داستان مسرت.. جس میں مسرت صرف نام کو باقی ہے.
بنکاک کے گیسٹ ہاؤس میں رہائش کا تیسرا دن تھا صبح ناشتے بھی بڑا عذاب تھا
.ہم لوگ تو چائے پینے کے عادی ہیں اور اس میں اتنی دودھ ڈالتے ہیں کہ چائے
کا ذائقہ دودھ کے ذائقے میں ڈوب جاتا ہے لیکن بنکاک میں چائے تو ملتی ہے
لیکن دودھ انتہائی کم تھا. ناشتے میں جو چائے ملی اتنی تلخ تھی مجھے تو
ایسا لگا جیسے کہ میں کھانسی کی دوائی کھا رہا ہوں .بس پشتو زبان کے بقول
"غڑپ "مار کرپی لی اسی دوران ایک خاتون گیسٹ ہاؤس میں داخل ہوگئی اور مینجر
سے میرا پوچھا کہ مسرت اللہ جان کہاں پر ہے اس نے میری طرف اشارہ کیا توو ہ
لڑکی میری طرف آکر بیٹھ گئی اور اپنا تعارف کراتے ہوئے کہاکہ میں ڈریم ہوں.
مجھے عجیب سا لگا کہ اگر یہ ڈریم ہے تو پھر میں ناشتہ کیسے کررہا ہوں.
حیرانگی سے اس سے سوال کیا کہ ڈریم. تو ہنس کر اس نے جواب دیا کہ میرا نام
ڈریم ہے اور میں نے فون پر آپ کا انٹرویو کیا تھا. اسے دیکھ کر میں حیران
ہوا کیونکہ اس کی آواز سے لگ رہا تھا کہ بوڑھی عورت ہوگی لیکن یہاں پر دیکھ
کر پتہ چلا کہ چھبیس سالہ خاتون ہے اور امریکہ سے پڑھ کر آئی ہے اور یہاں
پرجس ادارے نے ہمیں منتخب کیا تھا اس میں کام کرتی تھی .بنیادی طور پر
تھائی لینڈ کی رہائشی تھی لیکن تعلیم امریکہ میں حاصل کرنے کے بعد اس کا
لہجہ امریکن جیسا تھا.اس نے کہہ دیا کہ اپنا بیگ نکالو گیسٹ ہاؤس والوں کو
پیمنٹ کرو اور ہمارے ساتھ چلو. میں نے ادائیگی کردی اور پھر گیسٹ ہاؤس کے
باہر کھڑے فلائنگ کوچ میں بیٹھ گیا.
فلائنگ کوچ میں بیٹھنے کے بعد پتہ چلاکہ ایک امریکی لڑکا جسکا تعلق مشی گن
سے ہے بھی اس ادارے میں ہے اور ہمارے ساتھ سفر کررہا ہے ان لوگوں کے بقول
ہمیں شام کو نکلنا ہے اس لئے آج بنکاک کے مختلف ٹمپل کے چکر لگائیں گے اور
شہر کے بیشتر علاقے آپ کو دکھائیں گے . وہ لڑکی ہمیں ایک ٹمپل ) بدھ لوگوں
کی عبادت گاہ( لے گئی نام تو مجھے اس وقت یاد نہیں لیکن اس میں بدھا کے
زندگی کے مختلف پوز تھے یہاں پر آنیوالے افراد سے ادائیگی لی جاتی تھی لیکن
مزے کی بات یہ تھی کہ جو غیر ملکی تھے وہ ادائیگی کرکے جاتے تھے جبکہ جو
لوکل یعنی مقامی لوگ تھے جن میں زیادہ تر کالجز اور یونیورسٹی کے طلباء و
طالبات تھے وہ مفت میں یہاں پر جاتے تھے . ایک اور چیز جو یہاں پر تھی کہ
چندے کے نام پر بھی تھائی کرنسی جو کہ اس وقت سکوں میں تھی کو ادائیگی کرنی
پڑتی ہے وہ بھی سیاحوں کی مرضی ہے کہ جتنے سکے ڈال دیں ان پر چندہ دینے پر
کوئی پابندی نہیں جس کا بنیادی مقصد بدھا کے مجسموں کی دیکھ بھال کے
اخراجات کور کرنا تھے .یہا ں پر بدھا سے عقیدت کے عجیب عجیب نمونے دیکھنے
کو ملے یہی وجہ ہے کہ اسے لینڈ آف ونڈر یعنی عجائبات کی زمین بھی کہا جاتا
ہے .
ایک دوسرے ٹمپل میں جانے کا اتفاق ہواجسے wat pho کانام دیا جاتا تھا یہاں
پر عجیب سی دنیا آباد تھی ایک ہی قلعہ میں نو مختلف جگہیں بنائی گئی تھی
اور سارے کے سارے بدھ مت کے تاریخی مقامات تھے wat یہ لوگ ٹمپل کو بولتے
تھے جبکہ pao اسی سڑک کا نام تھا جہاں پر یہ ٹمپل تھا اسی سڑک کنارے خوراک
کے مختلف اشیاء جن میں فروٹ ، کوپرہ اور دیگر اشیاء ، مقامی طور پر بننے
والی ٹوپی ، شرٹس ، زندگی میں پہلی مرتبہ یہاں پر میں نے جینز کے کپڑوں سے
بنے والے جوتے دیکھے جو کہ اب ہمارے اب عام ہے تاہم سال 2012 میں یہ وہاں
عام تھے. ہر وقت گہما گہمی ، رش ، کسی کو دوسرے سے کوئی لینا دینا نہیں ،
جھگڑا نہیں ، صفائی کی صورتحال بہتر ، نہ کوئی دھکا، نہ کسی لڑکی کو دیکھ
کر اشارہ کرنا ، یاجھگڑے کرنا ، ایسی جگہ جہاں پر جا کر لگتا ہی نہیں کہ یہ
بھی دنیا کا حصہ ہے. ایک ہمارے ہاں کا بازار کا تصور ہے ، گندگی ، رش، ایک
دوسرے کو دھکے دینا ، خواتین کیساتھ بدتمیزی یا پھر ایسے گھور گھور کر
دیکھنا کہ جیسے خلائی مخلوق ہو. ٹمپل سے نکلنے کے بعد سڑک کنارے توپ دیکھی،
میں نے اپنے ساتھی خاتون ڈریم سے اس متعلق سوال کیا تو مجھے بتایا گیا کہ
یہ تھائی لینڈ کے منسٹری آف ڈیفنس کی بلڈنگ ہے ..اس کا جواب سن کردل سے آہ
نکلی اور "راشے کہ ئے گورے" آجاؤ اگر دیکھنا ہے ، جا کر کھڑے ہو جاؤ ،
تصاویر لو ، بیٹھ جاؤ ، کسی کو کوئی اعتراض ہی نہیں.ایک ہم ہیں.بدقسمت شہری
کہ اپنے شہر میں عام سی سڑک پر ،منسٹری آف ڈیفنس کی بلڈنگ تو دور کی بات ہے
، سیکورٹی اہلکار ایسے کھڑے کرتے ہیں جیسے ہم لوگ ہی دہشت گرد ہوں ، اور
اگر کہیں پر وزیراعلی ہاؤس ، گورنر ہاؤس، سیکرٹریٹ یا پولیس کے اعلی افسران
کے دفاتر میں جانا ہو تو "راشہ ماما زوئے دے لیونئے دے" یعنی پھر توجو سلوک
ہوتا ہے.اصل میں قصور ہمارا اپنا ہے ہم انہیں ملازم نہیں سمجھتے یہ لوگ
ہمیں " کمی کمین غلام ابن غلام عوام "سمجھتے ہیں اس لئے ہماری ایسی ہی عزت
افزائی کی جاتی ہیں.
امریکی لڑکا جس کا نام نتن تھااور تھائی لڑکی ڈریم نے نہ صرف میری تصاویر
لی بلکہ اپنی تصاویر بھی یہاں پر بنائی اسی رو ڈ پر آگے جا کر تھائی لینڈ
کے بادشاہ کا محل دیکھا یہ پرانا محل تھا جہاں پر آکر لگا کہ جیسے ساری
دنیا کے لوگ اس محل کو دیکھنے کیلئے آئے تھے مقامی لوگوں کیلئے جانے کیلئے
الگ راستے تھے جبکہ غیر ملکی افراد کیلئے الگ راستے تھے تاہم وہی ادائیگی
کا مسئلہ تھا کہ مقامی لوگ مفت میں جاتے تھے جبکہ ہم چونکہ غیر ملکی تھے اس
لئے ادائیگی کرکے اندر جانے کا موقع ملا.یہاں پر ایسی خواتین دیکھی جنہوں
نے باقاعدہ پردہ کیا تھااور ایسے انگریز خواتین بھی دیکھی جو چڈی پہن کر
آئی تھی لیکن کسی کو پروا ہی نہیں کہ کون کیا کررہا ہے کس کیساتھ ہے بس محل
کی سیر کریں محل کی سیر کے بعد ڈریم نے سڑک کنارے مساج گھر دکھائے جہاں پر
لڑکیاں بیٹھی تھیں ہمارے ہاں جس طرح ہیر ڈریسر کی دکانیں ہوتی ہیں اس طرح
وہاں پر مساج گھر ہوتے ہیں تھائی لینڈ میں مساج ایک عام سی بات ہے ہمارے
ہاں اسے مالش کہتے ہیں ڈریم نے آفر کی کہ مساج گھر چلے جاؤ ادائیگی ہم
کردینگے. میں نے جواب دیا کہ زندگی بھر مالش نہیں کی کیونکہ ہمارے ہاں مالش
کا تصور ہی نہیں . البتہ مالش کے حوالے سے پشاورکے مخصوص پارک ذہن میں آگئے
. جس کے بارے میں بہت ساری باتیں لکھتے ہوئے بھی شرم آتی ہے اس لئے معذرت
کی کہ ہم مالش کے شوقین نہیں.
میری عدم دلچسپی دیکھ کر ڈریم اور نتن نامی امریکن نے مجھے کہا کہ ایم بی
کے چلتے ہیں مجھے تو نہیں پتہ کہ یہ ایم بی کے کیا چیز ہے انہوں نے فلائنگ
کوچ جو ہمارے لئے ہی بک تھی میں ہمیں بٹھایا اور پھر ایم بی کے سنٹر کی طرف
روانہ ہوگئے راستے میں بہت سارے بازار دیکھے جس طرح ہمارے ہاں ہر طرح کے
دکانیں ہوتی ہیں اس طرح کے اپنے مارکیٹ ہیں ، لیکن ایک بات جو ہمارے ہاں
نہیں البتہ وہاں پر ہیں کہ کوئی شور نہیں جھگڑا نہیں ، ہر بندہ اپنے کام
میں مصروف ہے ، فارغ میں نے کسی کو نہیں دیکھا فلائنگ کوچ کے شیشوں سے
لوگوں کو دیکھنے کا منظرکچھ عجیب سا ہوتا ہے.ایک جگہ گاڑی کھڑی ہوئی تو
کتوں کے خوراک کی دکان نظر آئی جہا ں پرلوگ کتے ٹہلانے بھی لائے تھے.ایک
بات جو یہا ں پر کرنا ضروری ہے ہمارے ہاں جو لوگ کتے رکھتے ہیں ان کیلئے
الگ سے کھانا بنانے یا لینے کا رواج نہیں بس جو مل گیا اسے کتے کے آگے ڈال
دیتے ہیں .
اور مزے کی بات کہ تھائی لینڈ کے کتے بھی اتنے شریف ہیں کہ کبھی کسی کو
دیکھ کر آواز ہی نکال دیں ، یعنی پتہ ہی نہیں چلتا کیونکہ کھانے کیلئے ان
کی اپنی چیزیں ہوتی ہیں ، پھر یقیناًیہی وجہ ہے کہ یہ کتے بھی انجان لوگوں
کو دیکھ کر آواز تک نہیں نکالتے. بس خاموشی سے دیکھتے رہتے ہیں . ایک ہماری
طرف کے کتے ہیں یعنی کتے ہی ہیں جان نہ پہچان ، دیکھ کر آواز نکال دیتے ہیں
اور کچھ تو ایسی ڈراؤنی آواز نکال دیتے ہیں کہ لگتا ہے کہ ڈر کے مارے پیشاب
نکل جائیگا. کبھی کبھار تو یہ پاکستانی کتے اتنے تیزی سے لپکتے اور دوڑتے
ہیں جیسے ہم نے ان کے آباؤ اجداد میں کسی کو قتل کیا ہو.خیر چھوڑیں کتوں کی
باتیں کتے ہی جانیں.
ایم بی کے سنٹر جا کر پتہ چلا کہ یہ تو بڑی مارکیٹ ہیں مجھے تو یا د نہیں
کہ یہاں پر کتنی دکانیں ہیں کیونکہ ایک کے بعد ایک منزل سامنے آتی ہیں ہر
فلور پر ایسا لگتا ہے کہ جیسے خوشبوہیں ، طرح طرح کے لوگ ، طرح طرح ے کھانے
، ہرقسم کی اشیاء ،، ہر جگہ پر اپنی دنیا آباد ہے ، چپل سے لیکر جیولری ،
موبائل کیمرے ، الغرض زندگی کی ہر چیز کیلئے الگ الگ فلور ہیں اور یہاں پر
آنیوالے افراد بھی ہر طرح کے لوگ شامل ہیں. خوشبوؤں کی دنیا ہے اس سنٹر کے
آخری فلور پر بین الاقوامی فلور ہے جو کہ کھانے پینے سے متعلق ہے تقریبا
ایک بجے ہم اس سنٹر میں داخل ہوگئے تھے اور اتنے چکر لگائے کہ ایسے لگ رہا
تھا کہ یہ ختم کب ہوگا تین گھنٹے تک ہم یہا ں پر مسلسل آوارہ گردی کرتے رہے
لیکن دل نہیں بھرا اور نہ ہی ہم نے ہر چیز دیکھی بس سرسری طور پر ہر
چیزدیکھی .
ایم بی کے سنٹر کے آخری فلور پر بین الاقوامی خوراک سنٹر پر کھانے پینے
کیلئے الگ کوپن ملتے ہیں شہری کوپن لیتے ہیں اور پھر یہی کوپن متعلقہ
دکانداروں کو دیتے ہیں اور اپنی پسند کی اشیاء کھاتے ہیں. ایشینیں ، عربین
، چائینز ، انگلش، اٹالین الغرض ہر طرح کے کھانے یہاں پرملتے ہیں.کھانے
پکانے والے بھی الگ اور دینے والے بھی الگ ، سرخ و سفید مگر چپٹی ناک والی
لڑکیاں یہاں پر زیادہ ہیں . اپنی مدد آپ کے تحت چیزیں ہم نے بھی لینی چاہی
لیکن اس سے قبل میں نے نتن اور ڈریم نامی لڑکی کو کہا کہ مجھے ایسی چیزیں
کھانی ہیں جو حرام نہ ہو. وہ دونوں مجھے بھارت کے سٹال پر لے گئے یہاں پر
سفید چاول کیلے پر ڈال کر لوگوں کو کھاتے دیکھا. میں نے پوچھا کہ پاکستان
کا سٹال کہاں پر ہے کہ چلو اپنے بندوں سے مل تو لیں گے. دیار غیر میں
پاکستانی کوئی ملے تو کیا ہی بات ہے. لیکن ہائے افسوس.. یہاں آکر پتہ چلا
کہ پاکستان کا سٹال ایم بی کے سٹال میں ہے ہی نہیں . بہت دل دکھا کہ یہ صرف
پاکستان کی حکومت کا کام نہیں .کتنے ہمارے ہاں ایسے سرمایہ کار ہیں جن کے
پاس پیسہ بہت ہیں کھانے پینے کے سٹال اور مقامی ثقافت کی اشیاء ہم اس سنٹر
میں بنا کر کس طرح اپنے ملک کو سپورٹ کرسکتے ہیں . اگر یہ ہو جاتا تو ہماری
نمائندگی بھی ہو جاتی . ہمارے ہاں لوگوں کے پاس اربوں ، کھربوں کی
جائیدادیں لیکن اس بارے میں شائد سوچنا بھی نہیں چاہتے.مجبورا جا کر بھارت
کے سٹال سے بریانی ، دو سموسے اور چکن پیس خریدا جس کی ادائیگی اس وقت 80
بھات میں کی . اس کھانے سے میرا دل تو نہیں بھرا لیکن مجبوری تھی .جس کے
بعد ایم بی اے سنٹر سے نکل آئے اور شہر میں مٹر گشتی دوبارہ شروع کردی
(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں
لکھے گئے سفر نامے کی چودھویں قسط(
|