یہ کیسا دستورِ زبان بندی ہے تیری محفل میں؟ بات پر
واں زبان کٹتی ہے! پاکستان کی سیاست اور طاقت کے ایوانوں میں گذشتہ70 سالوں
سے ایک کشمکش سی چلی آتی ہے۔قائد اعظم سے بد اخلاقی پر جب ایوب خان کے بیجز
اتروا کر اس کو مشرقی پاکستان میں او ایس ڈی لگا دیا گیا تھا تو اُسی دن سے
اس جنرل نے سوچ لیا تھا کہ جب بھی موقع ملا وہ پاکستان کی سیاست کی اینٹ سے
اینٹ بجا دے گا۔اور پھر موقع ہاتھ آتے ہی اس نے پاکستان کی سیاست میں وہ
گھناؤنا کھیل کھیلا جس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی ہے۔سب سے پہلے قائد کے
بنائے گئے دارلحکومت کو اس نے کراچی سے محض اس لئے سمیٹا گیاکہ یہ میرے
قائد کا فیصلہ تھا ۔دوسری اہم بات یہ ہے کہ جتنے بھی لوگوں نے ہندوستان کی
بیورو کریسی سے اپنی مرضی کے ساتھ اپنے قائد کے ساتھ پاکستان کی خدمات
انجام دینے کیلئے کی حامی بھری تھی ۔اُن تمام ایماندار بیوروکریٹس کو اس
ظالم نے بیک قلم نکال باہر کیا رہی سہی کسر اسک متنیٰ نینکال دی تھی۔قائد
اعظم کے ساتھیوں یعنی بانیانِ پاکستان کو چاہے ان کا تعلق بنگال سے تھا یا
ہندوستان کے دیگر علاقوں سے،اُن سب کو اس نے بھر پور طریقے سے بے عزت
کیا۔اور کراچی میں بسنے والیبانیانِ پاکستان کے لئے جب انہوں نے اس کی بد
عنانیوں پرآواز اٹھائی تو اس نے واضح الفاط میں کہہ دیا تھا کہ ہندوستان سے
تو تم لوگ پاکستا آگئے ہو اب آگے تمہارے لئے سمندر(بحرِ عرب) ہے۔چوتھی اور
سب سے اہم اس جنرل کی گُستاخی یہ تھی کہ اس نے قائد اعظم محمد علی جناح کی
بہن محترمہ فاطمہ جناح جن کو قوم مادرِ ملت کے لقب سے پکارتی تھی پر وطن سے
غداری کاگھناؤناکا الزم لگادیا تھا۔ایسے بے ضمیر غداروں پر کوئی غداری کا
الزام نہیں لگاتا ہے! جنہوں نے میرے قائد کے بنائے ہوئے پاکستان کا نقشہ
لوگوں کو غدار کہہ کہہ کر بدل ڈالنے میں سب سے اہم کردار ادا کیا تھا!جنرلز
کے پُجاری اور پرویز مشرف جیسے غدارِ وطن کے طرفدارعمران خان نیازی جیسے
لوگ تو آج بھی جمہوریت کے دعویدار ہونے کے باوجوب غاصب جنرل ایوب خان کو
اپنا ہیرو بتاتے ہیں! ایسے بے ضمیر سیاست دانوں پر پوری قوم لعنت نہ بھیجے
تو کیا کرے؟
نیرنگیِ سیاست تو دیکھئے !منزل انہیں ملی جو شریکِ سفر نہ تھے۔بے نظیر کو
ان ہی ضمیر فروشوں نے سیاست کے راستے سے ہٹا یا، جنہیں احساس تھا کہ ان کی
سیاست اور طاقت اب پا کستان میں چلنے والی نہیں ہے۔بے نظیر کو رستے سے
ہٹانے کے بعد اس بے ضمیر ٹولے نے جس کو یہ اندازہ تھا کہ سیاست کے ایوان اب
مضبوط ہوا چاہتے ہیں۔لہٰذامضبوط اور طاقتور سیاست دان کو راستے سے ہٹوانے
کے لئے ایک نئے راستے کا انتخاب کیا ۔جس پر چل کر پاکستان کے یہ چندطاقتور
دشمن کامیاب بھی ہو گئے۔
اور مزے کی یہ بات ہے جس بات پر ساری دنیا میں با بانگ دہل آواز اٹھائی جا
رہی تھی،تقریباََ ہر میڈیا نے اس پر بھر پورے تبصرے بھی کئے ۔ جب اُس بات
پر نواز شریف جو پاکستان کے طاقتور ترین سیاسی رہنما تھے اور تین مرتبہ
وزارت عظمیٰ کے منصب پر بھی اس قوم نے فائض کیا پر غداری کا لزام ان ہی
لوگوں کی طرف سے لگا دیا گیا۔ جو پاکستان کے اقتدار پر پسِ پردہ براجمان
اپنے حامی مصنوعی سیاست دان کے ذریعے قابض رہنے کے خواب دن کے اجالے میں
دیکھ رہیں۔ جبکہ ایک ڈکٹیٹر اور پاکستان کا غدارِ وطن کھل کر یہ کہتا ہے کہ
کشمیر میں ہم لشکرِ طیبہ کے ذریعے ہندوستانی فوجیوں سے جنگ کرا رہے تھے۔جس
سے ساری دنیا میں پاکستان کی سُبکی اور کشمیر کاذ کو نقصان ہو رہا ہے۔ تو
وہ غدار نہیں !اور نواز شریف کو ممبئی حملے پر لب کھولنے پر وہ سب بیک زبان
بول اٹھے کہ پاکستان کا مقبو ل ترین رہنما نواز شریف غداری کا مرتکب ہوا
ہ؟اس سادگی پر کون نہ مر جائے اے خدا!
مشرف کو غدارِ وطن نہ ماننے کے بعد ایک نیا نام اس حوالے سے ناصرف پاکستانی
میڈیا بلکہ کے دنیا کے میڈیا پرگردش کر رہا ہے۔یہ بات ہمیں ذہن نشین ہونی
چاہئے کہ سیاست دان کو تو غدار بنایا جاسکتا ہے مگر کوئی جنرل نہیں!سیاست
دان اور سیول سوسائٹی اس پر چاہے جتنا وا ویلا کر لے کسی جنرل کا کچھ بھی
اس ملک میں ہونے ولا نہیں ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہمیشہ بندوق کی نوک کے نشے میں
مبتلا رہنے والے ہیں۔اسد درانی جو آئی ایس آئی کے سابق چیف رہے ہیں انہوں
ہنداستان کے سابق ’’را‘‘ چیف اے ایس دولت کے ساتھ مل کرایک کتاب ’’اسپائی
کرانیکلز:را آئی ایس آئی اینڈ اِلوژن آف پیس‘‘کے نام سے کتاب لکھ کرنیک
نامی کا ایک نیا باب رقم کر دیا ہے۔آئی ایس آئی چیف نے پسِ ِ پردہ کیا کچھ
باتیں نہیں کی ہوں گی؟ اس کا کسی کو اندازہ ہی نہیں ہے۔سابق وزیرِ اعظم
پاکستان نواز شریف نے مطالبہ کیا ہے کہ سابق آئی ایس آئی سربراہ کی اس مذم
حرکت پر فوری طور پر قومی سلامٹی کمیٹی کا اجلاس بلایا جائے۔تاکہ دودھ کا
دودھ پانی کا پانی پوری قوم کے سامنے آجائے کہ غداری کا مرتکب ایک سیاست
دان ہے یا ایک سابق جنرل جو پاکستان کی انٹیلی جنس کا سربراہ بھی رہا ہے؟
نواز شریف نے واضح الفاظ میں کہا ہے کہ ایک وقت میں دو حکومتیں نہیں چل
سکتیں۰جیسا کہ آج ہو رہا ہے)سابق چیئر مین سینٹ رضا ربانی نے سابق آئی ایس
آئی چیف پر سخت تنقید کرتے ہوئے کا کہا ہے کہ ’’ایسی کتاب کوئی سیاست دان
لکھ دیتا تو اُس پر غداری کے فتوے( طاقت کے سرچشموں ،مفتیاںِ سیاست و سماج
کی جانب نے سے)لگتے۔عام شہری بھی اگر ایسی بات کرتا تو اس وقت پورے ملک میں
احتجاج ہو رہے ہوتے۔کیا کہ جنرل اسد درانے کتاب لکھنے سے پہلے حکومت سے
اجازت لی تھی؟ہم سمجھتے ہیں کہ بعض جنرلز اس قدر رعونت میں ہوتے ہیں اُن سے
کوئی سوال کرنے کی ہمت کسی میں ہے ہی نہیں۔
اخبارات میں یہ خبر لگی ہے کہ جنرل درانی کو جی ایچ کیو میں اپنی پوزیشن
واضح کرنے کے لئے 28 مئی کو طلب کر لیا گیا ہے۔کیونکہ مذکورہ کتاب میں بہت
سے موضوعات حقائق کے بر عکس بیان کئے گئے ہیں۔دوسر ی اہم بات یہ ہے کہ
ریٹائرڈ جنرل درانی نے ملٹری کوڈ آف کنڈکٹ کی بھی خلاف ورزی کی ہے۔ پاکستان
کے عوام منتظر ہیں کہ جنرل درانی کی اس حرکت کو کیا سمجھا جائے ؟کیونکہ ایک
عمومی بات پر تو تین مرتبہ وزیر اعظم پاکستان رہنے والے، ایک محبِ وطن
سیاست دان کو ہر جانب سیغدار غدار کہہ کر معتوب کیا گیا ہے۔اگر سیاست دان
عمومی بات بھی بولے تو غدار جنرلز کچھ بھی کہتے رہیں اورپرویز مشرف کی
بکواس سننے کے باوجود بھی سُمن بُکمُنکے آثار دیکھے جاتے ہیں۔
|