بہت عرصہ پہلے ایک سانحے نے مجھے جذباتی تنا ؤ کا شکار کر
دیا تھا۔ انہی دنوں ایک ہل سٹیشن پر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہاں قدرت کے قرب
نے میرے اندر کے احساسات کے نازک تاروں میں جمال رب عظیم کے پیش قیمت موتی
پرو دیے۔ پھر تویوں ہونے لگا کہ میرے من کی تمام کدورتیں دھلنے لگیں ۔ نفرت
کی بھٹی میں میرا تن بدن جل کر خاکستر ہوا ہی چاہتا تھا ۔ لیکن نجانے کیسے
خیالات کی رعنائیوں کی آ ماجگاہ بن گیا۔شاید یہ سب کچھ وہاں کے نیلے شفاف
آکاش ، دلکش ، حسین ،پربتوں اور میٹھی مدھر چاندنی کا حیرت انگیز کارنامہ
تھا۔
فطرت کی ضیاء کاریوں نے کبھی نہ کبھی آپ کی ذات کے بند در بھی ضرور کھو لے
ہوں گے ۔ بلکہ میں تو یہ کہوں گی کہ حسین نظارے ایک ماہر نفسیات کی طرح
دھیرے دھیرے ھماری روح کے زخموں پر پھائے رکھتے ہیں۔ یہ نہ ہوتا تو روز و
شب کی مصروفیات کے جنجال سے گبھرا کر خلق خدا شہروں سے دور پر فضا مقامات
کی آغوش میں کیوں بھاگتی۔ ان دنوں میں میں بے حد پریشان اور اداس رہا کرتی
تھی۔ امید کے سارے دیپ ایک ایک کر بجھ چکے تھے۔ ایسے میں اس ہل اسٹیشن کی
ہر صبح سورج کی پہلی کرنیں اپنے پنکھ پھیلائے چلی آتیں ۔اونچے پہاڑوں پر
ہرے بھرے پیڑ لہلہا کر اور گیت گا کر ایک نئے دن کا استقبال کرتے۔ شام کو
ہوٹل کی بالکونی میں چودھویں کا چاند اپنی نرم و نازک کرنیں میری جانب
بھیجا کرتا۔ ان کرنوں کی اٹھکیلیوں نے آ خرکار میرے غم کی گھنیری چھاؤں میں
بسیرا کر ہی لیا۔پھر یوں ہونے لگا کہ جب بھی میں ہوٹل سے باہر چہل قدمی
کےلییےنکلتی تو کسی گیت کے بول میرےلبوں پر ہوتے ۔ دل ہی دل میں پربتوں کے
حسن کے لیئےدعائیں مانگتی۔ کیونکہ ان کی جادوگری نے میرے اندر کے اجڑے
موسموں میں بہار کے پھول کھلا د یئےتھے۔
آج بھی جب راہ حیات میں کہیں چلتے چلتے کانٹے پیروں کو لہولہان کر دیتےہیں
تو اس ہل اسٹیشن کا آکاش ، چاند اور پربت میرا غم بٹانے چلے آتے۔ آکاش کی
سمت دیکھتی ہوں تو مجھےیہ اپنی بلندیوں کی طرف بلاتا محسوس ہوتا ہے۔ مجھے
اس کے اعلی ظرف پر حیرت ہوتی ہے۔ کس قدر بلند حوصلگی سے اس نے اپنے دامن
میں بے شمار ننھے منھے تاروں کو جگہ دے رکھی ہے۔ اسی دامن میں جہاں سورج کا
رعب وجلال ہے تو وہیں پر چاند بھی اپنی تمام تر معصومیت کے ساتھ جلوہ گر
ہے۔ گویا ذندگی کے بے شمار رنگ ہیں۔ کبھی یہ تاباں ہے تو کبھی ہراساں۔ ہمیں
اس کے ہر لمحے کے ہر حصے میں حوصلے کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیئے۔بلکہ پربتوں
جیسی سختی کے ساتھ اپنے ارادوں پر قائم رہنا چاہیئے۔ تبھی ہماری دنیاؤں کے
چاند مسکراتے رہیں گے۔کیونکہ چاند کے چہرے پر مسکراہٹوں کی کشید ہمارے اپنے
خون جگر سے ہوتی ہے۔ جیسے چمن میں گلابوں کے گل خوں رنگ مالی کی محنتوں کا
اعجاز بن جایا کرتے ہیں۔یہی وہ پیغام ہے جو قدرت کے انمول شاہکار ہمیں دیتے
نظر آتے ہیں۔ |