ٹیلی فون کی مترنم آواز نے میرے اوسان بیدار کردیے،
آنکھیں بند تھیں، اسپیکر آن ہوتے ہی آواز سنائی دی، دیکھو، قادر۔۔ اگر
اس طرح سوتے رہو گے تو کھوتے رہوگے۔ میں فوراً ہڑبڑاکر اٹھا۔ یہ شوکاز وائس
میسیج تھا جو خان صاحب کی جانب سے ہر اُس شہری کو ملتا تھا جو وقت پر اٹھتے
نہیں تھے اور اپنے کام میں کاہلی کرتے تھے۔ میں بڑا سست طبع اور کام تاخیر
سے کرنے کا عادی رہا ہوں، اس لیے پاکستان میں نئے نظام اوقات کے مطابق میرا
نام‘ واچ لسٹ’ میں شامل کرلیا گیا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ تاخیر سے اٹھنے پر
خان صاحب کا شوکاز وائس میسیج مجھے بھیجا گیا۔ اگر مزید تاخیر ہوتی تو
بھاری جرمانہ بھی عائدکردیا جاتا۔ فوراً تیار ہوکر گھر سے باہر نکلا،
کیونکہ میں نے ناشتہ نہیں کیا تھا، اس لیے وقت پر ہیلی کاپٹر کے پاس پہنچ
کر سوار ہوگیا۔ (خصوصی اسائنمنٹ کے لیے خصوصی انتظامات کیے جاتے تھے)
بیٹھتے ہوئے سیٹ بیلٹ باندھنا نہیں بھولا تھا۔ چھٹی کرنے کا تصور نہیں تھا
کیونکہ وزرات صحت نے ایسا ماحول فراہم کیا ہے جس کے بعد کسی شہری کے بیمار
ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا۔ ماحولیاتی آلودگی کے تحفظ کی وزارت
ختم کردی گئی تھی، کیونکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔ ہر شہری ماحولیاتی
آلودگی کا خود خیال رکھتا تھا۔ ترین صاحب نے اسلام آباد کی سب سے بڑی
لائبریری کے سامنے مجھے اُتار دیا۔ یہ پہلے وزیراعظم ہائوس ہوا کرتا تھا
لیکن خان صاحب نے اپنے انتخابی وعدے کے مطابق صدارتی محل، وزیراعظم ہائوس
سمیت تمام صوبوں کے گورنرز اور وزرائے اعلیٰ ہائوسز کو یونیورسٹیوں اور
لائبریریوں میں تبدیل کردیا تھا۔آج قومی سلامتی کونسل کا اجلاس تھا۔ بڑے
اہم فیصلے کیے جانے تھے۔ میڈیا پرسنز کو کسی بریکنگ نیوز کی امید نہیں تھی
اور کوئی نیوز لیک کا بھی امکان نہ تھا۔ یہ قومی سلامتی کونسل کی اوپن
میٹنگ تھی، جس کی کارروائی براہ راست نشریاتی اداروں سے دکھائی گئی تھی،
کیونکہ چھپانے کو کچھ تھا ہی نہیں۔ خان صاحب کی انقلابی سوچ کی وجہ سے
بھارت نے تسلیم کر لیا تھا کہ کشمیر کبھی بھارت کا حصہ نہیں رہا، بھارت نے
اعتراف کیا کہ آج تک ہمیں مسئلہ کشمیر پر کسی نے اس طرح نہیں سمجھایا، جس
طرح خان صاحب نے بریف کیا۔ لہٰذا بھارت نے مقبوضہ کشمیر سے اپنی تمام فوجیں
واپس بلا کر کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دے دیا تھا۔ جموں کشمیر
پاکستان میں شامل ہو گئے۔ قومی سلامتی کونسل میں بتایا گیا کہ کامیاب خارجہ
پالیسیوں کی وجہ سے چونکہ افغانستان میں خانہ جنگی ختم ہو چکی ہے، بھارت کے
ساتھ کشمیر کا تنازع حل ہو گیا ہے، سیاچن سے دونوں ممالک اور افغانستان سے
امریکا اپنی فوجیں واپس بلا چکے ہیں۔ پاکستان کے خلاف دراندازی ختم کر کے
بھارت معافی مانگ چکا ہے، اس لیے خان صاحب مسلح افواج میں کمی کرنا چاہتے
تھے۔ ملک میں جرائم کے خاتمے کی وجہ سے پولیس کا محکمہ ختم کر دیا گیا تھا۔
چونکہ عدالتوں میں کوئی سائل نہیں آتا تھا، اس لیے وزارت قانون و انصاف کا
بھی کوئی کام نہ تھا۔ ماحولیاتی آلودگی کے خاتمے، صاف پانی اور بنیادی صحت
کی فراہمی کے بعد وزارت صحت کی بھی ضرورت نہیں رہی تھی۔ ملکی و غیر ملکی
قرضے ختم ہو چکے تھے اور عوام کو سود کی مد میں ٹیکس نہیں دینے پڑتے تھے۔
خان صاحب نے انقلابی فیصلہ کیا تھا کہ جب ہمارا کوئی دشمن نہیں تو فوجوں کی
کیا ضرورت۔ ان کی توجہ اسرائیل کی جانب مرکوز کرائی گئی تو خان صاحب نے
بتایا کہ میثاق مدینہ کی طرز پر یہودیوں سے معاہدہ کر لیا ہے، اس لیے اب
یہودیوں سے مملکت کو کوئی خطرات نہیں۔ جب ان سے کہا گیا کہ یہودی لومڑی صفت
ہیں، دھوکا کرتے ہیں تو انہوں نے بڑے تحمل سے کہا کہ میں نے ضمانت لے لی ہے۔
کیا مجھ سے زیادہ جانتے ہو کہ یہودی کتنے چالاک و دھوکے باز ہوتے ہیں۔ ایسے
میں، راقم نے محسوس کیا خان صاحب کی آنکھوں میں ہلکی سی نمی آ گئی تھی،
وجہ پوچھی تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا ‘کہ ہر بات بتائی نہیں جاتی’۔خان
صاحب کے انقلابی نظام کی بنیاد اُس وقت پڑی، جب انہوں نے قبل ازوقت
انتخابات 100دن کا منشور پیش کیا تھا۔ پھر ایک کروڑ نوکریوں اور 50 لاکھ
گھروں کی تعمیر جیسے وعدوں کو وقت سے پہلے مکمل کر دیا تھا، اس بار پشاور
گرین بس جیسی غلطی نہیں دوہرائی گئی تھی۔ خان صاحب نے ہر صوبے میں ایک ارب
درخت لگانے کا منصوبہ پیش کیا، 22 کروڑ عوام میں سے بے روزگار افراد کو
‘صبر کے میٹھے پھل ’والے پودے دیے کہ انہیں اُگائیں۔ درختوں سے پھل ملیں گے،
اسے بیرون ملک برآمد کرنے سے ملک میں قیمتی زرمبادلہ بھی آئے گا اور
روزگار کا مسئلہ بھی حل ہو جائے گا، پھر چین کی مدد سے تیزی سے بڑھنے والے
صبر کے میٹھے پھل بنانے کے منصوبے کو شروع کیا گیا۔ سات صوبوں میں 7 ارب
‘صبر کے میٹھے پھل’ والے درخت لگے۔ جو ون روڈ ون بیلٹ منصوبے کے راستے پوری
دنیا میں پہنچائے جانے لگے۔ کھربوں ڈالر، پونڈ، یورو، ریال، دینار، ین اور
یوآن پاکستان منتقل ہونا شروع ہوئے، زرمبادلہ کے بے اندازہ ذخائر بڑھتے ہی
سب سے پہلے تمام ملکی و غیر ملکی قرض اتار دیا گیا۔ اسٹیل مل، پی آئی اے
اور ریلوے کو خسارے سے نکال دیا گیا۔خان صاحب نے بھارت اور افغانستان سے
ڈائیلاگ شروع کیے۔ اُن کے لب و لہجے میں اتنی شیرینی تھی کہ کئی بار
افغانستان کے صدر و بھارتی وزیراعظم کو انسولین کے انجکشن لگانا پڑے۔
افغانستان ڈیورنڈ لائن تسلیم کر چکا تھا، کیونکہ اب پاکستان امریکی قرضوں
سے آزاد ہونے کے بعد آزاد مملکت تھا۔ سی آئی اے کی پاک۔ افغان امور میں
مداخلت ختم ہو چکی تھی۔ خان صاحب نے مدبرانہ دلائل و براہین سے بھارت اور
افغانستان کے سربراہان مملکت کو ایک ہی گیند میں آؤٹ کر دیا تھا۔ بھارت
اپنی بڑھتی آبادی اور غریبی کی وجہ سے بہت پریشان تھا۔ خان صاحب نے انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر امداد کی اور فٹ پاتھ پر سونے والے بھارتیوں کے لیے
ایسے بستر دیے جو دن میں بیٹھنے اور رات کو لیٹنے کا کام دیتے تھے۔ سیاحت
کے انقلابی پروگرام میں سیاحوں نے پی آئی اے کی مارخور تشہیری مہم کی وجہ
سے گلیات، سوات، کراچی، پشاور اور لاہور میں ڈیرے جما لیے تھے۔ سیاحت کے
انقلابی پروگرام کی وجہ سے دنیا بھر سے سیاحوں کی آمدورفت کے سبب مری
والوں نے اپنا رویہ تبدیل کر لیا تھا، اب وہاں پکوڑے چودہ سو روپے کلو میں
فروخت نہیں کیے جاتے اور نہ ہی کسی سیاح کے ساتھ بدتمیزی کی جاتی ہے۔ دو
سیاح کے ساتھ ایک سیاح مفت سکیم متعارف کرائی گئی، جس میں ریاست کی جانب سے
انہیں تین وقت کا مفت کھانا اور گھومنے کے لیے خصوصی پیکیج بھی دیا جاتا
تھا، تاکہ انہیں یہ محسوس نہ ہو کہ انہیں لوٹ لیا گیا ہے۔ جگہ جگہ سرکلر
ٹرینیں تھیں، جن کا کرایہ نہ ہونے کے برابر تھا۔ بجلی سے چلنے والی
ٹرانسپورٹ بھی ملک میں پیدا ہونے والی توانائی کے وافر ذخائر کی وجہ سے
سستی پڑتی تھی۔ بے شمار ڈیموں کے باعث پاکستان میں پانی کے اتنے ذخائر تھے
کہ افریقا جیسے قحط زدہ خطوں میں بحری جہازوں کی مدد سے صاف شفاف پانی بطور
امداد بھیجا جاتا تھا۔یہ سب خان صاحب کے انقلابی پروگرام کی وجہ سے ممکن
ہوا تھا۔ ایک نئے پاکستان کی بنیاد نے مضبوط ملک کو جنم دیا تھا۔ یہ ایک
انقلابی سوچ تھی کہ جب ایک منٹ کے اندر ایٹم بم گرانے سے کروڑوں انسان مر
سکتے ہیں تو ایک ایسا بم کیوں نہیں بنایا جا سکتا جس سے کروڑوں انسانوں کو
بدل دیا جائے۔ آج میرے پاس تمام سہولتیں ہیں، کھانے پینے، رہنے اور تمام
بنیادی ضروریات کی ذمے داری فلاحی مملکت پر ہے، مجھے لفافہ لینے اور تنخواہ
بڑھانے کی درخواست دینے کی بھی ضرورت نہیں رہی، کیونکہ ریاست اپنی تمام ذمے
داریاں پوری کر رہی ہے۔ ایک مکمل فلاحی ریاست کے تصور کی کامیابی کی وجہ سے
400سے زائد سیاسی جماعتوں کا بھی خاتمہ ہو چکا تھا۔ جلسے جلوس اور دھرنوں
کی سیاست ختم ہوچکی تھی، کیونکہ عوام خان صاحب کے احسان مند تھے۔ راقم نے
اپنی گناہ گار آنکھوں سے رات کی تاریکی میں حاکم وقت کو اپنے کندھے پر
آٹے کی بوری لے جاتے دیکھا۔ آگے بڑھ کر عرض کی کہ کہاں لے جا رہے ہیں،
کیا اس کا حساب دیا ہے۔ جس پر حاکم وقت نے آٹے کی بوری رکھ کر پرچیاں
دکھائیں کہ فلاں فلاں وقت یہ آٹا آیا تھا، جس میں کچھ بچ گیا تھا یہ اس
کی پوری ٹریل ہے۔ میں اسے مال خانے میں جمع کرانے جا رہا ہوں۔ یہ دیکھ کر
میں شرمندہ ہوا اور میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور میں زار و قطار
رونے لگا۔ |