مذہبی اور غیر مذہبی کی تقسیم حکومت کون کرے؟
(ishrat iqbal warsi, mirpurkhas)
مُحترم قارئین السلامُ علیکم مجھے نہیں معلوم کہ مملکت پاکستان میں یہ جُو مذہبی اور غیر مذہبی کی اصطلاح استعمال کیجاتی ہے اِس اصطلاح کا بانی کُون ہے اور اِس اصطلاح کے مقاصد کیا تھے اور اِس کی ضرورت کیوں اور کیسے پیش آئی لفظ مذہب عربی زبان سے مشتق اسم ہے۔ اردو میں بطور اسم ہی استعمال ہوتا ہے جِسکے(لفظاً) معنٰی ہیں۔ گزرنا، جانے کی جگہ؛ اور(مجازاً) اسکے یہ معنی لئے جاسکتے ہیں راستہ، راہ (کسی شخص یا گروہ کا) مسلک، آئین، طریق وغیرہ وغیرہ۔۔۔
یا مذہبی کا ایک معنی ہے کہ اعمال صالِحہ کرنے والے لوگ اب اگر یہ معنی لئے جائیں تو اِسکا مقصد ہے کہ غیر مذہبی لوگ وہ ہُونگے جِن کا اعمال صالحہ سے کوئی دینی تعلق نہیں اِسی طرح اگر ہَم مذہبی جماعتوں کا معنی تلاش کریں تو یہ معنیٰ بنتے ہیں کہ وہ لوگ جو راہِ راست پر ہیں اور اعمال صالحہ کرتے ہیں جبکہ غیر مذہبی جماعت کے معنی یہ نِکلیں گے کہ وہ لوگ جو اعمال صالحہ سے دور ہَیں راہِ راست سے بھٹکے ہُوئے ہیں اگرچہ میرا تعلق بھی ایک دینی جماعت سے وابستہ ہے لیکن مجھے اِس تقسیم سے حیرت ہُوتی ہے کیونکہ اگر اِس تقسیم کو صحیح مان لیا جائے تو ہر ایک دانشمند جانتا ہے کہ پیپلز پارٹی ہُو یا مسلم لیگ ،ایم کیو ایم ہُو یا عوامی نیشنل پارٹی نہ ہی خُود کو مذہبی جماعت کہتی ہیں اور نہ ہی یہ پارٹیاں خُود کو مَذہبی جماعت کہلوانا پسند کریں گی اِس تناظر میں اگر دیکھا جائے تو کیا ہَم یہ کہیں گے کہ یہ تمام سیاسی جماعتیں خُدانخواستہ راہ راست سے بھٹکی ہُوئی جماعت ہیں اور دین اسلام سے اِنکا دور کا بھی واسطہ نہیں۔
جب کہ یہ حقیقت ہر ایک پر عیاں ہے کہ مذکورہ بالا پارٹیاں بھی اسلام سے اُسی قدر مُحبت کرتی ہیں جِتنا مذہبی جماعت کہلوانے والی پارٹیاں کیونکہ کوئی بھی مسلمان دینی حمیت سے خالی نہیں ہُوسکتا ہاں البتہ یہ ضرور ہُوسکتا ہے کہ کوئی اِسکا اظہار کرتا ہے اور کوئی اظہار نہیں کرپاتا لیکن یہ بات تو روز روشن کی طرح ہر ایک پر عیاں اور صاف ہے کہ چاہے کسی مسلمان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہُو وہ دین فطرت دین اسلام سے بیگانہ نہیں رِہ سکتا اسلئے کم از کم مجھے تو یہ اصلاح قطعی سمجھ نہیں آتی جیسا کہ آجکل عرف عام میں کہا جاتا ہے کہ فُلاں شخص کا تعلق ایک مذہبی جماعت سے ہے اور فُلاں کا تعلق ایک غیر مذہبی جماعت سے ہے۔
اور اِ س تمام بِحث سے قطع نظر ہَم اِسی تقسیم کو اگر کچھ لمحوں کیلئے تسلیم کرتے ہُوئے اگر اِس بات کا جائزہ لیں کہ اگر بالفرض یہ تقسیم صحیح ہے تو کیا ہَمیں موجوہ مذہبی لوگوں کو اقتدار میں لانا چاہیئے اور اگر ہاں تو کیوں؟
اور اگر جواب یہ ہُو کہ چُونکہ غیر مذہبی جماعتیںمُلک میں انارکی بھیلا رہی ہیں بے حیائی پھیلا رہی ہیں اور کرپشن پھیلا رہی ہیں ۔ اور مزہبی جماعتیں َحکومت اور اقتدار میں آنے کےبعد اِن تمام لعنتوں سے نہ صرف عوام کو جھٹکارہ دِلوانا کا باعث ہُونگی بلکہ وہ عدل بھی قائم کریں گی۔ مُلک سے غربت اور جہالت کے خاتمے کا باعث ہُونگی اور حضرت عُمر (رضی اللہُ عنہُ) کے دور حکومت کی طرح چاروں طرف خُوشحالی پھیل جائے گی لوگوں کو انصاف اُنکی دہلیز پر مُہیا کیا جائے گا۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔۔۔
اِس قِسم کے دلائل رکھنے والے دوستوں کی خِدمت میں صرف اِتنا عرض کرنا چاہُوں گا ۔ کہ میرے بھائی یہ تمام باتیں اگر درست اور بَجا ہیں تُو کیا وجہ ہے مُلک پاکستان کے عوام مذہبی جماعتوں کو ووٹ نہیں ڈالتے؟
کیوں وہ نہیں چاہتے کہ مُلک میں اِن مذہبی جماعتوں کے ذریعہ خُوشحالی آئے اور اُنہیں اِنصاف کیلئے نَسل در نَسل انتظار نہ کرنا پڑے اور اُنکے بَچّے رات کو بھوکے نہ سوئیں۔ آخر کیوں نہیں ؟
تُو میرے بھائی جواب اگر چہ تلخ ہے مگر حقیقت یہی ہے اور اِس سچائی سےمُنہ نہیں موڑا جاسکتا کہ عوام نے اِن مذہبی جماعتوں کو بھی آزما کر دیکھا ہے جنکے پاس 2 صوبوں کی حکومت ہونے کے باوجود اُن صوبوں کی قسمت نہیں بدلی اور مذکورہ وعدے کم از کم صوبوں کی حَد تک بھی قائم نہیں کئے جاسکے لوگوں نے دیکھا کہ مذہبی لوگوں کی حکومت میں بھی اُنکا معیار زندگی بُلند نہ ہُوسکا اُس دوران بھی اُنکے بَچے بھوکے پیٹ سوتے رہے۔ اُس وقت بھی انصاف کی خاطر وہ سُولی پر لٹکتے رہے جبکہ دوسر جانب اِن مذہبی شخصیات کے بنک بیلنس میں اضافہ ہُوتا رہا۔ اُنکی جائیدادوں میں اضافہ ہُوتا رہا اُنکے عزیز و اقارب کے محلات بنتے رہے ۔ کرپشن اور کمیشن کی سیاست کی جاتی رہی۔
اب آپ ہی ایمانداری سے کہیئے کہ کسطرح ایک عام آدمی اِن مذہبی کہلائےجانے والے لوگوں پر ایک مرتبہ پھر سے اعتماد کرے کیونکہ کسی کا اعتماد حاصل کرنے کیلئے کچھ عملی اِقدام کی ضرورت بھی پیش آتی ہے خُلفائے راشدین کی مثال دینے والے پہلے حضرت عُمر بن عبدالعزیز(رحمتہ اللہ علیہ) جیسا کردار تُو لیکر آئیں۔ جنکے پاس جب کوئی مہمان ذاتی غرض سے حاضر ہُوتا تو آپ چراغ بُجھا دیا کرتے تھے اور جب ایک مرتبہ آپ کی بیگم نے روزانہ کی مد میںسے چند پیسے بَچا کر ایک دِن حَلواہ تیار کرلیا تھا اور جب آپ کے علم میں اس بچت کا علم آیا تُو روزانہ کے خرچے میں سے اسقدر پیسے بیت المال سے لینے کَم کردیئے کہ ہمارا گُزارہ جب اِتنے کم پیسوں میں بھی ہُوسکتا ہے تو زائد بیت المال سے کیوں حاصل کریں۔
حضرت عُمر رضی اللہُ عنہُ اورحضرت عمر بن عبدالعزیز (رحمتہ اللہ علیہ)کی مِثال دینے والوں سے کوئی یہ تُو پُوچھے کہ کیاوہ شخصیات بھی اِسی طرح حکومتی فنڈ سے الّلے تلّلے اُڑایا کرتی تھیں کیا وہ بھی سرکاری خرچ پر عمرہ اور حج کیلئے جایا کرتیں تھیں۔کیا اُن نُفوسِ قُدسیہ کے ہاں بھی کرپشن، کمیشن، کا کوئی جواز موجود تھا جو کہ یقیناً نہیں تھا تُو آپ کس مُنہ سے اُن نُفوسِ قُدسیہ کی اِمثال دے سکتے ہیں۔
پہلے آپ حضرات اُن نفوسِ قُدسیہ کے نقشِ قدم پر تُو چل کر دِکھائیں خُدا کی قسم اِقتدار خُود چَل کر آپکے قدموں کو بُوسہ دینے آئے گا ہُوسکتا ہے اِس تحریر کو پڑھ کر آپ ہمیں بھی غیر مذہبی لوگوں میں شُمار کرنے لگیں لیکن جو احباب باقاعدگی سے ہمارے کالم پڑھتے ہیں وہ اِس بات کے گواہ ہیں کہ میری تمام تحریریں اِسلامی اِقدار کا رَنگ لئے ہُوتی ہیں۔ اور میں یہ ہر گِز نہیں کِہتا کہ تمام کی تمام ہی مذہبی شخصیات خُدانخُواستہ کرپٹ ہُوچُکی ہیں اور کرپشن میں ملوث ہیں یقیناً اچھے بُرے لوگ ہر جگہ ہُوتے ہیں اور مذہبی جماعتوں میں بھی اعلی اقدار کی حامل شخصیات ضرور موجود ہونگی اور میری بھی یہی خُواہش ہے کہ اِس مُلک پاکستان میں نِظام مُصطٰفے کا دستور ہُو اِس مُلک کے حُکمراں دیندار ہُوں پابند شرع ہُوں کہ دردِ مسلم اگر کسی سینے میں ہُوسکتا ہے تو وہ سینہ کسی سچے عاشقِ رسول (صلی اللہُ علیہ وسلم) کا ہی سینہ ہُوسکتا ہے نہ کہ کسی گُمراہ کا سینہ لیکن میں کیا کروں جب میں اِن مذہبی اور غیر مَذہبی کی تقسیم کے دونوں رُخ دیکھتا ہُوں تو اُجالے کی کرن مجھے کسی ایک حصہ پر بھی نظر نہیں آتی۔
اب شائد آپ یہ سوچ رہے ہُونگے کہ پھر آخرکسطرح مُلک پاکستان کو بَچّایا جائے جبکہ یہ بھی اٹل سچائی ہیکہ موجودہ حُکمرانوں نے کرپشن کے تمام سابقہ رِیکارڈ توڑ ڈالے ہیں۔ اب کس طرح اِس مُلک میں ایسا انقلاب بَرپا کیا جائے کہ ہم بھی پَس ماندگی اور ذلت کی زندگی سے نِکل سکیں۔
میرے خیال میں ہَمیں اِس مَذہبی اور غیر مَذہبی کی تقسیم سے باہر نِکل کر ایسے دیانتدار لوگوں کو اِقتدار میں لانا ہُوگا جِن کے قلوب مسلمانوں کیلئے تڑپتے ہُوں جو نہ صرف قائد اعظم محمد علی جناح(رحمتہ اللہ علیہ) کی طرح اغیار کے داؤ پیچ کو سمجھنے کی اہلیت رکھتے ہُوں بلکہ اُنکو منہ توڑ جواب بھی دینے کی اہلیت رکھتے ہُوں جِنکی نظر حَکومت کے خَزانوں پر نہیں پر آخرت کے اِحتساب پر ہُو۔ جنکی قُوتِ پرواز علامہ اقبال (رحمتہ اللہ علیہ) کے افکارکو چُھولے۔
اور خُدا کی قسم جِس دِن ہمیں ایسے حُکمراں مُیسر آگئے تو آپ دیکھیں گے کہ نہ صرف ایشیا میں بلکہ پُوری دُنیا میں اِس مملکتِ اسلامی کی وہ دھاک ہُوگی کہ صرف نام سُن کر اغیار کو پسینہ آجائے گا بِس بات ہے سمجھ کی حضرت امام احمد بن حنبل )رحمتہ اللہ علیہ) کا قولِ مُبارک ہے کہ وقت کا حُکمران اُسی شخص کو بنانا چاہیئے جس میں اُس وقت اور حالات کے مطابق صلاحیت موجود ہُو (یعنی اگر سپہ سالار کی ضرورت ہُو تو میدانِ حرب سے لاؤ مُدبر کی ضرورت ہُو تو اقبال علیہ الرحمہ سا لاؤ اور مقدمہ کی ضرورت ہُو تو محمد علی جناح جیسے کو لایا جائے آج ضرورت ہیکہ ہَم تمام تعصبات قومیت اور فرقہ واریت سے اپنی گردن آذاد کرواکر ایک جماعت بن جائیں اور مُنافرت کے بجائے اَخوت اور بھائی چارگی کی فضا کو قائم کریں اور اپنے وطن کے گوشے گوشے میں سے صرف ایسے لوگوں کو مُنتخب کریں جو حقیقت میں اسلام اور مسلمانوں کی مُحبت اپنے دِلوں میں رکھتے ہُوں چاہے وہ بظاہر مَذہبی نظر آتے ہُوں یا کم مذہبی ۔ ہُوسکتا ہے کہ جِنہیں ہَم غیر مَذہبی سمجھ کر نظر انداز کر رہے ہُوں اُنہی میں کوئی اقبال اور محمد علی جناح(رحم اللہ علیہم)چُھپا بیٹھا ہُو۔ |