ریاست پاکستان نے تاقیامت قائم رہنا ہے شخصیات آتی
جاتی رہتے ہیں اسلام آباد کے سب سے بڑے قبرستان میں جا کر دیکھیں عبرت کا
وہ مقام ہے کہ انسان کی دنیا ہی بدل جائے وہاں ایسے ایسے لوگوں کی قبریں
ہیں جو کہتے تھے کہ اگر وہ نہ ہوئے تو خدانخواستہ پاکستان نہیں چل سکے گا
مگر آج پاکستان قائم ہے مگر وہ لوگ منوں مٹی تلے دبے ہوئے ہیں ان کی قبروں
پر سالوں سال کوئی جاتا ہی نہیں تو جناب یہاں کسی کے آنے سے یا جانے سے فرق
نہیں پڑتا میاں نواز شریف جو کہ اب پاکستانی سیاست کے لئے تاحیات ناہل ہو
چکے ہیں اپنے بے تکے بیانات کی وجہ سے پوری قوم کی طرف سے ملنے والے ممکنہ
رد عمل سے پریشان ہیں وہ جو بیانیہ عوام میں میں مقبول کرنا چاہا رہے ہیں
وہ ان کی بے تکی اور ملک دشمن سرگرمیوں کی وجہ سے ان کے خلاف ہی جا رہا ہے
ملک کے تین بار رہنے والے وزیر اعظم کی طرف سے جس طرح دشمن ملک کی طرف داری
کی گئی ان کے بیانیے کو سچ ثابت کرنے کی ناکام اور بھونڈی کوشش کی گئی اس
کے نتائج بہت برے ہو سکتے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ نواز شریف نے پاکستان کے
اتنے ذمہ د ار عہدے پر کام کرنے کے باوجود ایسا بیان کیوں دیا تو جناب اس
کا جواب یہ بھی ہو سکتاہے کہ وہ اپنے بیانیے کو مضبوط کرنے کے لئے کچھ
اداروں کو بیک فٹ پر لیجانا چاہتے ہیں اور اس بیان سے وہ ان طاقتوں کو
دوستی کا پیغام بھی دینا چاہتے ہوں جو پاکستان دشمن ہیں تاکہ ان کی طرف سے
ملنے والی امداد سے وہ اپنے آپ کو موجودہ صورت حال سے نکال سکیں ساتھ ساتھ
وہ عالمی دنیا پر یہ واضح کرنا چاہا رہے ہیں کہ جناب وہ تو عالمی طاقتوں کے
ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں مگر کچھ خلائی مخلوق ان کے اس کام میں روڑے اٹکا
رہی ہے یا وہ اپنے خلاف ہونے والی کاروائی کے نتائج سے اس قدر خوف زدہ ہیں
کہ اس سے پہلے، پہلے وار کر کے انھیں بیک فٹ فٹ پر کھیلنے پر مجبور کر سکتے
ہے یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب برحال آنا ہے موجود حالات میں خطرات میں
گھرے پاکستان کو سراپا تشویش بنانے کی یہ سوچی سمجھی اور گہری منظم سازش ہے
معاملہ یہیں تک محدود ہے کہ نوازشریف نے ملتان میں پاکستان کے معتبر اخبار
کے رپورٹر کو جو انٹرویو دیا ہے، وہ فقط نوازشریف کی اتھاہ مایوسی میں
ڈوباہوا بیانیہ ہے جو داروں سے ہی نہیں بلکہ کروٹ بدلتے پوری ریاست پاکستان
سے ناراضی کا اظہار ہے؟ یا یہ پاکستان کو مزید خطرات اور بیرونی دباؤ میں
لا کر اس کی سلامتی کے سوال کھڑا کرنے کا سوچا سمجھا بیانیہ ہے؟ پاکستان کی
اعلیٰ ترین عدلیہ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے کے نتیجے میں ہمیشہ کے
لئے نااہل ہو جانے والے نوازشریف نے یہ بیان دے کر جو بم چلایا ہے، یہ کثیر
الہداف ہے اس کے مفصل تجزیے کے کتنے ہی پہلو ہیں، جن سب کا واضح ہونا ہماری
قومی ضرورت بن گئی ہے۔ لیکن اس کا اہم ترین پہلو قومی صحافت، دشمن ملک کے
پروپیگنڈے اور ملکی و غیر ملکی رائے عامہ سے ہے سوال یہاں یہ بھی ہے کہ
سیرل میڈا ہی کیوں ؟ سیر ل میڈا پہلے ہی ڈان لیکس کی وجہ سے پاکستانیوں کی
نظروں میں تھا اور ایک ایسے بیانیے کو بیان کرنے کے لئے جو درحقیقت دشمن
ملک کا بیانیہ رہاہے اور جو کو سچ ثابت کرنے کے لئے پورا بھارتی میڈیا ایری
چوٹی کا زور لگا چکا ہے سیرل میڈا کا ہی انتخاب کیوں کیا گیا کیا ان قوتوں
کو یہ پیغام دیا گیا کہ اگر ایسے نہیں تو ایسے سہی یا پھر یہ پیغام دیا گیا
کہ میاں نواز شریف نااہل ہو کر بھی وار کر سکتاہے اس وقت ن لیگ اقتدار میں
ہے ایسے میں تمام ملکی رازو نیاز ان کی دسترس میں ہے اگر ان کی اعلیٰ قیادت
جو کہ یاحیات نااہل ہو چکی ہے اگر ایسے راز و نیاز میڈیا کہ ذریعے سے دنیا
بھر میں اچھالیں گے تو کیا قومی سلامتی کو وہ خطرات لاحق نہیں ہوں گے جو
دشمن ملک چاہتا ہے اس بیان سے میاں صاحب کون سے پاکستان کی خدمت کر رہے ہیں
یہ بیانہ بلا شبہ دشمن ملک کا بیانیہ تھا جسے کھبی بھی ریاست پاکستان نے
تسلیم نہیں کیا تھا اور نہ ہی کر سکتی ہے بلکہ اس کے بارے میں عالمی خفیہ
ایجنسیاں یہ رپورٹ دے چکی تھی کہ یہ سب ڈرامہ اسرائیل اور انڈیا کی ملی
بھگت سے تیار کیا گیا تھا تاکہ پاکستان پر دباؤ بڑھایا جا سکے اس کو خود
انڈین میڈیا نے بھی ایکس پوز کیا تھا تمام کردار سامنے آچکے ہیں مگر ناجانے
میاں نااہل شریف کو کیوں دشمن کی باتوں میں سچائی اور اپنے ادراوں میں
رسوائی نظر آنے لگی ہے کیا میاں صاحب کے لئے اقتدار ہی سب کچھ ہے کہ اگر
اقتدار نہیں تو کچھ نہیں میں حیران ہوتا ہوں جب کل کے مشرفی آج کے نواز
شریف کی وہ طرف داری کرتے ہیں جو خوشامد وہ پرویز مشرف کی کر چکے ہیں ان
خوشامدی لوگوں نے میاں صاحب کو انجام تک پہنچا کر ہی دم لینا ہے میاں صاحب
کی جنگ اب اقتدار کی جنگ ہے جس میں وہ پاکستان کی سلامتی اور اس کی ترقی کو
بھی داؤ پر لگا سکتے ہیں ایسے شخص کے بارے میں اب عوام بھی یہ سوچنے پر
مجبو ر ہیں کہ ملک کے تین بار کے وزیر اعظم کی طرف سے ایسے بیان کی آخر
ضرورت ہی کیوں پیش آئی اس سے پہلے بھی تو وہ چار سال حکومت میں تھے اگر ان
کو کوئی ایسی بات پتا تھی تو وہ اس کی تحقیقات کا حکم دے سکتے تھے اور دودھ
اکا دودھ اور پانی کا پانی کر سکتے تھے مگر نہیں جب اقتدار گیا تو تب ہی ان
کو خیال آیا کہ جناب یہاں پر غلطی ہے تو جناب تاحیات نااہل صاحب کو اب یہ
بات سمجھ لینی چاہیے کہ اقتدار اﷲ تعالیٰ کی امانت ہوتا ہے از شریف کے بیان
کا انڈیا میں خاصا ردِ عمل ہوا ہے اور وہاں اسے پاکستان کے تین بار وزیرِ
اعظم رہنے والے نواز شریف کی جانب سے انڈیا کے موقف کی تائید سمجھا جا رہا
ہے تو کیا نواز شریف عوام سے مایوس ہو کر مدد کے لیے بیرونِ ممالک دیکھ رہے
ہیں؟نواز شریف کے بے وقت بیان سے لگتا تو یہی ہے دوسری طرف نواز شریف کو
یقین ہو چکا ہے کہ اگلے انتخابات میں ان کی جیت کے امکانات ختم ہیں، اس لیے
وہ چاہتے ہیں کہ ان کے موقف کو عالمی پذیرائی ملے اور کچھ نہ سہی اگلے پانچ
سالوں میں وہ نااہل سے سیاسی شہید کا رتبہ پا ہی لیں گے شاید یہی وجہ ہے کہ
انھوں نے بے وقت کی راگنی کا راگ چھیڑا ہے جو اپ شاید نہ بجایا جا سکے |