13مئی 2018کی شام انجمن ترقی اردو پاکستان کی جانب سے ’
اردو باغ ‘ انجمن کی نئی تعمیرشدہ عمارت ہے میں عرفان صدیقی کے نئے کالموں
کے مجموعے ’’جو بچھڑ گئے‘‘ کی تقریب اجراء منعقد ہوئی۔ عرفان صدیایقی کالم
نگار اور ادیب ہونے کے ساتھ 31مئی تک پہلے میاں نواز شریف کے اب وزیر اعظم
شاہد خاقان عباسی کے حلقہ مشاورت برائے تاریخی ورثہ ،ثقافت اور ادبی و
تہذیبی امور کے مشیر ہیں۔ گویا ان کی وزارت اور مشاورت کے دو ہفتے رہ گئے۔
ا س کے بعد وہ خالص ادیب ، کالم نگار ہی ہوں گے۔ راقم اس تقریب میں شریک
تھا ۔ انجمن ترقی اردو اور عرفان صدیقی کے مابین خاص عشق و محبت ہے کہ ان
کے پہلے کالموں کے مجموعے ’کالم کہانی‘کی تقریب اجراء بھی انجمن نے ہی
منعقدد کی ، جب کہ اس مجموعے کو شائع ہوئے سال بھر سے زیادہ ہوگیا تھا۔ اس
تقریب اجراء میں بھی راقم کو شریک ہونے کا اعزاز حاصل ہواتھا اور تقریب کی
روداد اور کالم کہانی پر اپنی رائے کا اظہار بھی کیا تھا۔زیر نظر تصنیف ’جو
بچھڑ گئے‘ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اس مجموعے میں وہ کالم ہیں جو انہوں
نے ان شخصیات پر تحریر کیے جو اب اس دنیا سے رخصت ہوچکے۔ یہ کالم عرفان
صدیقی صاحب اپنے معروف سلسلے ’’نقش خیال‘‘ کے عنوان سے لکھتے رہے ہیں۔ میری
دلچسپی کی خاص وجہ اس کتاب میں موجود کالم ہی تھے اس لیے کہ میرے اب تک
شائع ہونے والے 500 سے زیادہ کالموں میں زیادہ کالم ان شخصیات پر ہی ہیں جو
اب اس دنیا سے اپنا تعلق ختم کر کے دوسری دنیا میں جابسے ہیں جہاں سے کوئی
واپس نہیں آتا۔ اسی جذبے اور شوق نے مجھے مجبور کیا کہ میں اس تقریب میں
شرکت کروں باوجود اس کے کہ میں دن بھر ذاتی معاملات میں مصروف رہا تھا اور
رات میں بھی ایک خاندانی تقریب میں شرکت کرنا تھی ۔انجمن ترقی اردو پاکستان
کی ادبی سرگرمیوں میں شریک ہونا میرا معمول بھی ہے۔ تقریب اجراء دلچسپ ،
معلوماتی، کئی علمی و ادبی شخصیات سے ملنے بعض سے ملاقات کا شرف بھی حاصل
ہوا۔ اس قسم کی تقریبات میں شرکت کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ہم مزاج
اور علم و ادب سے شخصیات سے ملاقات ہوجاتی ہے ، بعض کو دور ہی سے دیکھ لیتے
ہیں اور بعض کی باتیں علم میں اضافہ کا باعث ہوتی ہے۔
جو بچھڑ گئے‘ کی تقریب اجراء میں شرکت کے لیے اردو باغ کی نئی تعمیر شدہ
عمارت کے خوبصورت آڈیٹوریم پہنچاتو معروف صحافی غازی صلاح الدین اپنے
خیالات کا اظہار کر رہے تھے،ہال مہمانوں سے بھراہوا تھا، ایسے موقع پر اگر
کوئی شاگرد مل جائے تو وہ بہت کام آتا تھا، یہی ہوا جوں ہی ہال میں داخل
ہوا، زبیر جمیل جو ہمارے شاگرد اور انجمن کی تقریبات کے انتظامی امور میں
شامل ہوتے ہیں نے جوں ہی ہمیں دیکھا اور ہمیں سیٹ مل گئی۔غازی صلاح الدین
سے قبل انجمن کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن معزز مہمان کو خوش آمدید
کہنے کا فریضہ سر انجام دے چکیں تھی۔ آج کی یہ تقریب دو حصوں پر مشتمل تھی
، کتاب کے اجراء کی تقریب سے قبل پاک ترک مرکز ثقافت کے تعاون سے ’’دوستی
کا سفر تاریخ کے آئینے میں‘‘ کے عنوان سے تصویری نمائش کا افتتاح بھی ہوا
اس موقع پر ترکی کے سفیر بھی موجود تھے۔نمائش کا فیتہ ہمارے پہنچنے سے پہلے
ہی کاٹا جاچکا تھا، چنانچہ فیتہ کاٹنے کا منظر تو نہ دیکھ سکے البتہ بعد
میں نمائش گاہ جا کر تصاویر دیکھیں اور اس کی تصاویر بھی بنائیں۔ جو بچھڑ
گئے‘ کی تقریب اجراء کی صدارت معروف دانشور و کالم نگار زاہدہ حنا کے حصے
میں آئی، حسن اتفاق یا عرفان صدیقی یا منتظمین کا انتخاب کہا جائے کہ عرفان
صدیقی کی پہلے کالموں کے مجموعے ’’کالم کہانی‘ کی تقریب اجراء کی صدارت بھی
زاہدہ حنا نے کی تھی، اس بار بھی یہ اعزاز انہیں کے حصے میں آیا۔ صدارتی
کلمات رسمی نہ تھے بلکہ زاہدہ حنا تیاری سے آئیں تھی ، مقالہ تحریر شدہ تھا
،جو انہوں نے پڑھا،ابتدائی کلمات زبانی ادا کیے۔ زاہدہ حنا کی باتوں سے
محسوس ہوتا ہے کہ وہ عرفان صدیقی کی سیاست میں شراکت پسند نہیں کرتیں یہ
بات انہوں نے پہلے بھی کہی تھی اور اس بار بھی شائستہ ادبی انداز سے انہیں
دہرایا۔ان کا کہناتھا کہ ’یونانی دیو مالا میں موت کو رات کی بیٹی اور نیند
کی بہن کہا ہے ۔ عرفان صدیقی کی کتاب ’جو بچھڑ گئے‘ میں ان ہی لوگوں کو ذکر
ہے، جنہیں رات کی بیٹی اور نیند کی بہن نے شکار کیا ۔وہ جو سو گئے انہیں
عرفان صدیقی نے کس شدت اور محبت سے یاد کیا ہے۔ ان میں سے بیشتر وہ ہیں جو
عرفِ عام میں دائیں بازووالے کہے جاتے ہیں اور چند ایسے بھی ہیں جو ان کے
قبیلے کے نہیں تھے لیکن جن کا غم انہوں نے خوب خوب منایا۔ ایسا ہی ایک
کردار بے نظیر بھٹو تھیں۔ بے نظیر بھٹو سے سیاسی اختلاف رکھنے کے باوجود
عرفان صاحب کا دل موہ لیا اور ان کا قلم ان کی جاذب نگاہ اور بے پناہ شخصیت
کے جادو سے باہر نہ آسکا۔ یہ نثری نوحے عرفان صاحب کی درد مندی اور ان کے
قلم کی روانی اور جادو بیانی کا قصہ سناتے ہیں۔ زاہدہ حنا کا یہ بھی کہنا
تھا کہ’ سچ تو یہ ہے کہ مجھ ایسے کئی لوگوں کے لیے یہ بات صدمے کا سبب ہوئی
جب انہوں نے قلم سے رشتہ توڑ کر سیاست کے کوچے میں قدم رکھا، سیاست کا کوچہ
افرسیاب جادو کی ا قلیم ہے۔ سب نظر کا دھوکا ۔ پل بھر میں دھواں ہوجانے
والی جادو نگری۔زاہدہ حنا کا کہا تھا کہ عرفان صدیقی زندگی کی ابتدا سے
لفظوں کے عاشق ہوئے ایسے سچے عاشق ، پھر مڑ کر کسی اور طرف نہیں دیکھا ۔
ایک بے مثال جوہری کی طرح لفظوں کے نگینے اپنی تحریروں میں ٹانکتے چلے جاتے
ہیں۔ یوں تو انہوں نے سب کے لیے اپنے قلم سے اشکوں کے موتی پروئے ہیں لیکن
بے نظیر بھٹو، سردار اکبر بگتی اور سلیم شہزاد پر لکھی جانے والی تحریروں
میں ایک بہت پرانے اس شعر کا عکس جھلملاتا ہے کہ
لاؤ تو قتل نامہ مرا، میں بھی دیکھ لوں
کس کس کی مہر ہے سر محضر لگی ہوئی
نظامت کے فرائض خوبصورتی اور ادبی جاشنی کے ساتھ ڈاکٹر رخسانہ صبا نے انجام
دئے۔ انجمن کی معتمد اعزازی ڈاکٹر فاطمہ حسن نے جناب فرقان صدیقی اور دیگر
مہمانانِ گرامی کو خوش آمدید کہا ، ان کا کہنا تھا کہ وہ عرفان صدیقی کی
نثر کی مداح ہیں جو وہ بڑی خوبی سے لکھتے ہیں۔انہوں نے عرفان صدیقی کی علمی
ادبی خدمات پر روشنی ڈالی ، ان کی کالم نگاری اور’ جوبچھڑ گئے ‘ کے بارے
میں اظہار خیال کیا۔ انجمن کے صدر ذوالقرنین جمیل (راجو) بھی اسٹیج پر
تشریف فرما تھے، انہوں نے مہمانان کا شکریہ بھی ادا کیا۔ محمود شام صاحب کے
سنجیدہ اور فکاہیہ اظہار خیال سے سامعین محظو ظ ہوئے ۔انہوں نے کتاب ، صا
حبِ کتا ب اور ان مرحومین کے حوالے سے جن کا ذکر عرفان صدیقی نے کیا ہے پر
تفصیلی اظہار خیال کیا ۔ محمود شام صاحب نے بعض چبھتے ہوئے جملے بھی اپنے
اظہاریے میں کیے جن کے بارے میں عرفان صدیقی صاحب نے اپنی تقریر میں کہا کہ
’محمود شام نے اپنے خیالات میں چٹکیاں بھی لیں ‘۔ واقعی ایسا ہی محسوس ہوا
کہ محمود شام عرفان صدیقی کی چٹکیاں لے رہے ہیں۔ یہ کوئی نئی بات نہ تھی ،
عرفان صدیقی کے کالموں کے مجموعے ’کالم کہانی ‘ میں بھی محمود شام مقرر تھے
اس وقت بھی انہوں نے اسی قسم کی باتیں عرفان صدیقی کے بارے میں کہیں تھیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ عرفان صدیقی صاحب نواز شریف کی کچن کابینہ کے رکن تو
ہوگئے لیکن نون لیگ کو اب ان جیسے کالم نویس میسر نہیں۔ عرفان صدیقی کے
کالم نگاری سے وزیر اعظم کے مشیرِخاص کے منصب تک کے سفر پر یہ شعر بھی پڑھا
تھا ۔’زمانہ بڑے شوق سے سن رہا تھا ۔ہمیں سوگئے داستاں کہتے کہتے‘۔ محمود
شام سینئر صحافی اور کالم نگار ہیں، ان کا اندازِ بیان شائستہ اور فکاہیہ
ہے، دھیمے لہجے کے مالک ہیں، خاموشی خاموشی میں ایسی چٹکیاں لیتے ہیں کہ
سمجھنے والے محظوظ ہوئے بغیر نہیں رہتے۔
ابتدائیے میں عرفان صدیقی نے لکھا کہ’’ اس مختصر سی کتاب میں شامل کالموں
کا تعلق اُن شخصیات سے ہے جو اَب اس دنیا میں نہیں ان میں وارثانِ ممبر و
محراب بھی ہیں، صاحبانِ علم و دانش بھی، دلدادگان سیاست و حکومت بھی،
محبانِ قلم بھی اور وہ بھی جن کا رشتہ و پیوند صرف میری ذات سے تھا۔ کچھ
کالم ایسے بھی ہیں جو اُن کی زندگیوں میں لکھے گئے مگر آج وہ شہر خموشاں
میں جابسی ہیں۔ زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھنے والی ان شخصیات نے کسی
نہ کسی طور لوحِ ایام پر اپنا نقش چھوڑا ہے۔ وہ چلے گئے لیکن اُن کے تذکرے
باقی رہیں گے۔ ان کی یادیں مہکتی رہیں گی اور اُن کی باتیں دوہرائی جاتی
رہیں گی۔ وہ خود اِب کبھی لوٹ کر اس جہاںِ رنگ و بُو میں نہیں آئیں گی۔
کاروبارِ حیات اُسی طرح چلتا رہے گا جیسے اُن کے اس دنیا میں آنے سے پہلے
چل رہا تھا اور موت کا کھیل ازل سے ابد تک جاری رہے گا۔ اس دُنیا کی گہما
گہمی بھی شاید اِسی طرح کھیل سے عبارت ہے۔ بستیاں پھیلتی رہیں گی، قبرستان
وسیع ہوتے رہیں گے، آبادی بڑھتی رہے گی اور ہنگامی طور پر آنے والی آفاتِ
ارضی و سماوی توازن بحال کرتی رہیں گی‘‘۔مصنف کی ان باتوں میں سچائی ہے،
گہرائی ہے اور حقیقت نمایاں ہے۔
جو بچھڑ گئے ‘ میں شامل کالموں کی تعداد 49 ہے ۔ محمد رمضان عطائی پر ان کا
پہلا کالم ہے ،بعض بعض شخصیات پر ایک سے زیادہ کالم بھی لکھے گئے جو اس
مجموعے کا حصہ ہیں۔ محمد رمضان عطائی، آغاشورش کاشمیری ، نواب اکبر بگتی،
میاں محمد شریف، قاضی حسین احمد، سلیم شہزاد پر دو دو کالم جب کہ محترمہ بے
نظیر بھٹو پر چھ کالم اور عرفان صدیقی کی اپنی والدہ پر لکھے گئے تین کالم
’آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے‘، ’ہدیہ تشکر‘ اور وقت زخم تیغ فرقت کا
کوئی مرہم نہیں ‘ کے عنوان سے ہیں ۔ یہ کتاب کیا ہے در اصل دل موم کردینے
والا نوحہ ہے۔ بے نظیر بھٹو سے ان کے سیاسی نظریات اور سوچ میں فرق عیاں ہے
پھر بھی انہوں نے بے نظیر کی شہادت کا درد کس قدر محسوس کیا ، پھر وہ اس کا
اظہار وقفہ وقفہ سے اپنے چھ کالموں میں کرتے رہے۔ ان کے علاوہ علامہ محمد
اقبال، مولانا ظفر علی خان ، بابا عبد المجید، غازی احمد، مفتی نظام
شامزئی، مولانا شاہ احمد نورانی، مولانا نعیم صدیقی، مفتی محمد جمیل خان،
نواب زادہ نصرا للہ خان، ڈاکٹر اسرار احمد، ڈاکٹر سرفراز نعیمی، میاں طفیل
محمد، برکت اللہ، پروفیسر غفور احمد، عباس اطہر، ع۔س۔ مسلم، اشفاق احمد ،
احمد فرازؔ ، ارشاد احمد حقانی، عبد القادر ملا، ایم ایچ ہمدانی ، بشیر
بلور، جسٹس رانا بھگوان داس اور
صوفی محمد عبدا لقیوم شامل ہیں۔ بے نظیر بھٹو کے کالموں میں انہوں نے لکھا
کہ ’نہ جانے کیاتھا کہ بے نظیر کے قتل ہوجانے کی خبر نے مجھے بہت دکھی
کردیا تھا۔ ضبط کی کوشش کے باوجود میرے آنسوں نکل آئے تھے۔ اس دن ہمارے
یہاں چولہا جلا تھا نہ کسی کو کچھ کھانے کی خواہش ہوئی تھی۔ یہی غم اور دکھ
تھا جس نے ان سے بے نظیر کا نوحہ چھ اکالموں میں لکھوایا۔ سیاسی اختلاف
اپنے جگہ لیکن بے نظیر کی شہادت کا دکھ اپنی جگہ ۔لکھتے ہیں کہ ’’بے نظیر
کی المناک موت نے پورے پاکستان کودکھی کردیا ، شاید ہی کوئی آنکھ ہو جو نم
نہ ہوئی ۔ شاہد ہی دلِ درد مند رکھنے والا فرد اس شب سکون کی نیند سویا ہو
اور شاید ہی کسی نے قاتل کو بددعا نہ دی ہو‘۔اس عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ
عرفان صدیقی کے اندر کا انسان ابھی تک مکمل سیاسی نہیں ہوا بلکہ ان کے اندر
موجود ادیب، شاعر، کالم نگار زندہ ہے۔ بہت ممکن ہے کہ 31مئی کے بعد وہ مکمل
طور پر وہ ادب اور کالم نگاری کی دنیا میں واپس آجائے۔ انہوں نے جس کا بھی
نوحہ لکھا ، پڑھنے والے کی آنکھیں نم کردیں۔ کالم نگار ارشاد احمد حقانی کے
بارے میں اپنی تقریر میں بھی کہا اور کتاب میں ان کے کالم میں بھی شکوہ کیا
کہ حقانی صاحب زندگی میں جب چلا کرتے تو ان کے ساتھ ایک ہجوم ہوا کرتا لیکن
جب ان کا جنازہ اٹھا تو اس میں صرف دو ڈھائی سو لوگ تھے۔ وہ اس بے حسی پر
ماتم کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ایک جری اور جی دار لکھنے والا ، سلیم شہزاد کو
گم نام کہا جائے تو غلط نہ ہوگا، اس کی ایک وجہ شاید یہ بھی ہے کہ اس نے
اردو میں کم اور انگریزی میں زیادہ لکھا ۔ عرفان صدیقی نے اس کا نوحہ لکھ
کر ایک گم نام کالم نگار کو متعارف کرادیا۔عرفان صدیقی نے اپنی ماں کا نوحہ
بھی لکھا ،وہ لکھتے ہیں’’جمعتہ المبارک کی شام ہم نے اپنے والد کی پائنتی‘
چند قبریں چھوڑ کر‘ اپنی ماں کو منوں مٹی تلے دفن کردیا۔ سورج‘ درختوں کے
اس پار‘ گھروں کے اوپر سرکتا ہوا افق مغرب میں ڈوب رہا تھاکہ ہم نے قبر پر
پھولوں کی ایک چادر بچھائی اور گھر کو چلے۔ شام کا دھند لکا پھیل رہا تھا
لیکن اچانک مجھے یوں لگا جیسے سورج سوا نیزے پہ کھڑا ہو اور ٹھنڈی چھاؤں کر
نے والی سبز رنگ کی چھتری کہیں کھو گئی ہو۔ جیسے میں لق و دق صحرا میں تنہا
کھڑا ہوں پھر یکا یک ایک غیر مرئی سے شفیق ہاتھ کی سکون بخش کلائی نے میرا
کندھا تھپتھپایا ۔ میری سوچ میں وہ شام اترآئی جب میرے حضورﷺ اندوہ کی
تصویر بنے کھڑے تھے اور ابواء کی وادی میں بی بی آمنہ کی میت قبر میں اتاری
جارہی تھی اور آپ ﷺ کے لبو پر ایک معصوم سا سوال تھرکنے لگا.....’’اماں آپ
بولتی کیوں نہیں‘‘ ہم کون اور ہماری اوقات کیا؟۔ ماں جیسی عظیم ہستی کا
نوحہ عرفان صدیقی نے لکھا ہو یا کسی اور نے اپنی ماں کا نوحہ لکھا ہو، ہم
چند سطر لکھ کر اس عظیم ہستی کا قرض کسی طور اتار ہی نہیں سکتے۔ البتہ
لکھنے والا اپنے دل کو بوجھ کم ضرور کر لیتا ہے۔شاعر مشرق علامہ اقبالؔ نے
اپنی ماں کی یاد میں اپنے دُکھ بھرے جذبات اور احساسات کو جس انداز اور
اسلوب میں پیش کیا ’’ماں‘‘ کے لیے یہ ہر دکھ بھرے دل کی درد مندانہ اور پر
خلوص دعا ہے ، علامہ کی اس نظم کا یہ شعر بہت معروف ہے
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے!
سبزۂ نور ستہ اس گھر کی نگہبانی کر ے !
جو بچھڑ گئے ‘ 176صفحات پر مشتمل کتاب ہے ، دیدہ ذیب، آرٹ پیپر کا استعمال،
عمدہ چھپائی ، قیمت کچھ زیادہ لیکن کتاب کو ہاتھ میں لیں تو کم لگے۔ کتاب
ظاہر خوبصورت اور اس کا باطن درد بھرا ، وہ اس لیے کہ یہ تحریر ان لوگوں کے
بارے میں ہے جو اب اس دنیا میں نہیں۔ کتاب کی تعریف میں چند ادیبوں اور
دانشوروں کی رائے فلیپ پر چھپی ہوئی ہیں ، ان میں مجید نظامی، مجیب الرحمٰن
شامی، عطاء الحق قاسمی، عبد القادر حسن، سجاد میر،افتخار عارف اور حسن نثار
شامل ہیں۔ عرفان صاحب کے سیاسی ہم خیالی عطا ء الحق قاسمی نے لکھا ’عرفان
صدیقی میرے اور لاکھوں دوسرے قارئین کا محبوب اس لیے بھی ہے کہ وہ سچ بولتا
ہے‘‘۔ عبد القادر حسن کا خیال ہے کہ ’ان کی تحریر میں انشا پردازی بھی ہے ‘
شاعری کی جھلک بھی ملتی ہے اور کسی قدر اخباری کالم نگاری والی حالات حاضرہ
سے پریشان کرنے دینے والی کیفیت بھی‘‘۔سجاد میر کاکہنا ہے کہ’ ہر عہد کی
سچائی کے اظہار کے لیے خدا کچھ لوگوں کو چن لیتا ہے لگتا ہے عرفان صدیقی کے
حصے میں روز اول سے عزیمت کی یہ گھڑی لکھ دی گئی تھی‘‘۔ معروف شاعر افتخار
عارف نے عرفان صدیقی کی تحریر کے بارے میں لکھا ’’یہ تحریریں گر یۂ نیم شبی
کو اسلوب بھی رکھتی ہیں اور آداب سحرگاہی کے قرینوں سے بھی آگاہ ہیں‘‘۔ حسن
نثار نے لکھا ’’عرفان صدیقی کا ہر کالم بَیا کے گھونسلے کی طرح ہوتا ہے ۔
وہ ایک برانڈ کا نام ہیں۔ صاحب اُسلوب آدمی ہیں۔سٹائلسٹ ہیں۔ ان کی تحریر
کے ایک ایک لفظ پر اُن کی مہر لگی ہوتی ہے‘‘۔ مجید نظامی لکھتے ہیں کہ’
عرفان صدیقی نے کالم میں شعر و ادب کی چاشنی کو زندہ کیا اور ایسا پرکشش
اسلوب اختیار کیا جس نے ان کے اخباری کالموں کو ادب پارے بنا دیا۔ یہ اردو
کی ایک کلاسیکل روایت کا احیا ہے‘۔ مجیب الرحمٰن شامی نے عرفان صدیقی کو
کالم نگاروں کا نسیم حجازی قرار دیا اور کہا کہ مجھے یقین ہے کہ اُن کے
کالموں کا یہ مجموعہ بھی جہاں قارئین کی بھر پور توجہ حاصل کرے گا وہاں یہ
آرزوبھی لبوں پر مچلنے لگے گی کہ قلم و قرطاس سے عرفان صدیقی کا موجودہ
فاصلہ عارضی ثابت ہو ‘۔ جو بچھڑ گئے‘ کالم کامجموعہ اور وفیات نگاری پر
عمدہ تصنیف ہے جس میں خفتگان خاک پر خوبصورت انداز سے ادبی چاشنی لیے ہوئے
تحریر یں، اردو ادب میں گران قدر اضافہ ہے۔یہ شخصیات نگاری کے طالب علموں
کے لیے مفید، وفیات نگاروں کے لیے نافع ، علم و ادب کے پروانوں کے لیے سود
مند ہے۔ بک کارنر، جہلم نے شائع کی ۔ قیمت آٹھ سو روپے ہے۔اتفاق ہے کہ
عرفان صدیقی صاحب کی کتاب ’’کالم کہانی‘‘ کی تقریب اجراء کی روداد میں نے
13مئی 2017ء کو لکھی تھی اوراب ان کے کالموں کا دوسرا مجموعہ ’’جو بچھڑ
گئے‘‘ کی تقریب اجراء 13 مئی 2018 ء کو ایک سال بعد منعقد ہوئی اور اس کا
تعارف میں نے ایک سال بعد اُسی تاریخ کو لکھا(18مئی 2018ء) |