تھائی لینڈ کے لوگ بھی عجیب طرح کی مخلوق ہیں انہیں دیکھ
کر بندہ حیران رہ جاتا ہے میں نے ذاتی طور پر کہیں نہیں دیکھا کہ کوئی کسی
سے جھگڑا کررہا ہے نہ صرف مقامی بلکہ غیر ملکیوں سے بھی کوئی جھگڑا کرتے
ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اگر کسی کو غصہ بھی آئے تو آرام سے بات کرتے ہیں .
میرا اپنا تجربہ تو یہی ہے تقریبا اکیس دن میں کہیں پر کوئی جھگڑا ، لڑائی
کسی کو کرتے نہیں دیکھا. مزے کی بات تو یہ ہے کہ چھوٹے سے قد کی لڑکیاں ہیں
پتہ ہی نہیں چلتا کہ یہ لڑکی شادی شدہ ہے یا غیر شادی شدہ ،اپنی جسامت کے
حوالے سے زیادہ فکر کرتے ہیں شائد یہی وجہ ہے کہ کسی موٹی تھائی خاتون کو
ہم نے نہیں دیکھا . ایک لڑکی کو دیکھاچہرے پر معصومیت تھی لگتا ہی نہیں تھا
کہ یہ شادی شدہ ہے لیکن جب اس کے ساتھ چلتے ہوئے بچوں نے ماما کہہ کر پکارا
تو حیرانی ہوئی کہ یہ بھی مما ہی ہے قد سے بھی چھوٹی چھوٹی ،یہی صورتحال
مردوں کی بھی ہے. کسی کی آنکھیں بڑی تو کسی کی چہرہ گول لیکن چپٹی ناک سب
کی یکساں ہیں.لڑکے کانوں میں بالیاں پہن کر پھرتے ہیں اور بال انتہائی
چھوٹے صرف درمیان میں مرغی کی کلغی کی طرح کھڑے نظر آتے ہیں جبکہ کچھ لڑکوں
کے بال تو ایسے ہیں جیسے کوئی کھیتی. سمجھ ہی نہیں آتا کہ اس کی صفائی وہ
کس طرح کرتے ہونگے.
آپ بنکاک کے کسی بھی چوک میں جائیں لازمی آپ آپ کو وہاں کی بادشاہ اور اس
کی ملکہ کی تصویر نظر آئیگی اور اتنی قد آدم کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے کہ
اس کو یہاں پر لگانے کی ضرورت ہی کیا ہے لیکن یہ بھی تھائی لینڈ کے لوگوں
کا اپنے بادشاہ سے محبت کا انداز ہے اور اس محبت کا اندازہ اس وقت کیا
جاسکتا ہے کہ جب کوئی شخص بادشاہ یا ملکہ کے بارے میں غلط بات کرے یا کمنٹس
پاس کرے تو پھر مقامی لوگوں کا رویہ تبدیل ہو جاتا ہے لیکن اگر آپ ٹیکسی
میں بیٹھے ہیں اور بادشاہ کی تعریف کریں انتظامات کی تعریف کریں تولازما آپ
سے مطلوبہ رقم سے کم رقم لی جائیگی اور اس کا تجربہ بھی مجھے دو تین جگہوں
پر ہوا ، اس بارے میں ٹریننگ حاصل کرنے والے افراد نے مجھے خصوصی طور پر
آگاہ کیا تھا . جس کا میں نے فائدہ اٹھایا.
تھائی لینڈ ایسا ملک ہے جس کی کرنسی بھی ہمارے پاکستانی کرنسی کے مقابلے
میں بہت بہتر ہیں یعنی ہمارے پاکستان کے دس ہزار روپے اور ان کے چار ہزار
روپے . یہاں پر ہرایک شخص اپنے غم میں مصروف عمل ہے مہمان داری بھی ایک حد
تک ہے یعنی اگر آپ کوئی چیز لیتے ہیں تو خریداری کی قیمت خود ادا کرنا
پڑیگی یا پھر کوئی چیز لیتے ہیں تو پھر اس کی قیمت بھی خود ہی ادا کرنی
پڑتی ہیں ہمارے ہاں کا دستور ان میں نہیں کہ کہیں پر خریداری کرنی ہو اور
ساتھ میں مہمان ہو تو یہ کہتے ہیں کہ نہیں نہیں پیسے مت لو یہ ہمارا مہمان
ہے . اسی عمل پر ہمارے خیبر پختونخوا میں جھگڑے بھی ہوتے دیکھے کہ اس
دکاندار نے میرے مہمان سے پیسے لئے لیکن تھائی لینڈ کے لوگوں میں یہ چیز ہم
نے نہیں دیکھی.
تھائی لینڈ میں تربیت فراہم کرنے والے جس ادارے نے ہمیں طلب کیا تھا چونکہ
ٹکٹ کا مسئلہ تھا اسلئے میں تین دن پہلے چلا گیا تھا تو انہوں نے اسی وقت
کہا تھا کہ ہم آپ کے اخراجات برداشت نہیں کرینگے نہ ہی آپ کہیں پر جاتے ہیں
تو یہ آپ کی اپنی مرضی اور اخراجات ہونگے ہاں اتنا تعاون آپ کیساتھ کرسکتے
ہیں کہ ہم اپنا نمائندہ بھیج دینگے وہ آپ کو سستی جگہ پر کمرہ لیکر دے دیگا
.تربیت شروع ہونے کے بعد ہی انہوں نے اخراجات شروع کردئیے .یہ بھی میرے لئے
ایک اعزاز ہے کہ بنکاک میں صرف ایک خاتون جس کا تعلق فرانس سے تھا لینی نے
کافی پلائی تھی جس کے بعد میں نے سوچا تھا کہ اگلی دفعہ میں اس پر خرچہ
کرلونگا کم از کم اس کا احسان تو نہیں ہوگا لیکن دوسرے دن وہ خود چلی گئی
سو اس کا احسان ابھی تک مجھ پر ہے.
تھائی لینڈ میں سب سے زیادہ عزت بادشاہ اور مونک کی ہوتی ہیں مونک ان
کامذہبی لیڈر ہوتا ہے جیسے کہ ہمارے ہاں مولانا ہوتا ہے ، ان کا مونک ہوتا
ہے .اپنے دورے کے دوران تھائی لینڈ میں ایسے مونک بھی دیکھے جن کی علمیت سے
میں کافی مرعوب ہوا ان کے پاس بیٹھ کر پتہ نہیں چلتا کہ یہ ان کا مذہبی
لیڈر ہے ، سیاست ، مذہب ، جنگ ، امن ، محبت ، تاریخ ، ہر موضوع پر اتنی
معلومات ہوتی ہیں کہ حیرانی ہوتی ہے ان کے ایک بڑے مذہبی لیڈر سے ہمارے
گروپ کی ملاقات کرائی گئی جنہوں نے پاکستان اور بھارت کے مابین جنگوں سے
متعلق سوالات کئے اور پھر بدھ مت کے حوالے سے پشاور اور ٹیکسلا کی معلومات
سے مجھے خود حیرانگی ہوئی کہ اتنی معلومات تو شائد ہمارے کسی تاریخ دان کو
بھی نہ ہو جتنی اس کے پاس تھی - تھائی لینڈ میں مونک بننے کیلئے تین ماہ کی
تربیت رضاکارانہ طور پر دی جاتی ہیں زرد رنگ کے کپڑے پہنے یہ مونک بڑے
طاقتور ہے ان کے بقول زرد رنگ کے کپڑے ہم اس لئے پہنتے ہیں کیونکہ اس سے ہم
پہلے جنگلوں میں رہتے تھے اور جنگلی جانور ہمیں کھا جاتے تھے اسی وجہ سے ہم
نے زرد رنگ کے کپڑے پہننے شروع کردئیے کیونکہ یہ رنگ آگ کا ہے اور جنگلی
جانور آگ سمجھ کر ہمارے نزدیک نہیں آتے تھے .
تھائی لینڈ کے زرعی زمینوں میں مردو عورت کا کوئی تصور نہیں یکساں طور پر
کام کرتے ہیں یعنی آرام بھی یکساں اور کام بھی یکساں. ہمارے ہاں کا تصور
نہیں کہ یاں توخواتین بالکل گھروں پر ہیں یا پھر بزنس میں ، کام کے دوران
شپ شپ کا کوئی تصور نہیں ، اگرکوئی فری ہے تو اپنے موبائل میں مصروف عمل
ہوگا جبکہ لڑکیاں ناخنوں پر نیل پالش لگاتی نظر آئینگی -
(سال 2012 میں میری لکھی گئی تھائی لینڈکے دورے کے دوران پشتو زبان میں
لکھے گئے سفر نامے کی پندرھویں قسط(
|