہیں-دوسری ان کی ایک اچھی عادت یہ بھی ہے کہ درخت اور پودے اتنے لگائے ہیں کہ سمجھ نہیں آتا کہ اتنے درختوں کو پانی کیسے فراہم کرتے ہیں اور لگتا ایسا ہے جیسے ان لوگوں کا کام صرف پودے اور درخت لگانا ہی ہے پھولوں میں خوشبو ہو یا نہ ہو لیکن سڑک کنارے گملوں میں ضرور پھول نظر آئیں گے جو نظروں کو بہت بھلے لگتے ہیں -

تھائی لینڈ کے مقامی لوگوں کے خوراک عجیب طرح کے ہیں کچھ لوگ سبزیوں کے شوقین ہوتے ہیں میں نے بازار میں ایسے لوگ بھی دیکھے جو بازاروں میں کیڑے مکوڑے کھاتے ہیں تیل میں فرائی کرتے ہوئے کاکروچ بھی ہم نے تھائی لینڈ کے دورے میں دیکھے مختلف اقسام کے لاروے بھی دیکھے جسے سڑک کنارے لوگ تیل میں فرائی کرتے ہیں اور پھر کھاتے ہیں. جس طرح ہمارے ہاں لوگ پکوڑے بیچتے ہیں اسی طرح ان کے بھی دکان ہیں شائد ان کیلئے یہ پکوڑے ہی ہونگے تربیت کے دوران ہمیں ایک بازار میں جانے کا موقع ملا جس گاڑی میں ہم لوگ گئے تھے وہ سائیڈ پر کھڑی کرکے بازار میں داخل ہوگئے ہمیں پیدل لے جایا گیا اتنی رش تھی کہ سمجھ نہیں آرہی کہ یہ لوگ کیسے چل رہے ہیں لیکن مزے کی بات کوئی کسی کیساتھ جھگڑا نہیں ، آرام سے خریداری اور کھانے پینے کا سامان ، اور مزے کی بات تو یہ ہے کہ لکڑی کے دو تیلیوں جسے سٹک کہا جاتا ہے ہم نے چاول کھاتے مقامی لوگوں کو دیکھا ہے. جس بازار میں کاکروچ کو سٹک کے ذریعے کھاتے دیکھا تو کلیجہ منہ کو آگیا.

تھائی لینڈ میں تربیت لینے والے صحافیوں، پروڈیوسرز اور این جی اوز کے لوگوں کیلئے اایک جگہ کھانے کا پروگرام تھا میں نے اس وقت اپنے لئے مچھلی کا آرڈر دیا کیونکہ میں کھانے کے معاملے میں تجربوں کا عادی نہیں چونکہ میں تربیت لینے والوں میں واحد مسلمان تھا باقی بھارت ، امریکہ ، برطانیہ ، نیوزی لینڈی ، آسٹریلیا اور نیدر لینڈ سے تعلق رکھنے والے افراد تھے اس لئے انہوں نے دوران تربیت کھانے کے معاملے میں اپنے اوپر صحیح تجربے کئے جبکہ میں ذہنی تناؤ کا شکار رہا پتہ نہیں وہ کس طرح سبزیوں کا سوپ پیتے تھے اور وہ بھی بغیر نمک اور مرچ کے ، ایک مرتبہ میں نے بھی کوشش کی لیکن عجیب سا ذائقہ تھانہ کھٹا نہ میٹھا یعنی طرح کے لوگ تھے اس طرح ان کے کھانے بھی تھے یعنی دل کھانے کو دیکھ کر اور کھا کر خوش بھی نہیں ہوتا اور ادا س بھی نہیں ہوتا .لیکن جس طرح مقامی لوگ مزے لیکر کھاتے تھے ہمیں تو حیرانگی ہوتی تھی یقین ہوگیا کہ ان لوگوں نے آموں کا اچار ، بھینڈی ، ساگ ، جوار کی روٹی نہیں کھائی نہ ہی لسی پی اور تو اور امی کی ہاتھ کی بنائی ہوئی ٹماٹر کی چٹنی ، کتنے بدقسمت ہے یہ لوگ بھی ، میں یہ بھی سوچ رہا تھا کہ انہیں کھانے کا بھی پتہ نہیں.

زندگی میں پہلی مرتبہ کوکونٹ میں پکائے ہوئے چاول کھائے کچھ عجیب سا ذائقہ تھا اللہ کا شکر ادا کیاکہ پاکستان میں پیدا کیا اگر تھائی لینڈ میں پیدا ہوتا تو یہ بدذائقہ کھانے ہی کھاتا. یہاں پر آکر چارسدہ کے مشہور موٹے چاول جسے ہمارے ہاں "غٹے ورژے" کہا جاتا ہے کی یاد بہت آئی جس کسی نے بھی چارسدہ کے موٹے چاول کھائے ہو اسے دنیا جہان کا کھانا دو لیکن وہ لازما موٹے چاول کی ڈیمانڈ ضرور کرے گا.
)سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں لکھے گئے سفر نامے کی تیرھویں قسط(
 

Musarrat Ullah Jan
About the Author: Musarrat Ullah Jan Read More Articles by Musarrat Ullah Jan: 636 Articles with 498316 views 47 year old working journalist from peshawar , first SAARC scholar of kp , attached with National & international media. as photojournalist , writer ,.. View More