این اے 168 پرانہ حلقہ این اے 190 چشتیاں تحر یر واجد
عزیز چوہدری
چشتیاں سیاسی اعتبار سے پاکستان کی سیاست میں بڑی اہمیت رکھتا ہے میاں نواز
شریف کے چار پیاروں میں سے ایک پیارے میاں عبدلستار لالیکا مرحوم بھی
چشتیاں سے منتخب ہوکے اسمبلی جاتے ریے سابق وزیر تعلیم مرحوم چوہدری
عبدلغور بھی 2008 میں یہاں سے پیپلز پارٹئ کے ٹکٹ پہ ایم این اے منتخب ہوئے
جنوبی صوبہ پنجاب محاز کے جنرل سکیڑی اور پارٹیاب بدلنے میں مہارت رکھنے
والے جناب چ طاہر بشر چیمہ 2006 میں مسلم لیگ ق اور 2013 میں مسلم لیگ ن کے
ٹکٹ پہ ایم این اے منتخب ہوئے -
سابق وزیر اعلی پنجاب پرویز الہی بھی چشتیاں کے صوبائی حلقہ سے 2008 میں
الیکشن لڑ کے ہار چکے ہیں علاقے کی معروف سیاسی شخصیت مرحوم ملک قاسم بھی
1988 میں یہاں سے ستار لالیکا مرحؤم کے مقابلے میں الیکشن لڑ چکے ہیں لیکن
انہیں کامیابی نہیں ملی تھی پیپلز پارٹی سے درینہ رفاقت ختکم کرنے والے
میاں ممتاز متیانہ جو میاں ستار لالیکا کے سب سے بڑے حریف سمجھے جاتے تھے
وہ بھی 1993 میں یہاں سے ستار لالیکا کو ہرا کر ممبر قومی اسمبلی بنے اور
یہ وہ واحد الیکشن تھا جو مرحوم ستار لالیکا اپنی زندگئ میں ہارے اور مزہ
کی بات وہ اس الیکشن میں بھی قومی اسمبلی میں پہنچے کیونکہ وہ اس الیکشن
میں دو حلقوں چشتیاں اور بہاولنگر سے الیکشن لڑ رہیے تھے چشتیاں میں انہیں
ہار ملی لیکن وہ بہاولنگر سے کامیاب ہوگے تھے اس طرح وہ پاکستان کے چند
سیاستدانوں میں تھے جو ہر اسمبلی کا حصہ رہے -
2013 میں طاہر بشیر چیمہ مسلم لیگ ن کے ٹکٹ پہ ایم این اے بنے یہاں انہیں
اپنی ہی پارٹی کے ایم پی اے کے امیدوار احسان باجوہ سے مقابلہ کرنا پڑا
کیونکہ وہ کھلم کھلا مسلم لیگ ضیا کی سپورٹ کرتے رہے جبکہ طاہر بشیر چیمہ
نے اپنے نیچے ایم پی اے کی سیٹ پہ آزاد امیدوار چوہدری اصفر کی حمایت کی کی
تھی پورے ملک کی طرح چشتیاں میں بھی مسلم لیگ ن باآسانی سے جیت گئی طاہر
بشیر چیمہ اور احصان باجوہ جبکہ ڈاہراوالہ سے زاہر اکرم ایم پی اے منتخب
ہوے یہاں چیمہ کے مدمقابل دوسرے نمبر پہ مسلم لیگ ضیا کے جناب اعجاز الحق
تھے جبکہ تیسرے نمبر پہ تحریک انصاف کی طرف سے اپنا پہلا الیکشن لڑنے والے
نوجوان ملک مظفر تھے جنہوں نے حیران کن طور پہ پینتالیس ہزار ووٹ لیا -
اب یہاں حلقے کی صورتحال بلکل مختلف ہیے مسلم لیگ ن کے ایم این اے طایر
بشیر چیمہ نے روایت برقرار رکھتے ہوئے مسلم لیگ ن سے بے وفائی کرتے ہوئے
پہلے جنوبی صؤبہ محاز اور پھر اس سے تحریک انصاف میب چھلانگ لگا دی ہے اب
تحریک انصاف کے لیئے ایک بہت بڑا مسلہ یہاں ٹکٹ کا ہوگا -
چیمہ کی شمولیت سے تحریک انصاف کی ضلعی تنظیم بلکل بھی خؤش نہیں ہے کیونکہ
یہاں سے تحریک انصاف کے ضلعی صدر ملک مظفر اعوان امیدوار تھے اور چیمہ صاحب
کو جہانگیر ترین کے ٹکٹ دلانے کی یقین دیہانی پی تحریک انصاف میں لایا گیا
ہے اگر چیمہ یہاں سے ٹکٹ حآصل کر لیئے ہیں تو تحریک انصاف کا مقامی دھڑا
ناراض ہو سکتا ہے جس سے تحریک انصاف کو نقصان ہو سکتا ہے اور قوی امکاں یہ
ہی ہے کے طایر بشیر چیمہ کو ہی ٹکٹ ملے گا کیونکہ تحریک انصاف کا اب ٹارکٹ
پرانے ورکر نہیں بلکہ زیادہ سے زیادی سیٹیں لینا ہے اسلیے وہ تجربہ کار
لوگوں کو آگے لا رہی ہے اگر طایر بشیر چیمہ یہاں سے ٹکٹ حاصل کر لیتے ہیں
تو ایک بڑا سخت مقابلہ کا امکان ہے طایر بشیر چیمہ جٹ برادری کا ایک بڑا
ووٹ بینک رکھتے ہیں اور چشتیاں میں مقابلہ صرف برادری بیس پہ ہی لڑا جاتا
ہے 2008 میں چوہدری غفور کو ہارون آباد سے چشتیاں صرف اسلیئے الیکشن لڑوایا
گیا کیونکہ وہ آرائیں برادری سے تعلق رکھتے تھے اور آرائیں برادری ہی اس
علاقے کی سب سے بڑی اکژیت میں ہے کیونکہ اس الیکشن میں طاہر بشیر چیمہ مسلم
لیگ ق کے ٹکٹ پہ الیکشن لڑ رہے تھے تو پیپلز پارٹی نے آرائیں ووٹ کے لیئے
چویدرئ غفور کو اگے کیا اور اس میں کامیاب بھی ہوئے ۔۔ اب یہاں مسلم لیگ کی
طرف سے قومی امکان ہے موجودہ ایم پی اے احسان الحق باجوہ ایم این اے کا
الیکشن لڑیں اس طرح ایک بار پھر یہاں دو سیاسی اور زاتی حریفوں احسان الحق
باجوہ اور طاہر بشیر چیمہ میں کانٹے کا جوڑ پڑے گا
موجودہ حالات مسلم لیگ ن کے لیئے بلکل بھی موافق نہیں ہی پورے ملک سے پچاس
کے قریب ایم این اے اور ایم پی اے مسلم لیگ ن چھوڑ کے تحریک انصاف یا پیپلز
پاڑٹئ میں شامل ہو چکے ہیں آے روز نیا سکینڈل مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے
لیئے پریشانی کا سسب بن رہا ہے ختم نبوت پانامہ اور ممبی حملوں بارے نواز
شریف کے بیانات سے مسلم لیگ ن پہ گہرا اثر پڑا ہے امید تھی کے مسلم لیگ ن
اس الیکشن میں بھی باآسانی کامیاب ہو جائے گی کیونکہ پاکستان میں ہونے واے
کاموں بلخصوص پنجاب میں ہو ریے ترقیاتی کاموں کی وجہ سے عوام مسلم لیگ ن کے
لیئے نرم گوشہ رکھتی تھی اور کسی حد تک آج بھی رکھتی ہے لیکن نواز شرف کے
آرمی سے ٹکڑاو کی وجہ سے مسلم لیگ ن کے امیدواروں کو پریشانی کا سامنا کرنا
پڑ سکتا ہے تحریک انصاف فلوقت یہاں اگے دکھائی دیتی ہے لیکن مسلم لیگ ن
پانسہ پلٹنے کی مہارت خؤب رکھتی ہے صؤبائی حلقوں میں بھی مسلم لیگ ن تحریک
انصاف اور مسلم لیگ ضیا میں کانٹے کا جوڑ پڑے گا یہاب کوئی بھئ بڑی پارٹی
نے آرائیں امیدوار کھڑا نہیں کیا تو امید ہے مسلم لیگ ضیا یہاں سے کسی
آرائیں امیدوار کو لائے گی جو دونوں بڑی پارٹیوں کا ووٹ خراب کرے گا جبکہ
پیپلز پاڑٹی نے ابھی تک کسی کو بھی اپنا امیدوار نامزد نہیں کیا ایم پی اے
کی سیٹ پہ مسلم لیگ ن احسان باجوہ کے کزن کو امیدوار نامزر کر سکتی ہے لیکن
فلحال ٹکٹ فائنل نہیں ہوا تحریک انصاف کے ایم پی اے کے امیدوار سکندر فیاض
تھے لیکن اگر چیمہ ایم این اے کی ٹکٹ لے جاتے ہیں تو پھر ممکن ہے تحریک
انصاف ایم پی اے کا ٹکٹ ملک مظفر کو دے اگر ایسا نہیں ہوتا تو تحریک انصاف
کا ووٹ یہاب متاثڑ ہو سکتا ہے ڈاہرانوالہ سے مسلم لیگ ن موجودہ ایم پی اے
زاہد اکرم کو ہی نامزد کرے گی جبکہ تحریک انصاف کے یہاب اسعد عل خآن
امیدوار ہیں جبکہ مسلم لیگ ضیا نے یہاں سے ہدایت اللہ باجوہ کو امیدوار
نامزد کیا ہے یہاں بھی ایک کانٹے کا مقابلہ کا امکان ہے زاہد اکرم کے والد
حاجی اکرم طاہر بشیر چیمہ کے سیاسی حریف رہے ہیں اور انہیں یہاں سے کئی بار
صوبائی حلقہ سے ہرا چکے ہیں 2013 میں حاجی اکرم اور طایر بشیر چیمہ نے
اتحار کر لیا تھا لیکن اب ایک بار پھر ایک دوسرے کے آمنے سامنے آنے کا
امکان ہے مسلم لیگ ن کے موجودہ ایم پی اے احسان باجوہ کا تعلق بھی ڈاہروالہ
سے ہے ۔۔۔۔ آنے والے دنوں میں حالات کس کی طرف جاتے ہیں یہ تو ٹکٹوں کی
تقسیم کے بعد ہی پتہ چلے گا اس کے بعد پھر تحریک انصاف کے وہ بہت سے لوگ جو
ٹکٹ کے لیئے آتے تھے وہ بھی پھر پاڑتی سے کنارہ کر سکتے ہیں آنے والا
الیکشن مسلم لیگ ن کے لیئے بہت مشکلات پیدا کر سکتا ہے اور اگر تحریک انصاف
نے بھی ٹکٹوں کی صیح تقسیم نہ کی تو اسے بھی یہاب سے پرابلم ہو سکتی ہے- |