برِصغیر پر مسلمانوں نے تقریباًہزار برس
حکومت کی۔اور ہر میدان میں سب پر غالب رہے اور پھر اپنی ہی نااہلی سے خود
کو غیروں کے سامنے مغلوب کرلیا۔خیر یہ غلامی کے اندھیرے بھی اﷲکے کرم سے
چھٹ گئے اور ان اندھیروں کوروشنی سے بدلنے کے عوض لاکھوں مسلمانوں کاخون
بہااور تب کہیں جاکر ہمیں یہ پاکستان حاصل ہوا۔جن حالات اور مشکلات میں یہ
ملک بنا ،بیشک اس کی نظیر دنیا میں نہیں ملتی۔
کہا جاتا ہے کہ تاریخِ اسلام میں ظہورِاسلام کے بعد پاکستان کا بننا سب سے
بڑا واقعہ ہے۔ لیکن افسوس صد افسوس،آج ہم اپنے آباؤاجداد کی قربانیوں کو
یکسر بھلا بیٹھے ہیں۔مطالعہ پاکستان میں ہم واقعات کو پڑھتے ضرورہیں لیکن
ان حالات سے جڑی تلخ یادوں کے تیر ہمارے سینے چھلنی نہیں کرتے۔قصۂ مختصر
ہمیں پاکستان کے نام پر ایک آزاد ریاست مل گئی۔جہاں ہم آزاد فضاؤں میں سانس
لے سکتے ہیں۔لیکن کیاحقیقت میں بھی ایسا ہی ہے؟؟؟ یا ہم آج بھی غلام
ہیں،،ذہنی غلام!
باقی دنیا تو اس ملک کو کمزور مسلمان ملک سمجھتی آئی ہے ہمیشہ سے۔ لیکن ہم
نے دنیا کے نقشے پر وہ تبدیلیاں برپا کیں جو اپنی مثال آپ ہیں۔ہم نے سوویت
یونین سے ٹکر لی اور اس کو توڑ کر الگ کر دیا۔ اور کروڑوں مسلمانوں کو آزاد
کرایا۔1965ء میں ہم نے دشمن کے دانت کھٹے کیے۔1971ء میں ہمیں چوٹ
لگی۔کوئی بات نہیں قوموں کو لگتی ہے۔ غیروں کوہمارے وجود پرشک تھا۔وہ ابھی
اس گمان میں ہی تھے کہ پاکستان نہیں بچے گااورالحمداﷲہم ایٹمی طاقت بن کر
دنیا کے نقشے پر اُبھرے۔ 60 ء کی دہائی میں ملک شام اور مصر پرکفر کے گہرے
بادل چھائے۔اور پاکستانی افواج نے پہنچ کران کا ساتھ دیا۔ 90ء کی دہائی
میں بوسینیا پرحملہ ہوا،تب بھی ہماری افواج نے کلیدی کردار ادا کیا۔ گو
90ء کی دہائی تک ہم ٹھیک ڈِگر پر چلتے رہے اور ملکی اور غیر ملکی مسلمانوں
کا ہمیشہ ساتھ دیا۔
لیکن آج منظر کچھ اور ہی ہے۔ آج ہمارے سامنے شام کے مسلمانوں کو کاٹاجاتا
ہے،ہماری مسلمان بہنوں ،ماؤں کی عزتوں سے کھیلا جاتا ہے لیکن ہماری قیادت
اپنے مفادات کی لڑائی میں مصروف رہتی ہے۔خیر یہ تو بات رہی دوسرے ملک
کی۔پچھلے چند دنوں میں اپنے ملک میں ہونے والے واقعات پر اگرنظر ڈالی جائے
تورُوح کانپ اُٹھے۔
میں پھر کہوں گا کہ ہم بس واقعات کو پڑھتے یا سنتے ہیں اُن کا اثر نہیں
لیتے۔قصور شہر سے لے کر لاڑکانہ تک کی معصوم بچیوں کو حوس کا نشانہ بنا کر
مار دیا جاتا ہے۔ہم اب اور کتنا گِریں گے؟؟؟
کیوں ہمارے دل پھٹ نہیں جاتے؟کیوں ہمیں اﷲکا خوف نہیں رہا؟ایسے سنگین
معاملات پر جب سزا کی بات آتی ہے تویا تو قانون ہی نہیں،قانون ہے تواس پر
عمل ہی نہیں کچھ ایسا ہی ہوتا ہے ہمیشہ۔
حکمران کہتے ہیں کہ ایسا کوئی قانون نہیں کہ سرِعام پھانسی دی جائے کسی شخص
کو۔تو بھئی انتظار کس کا ہے؟ڈونلڈٹرمپ کا؟وہ آکے بنائے گا؟
کیوں نہیں کرتے قانون سازی۔ کیوں نہیں دیتے عبرتناک سزاایسے جانوروں کو۔
شاید جانوروں سے بھی بدتر۔
ہماری تاریخ روشن ہے بہت لیکن حال تاریک ہے ابھی تک۔ خدارا حکمران اپنی ذمہ
داریاں سمجھیں اور عوام اپنی۔ورنہ یہ اندھیرے مقدر نہ بن جائیں ہمارا۔
بات کو میری سن لو تم یہ بات بہت باریک ہے
اپنا آپ بدل لوورنہ مستقبل پھر تاریک ہے |