بین الاقوامی سطح پر بدعنوانوں کی فہرستوں میں پاکستانیوں
کے نام نکلے ، بے تحاشہ جرائم ثابت ہوئے، کرپشن کہ نئے ریکارڈ قائم ہوئے،
غربت سسک سسک کر قریب مرگ ہوئی، امراء محلات کی تعمیر میں مشغول رہے، کبھی
پیٹرول بم گرا تو کبھی ڈالر نے دھماکہ کیا، عدالت کی حکم عدولیاں ہوئیں،
سڑکوں پر فیصلے کرنے کی کوششیں ہوئیں، مجرموں کی پیشیاں اور انکے استعمال
کی گاڑیاں اور گاڑیوں پر گل پاشیاں، ججوں کا کورٹ سے نکل کر عوامی مسائل کا
جائزہ اور عملوں کی بد حواسیاں، فوج پر الٹی سیدھی غلط بیانیاں، ملک کے
خلاف بولتے ہوئے بھی غدارنا کہلائے جانے پر ضد کرنا، ملک کے وزیر اعظم کا
امریکہ میں ہونے والا سلوک، پرچیوں کو پڑھ کر بولنا، جمہوریت کے نام پر
بادشاہت قائم کرنے کی خواہش وغیرہ وغیرہ۔ مذکورہ امور صرف اپنی یاد دہانی
کیلئے تحریر کئے ہیں کیونکہ اب یہ سب کچھ تاریخ کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہ وہ
سب کچھ ہے جو ہم پچھلے پانچ سالوں میں دیکھتے اور سنتے آئے ہیں۔ ہم بارہا
اپنے مضامین میں قومی بے حسی کا نوحہ بیان کرتے آئے ہیں ، ایک بار پھر یاد
دہانی کروا دیتے ہیں کہ کیا کوئی مجرم سرے عام نکلے اور لوگ اس پر پھولوں
کی پتیاں نچھاور کرے یہ صرف اور صرف پاکستان میں ہی ہوسکتا ہے ۔ جیسا کہ ہم
سب ابھی تک دیکھ رہے ہیں۔ بے حسی کی آنکھوں پر بندھی پٹیاں کھول دو ہم سب
نے اللہ کے حضور پیش ہونا ہے وہاں حقائق جوں کے توں موجود ہونگے اور کوئی
آئیں بائیں شائیں نہیں چلے گی اور دنیا کا کوئی وفادار وہاں وفاداری نبھانے
نہیں پہنچنے والا۔
گزشتہ روز ایک نئی آب و ہوا اسلام آباد کی وایوں میں چلتی دیکھائی دی ،
جسکے لئے امید کی جا رہی ہے کہ اگلے تین ماہ تک ایسی ہی آب و ہوا کا سامنا
عوام الناس کو کرنا پڑے گا۔ حکومت اور حکومت مخالف (اپوزیشن) نے ایک مشترکہ
پریس کانفرنس میں ملک کو نگران وزیر اعظم کا نام سابق چیف جسٹس ناصر الملک
پیش کردیا ہے ۔ ٹیلی اور پرنٹ میڈیا سے تو ایسا لگ رہا تھا کہ نگران حکومت
کا معاملہ بھی کسی کمیٹی کے پاس جائے گا اور پھر یہ فیصلہ الیکشن کمیشن کو
کرنا پڑے گا۔واضح نظر آرہا ہے کہ اپوزیشن نے یہ بات بھانپ لی تھی معاملہ
جتنا آگے جائے گا اتنا ہی پیچیدہ ہوتا چلا جائے گا دوسری طرف انتخابات بھی
کسی حد تک اسی وجہ سے تعطل کا شکار ہوجائینگے جس کے لئے سوائے حکومتی جماعت
کے دوسری کوئی جماعت تیار نہیں ہے۔ اس بات کو بھی خاطر میں رکھیں کہ ہمارے
قابل احترام سید خورشید شاہ صاحب جمہوریت کے بڑے دلدادہ ہیں اور انکی
جمہوری اقدار کی بالادستی بھی اس نگران حکومت پر اتفاق کرانے میں اہم ثابت
ہوئی ہے، کیونکہ حکومتی جماعت کو اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ جمہوریت
کو دوام دیا جائے یا آمریت کے لئے راہیں ہموار کی جائیں۔ وہ تمام لوگ مبارک
باد کے مستحق ہیں جو حکومت کو پانچ سال مکمل کرنے پرجمہوریت کی فتح سمجھ
رہے ہیں۔ پاکستان میں شرح خواندگی سے تو سب ہی اچھی طرح واقف ہیں اور جو
خواندگی کی شرح میں آتے ہیں ان میں پہلا طبقہ ایسا ہے جس کا سیاست سے دور
دور تک کچھ لینا دینا نہیں ہے ،دوسرا طبقہ ایسا ہے جسے یہ بھی نہیں پتہ کہ
سیاسی نظام کیا ہوتے ہیں ،جنہیں کتابوں میں لکھے ہوئے نظاموں سے تو واقفیت
ہو، انکی خوش قسمتی کہ انہیں زمین و جائداد کی طرح حکمرانی بی وراثت میں
ملی ہے اور جو کرنے والے ہمیشہ سے انکے خاندانی کام کر رہے ہیں کام وہی
کرتے ہیں، آخری اور تیسری قسم اس طبقے کی ہے جو خواندہ تو ہوتا ہے لیکن
معاش کے حصول کی دلدل میں اس بری طرح سے دھنسا ہوتا ہے کہ وہ کیا کسی سیاسی
جھمیلے میں پڑے گا بلکہ وہ تو اپنی زندگی گنوادے گا اور اس نظام کو گالیاں
دیتے دیتے یا تو خود کش حملہ آور بن جائے گا یا پھر خود کشی کرلے گا۔
طبل جنگ بج چکا ہے ، انتخابات کی تاریخ کا اعلان ہوچکا ہے اللہ رب العزت نے
چاہ تو پاکستان میں ۲۵ جولائی بروز بدھ عام انتخابات کا انعقاد ہوگا۔ یوں
تو گزشتہ پانچ سال ایسی گہما گہمی رہی کہ لگتا تھا کہ اب حکومت گئی ، اب
فوج آئی یا اب نئے انتخابات ہوئے لیکن جمہوریت کی کشتی کو کھینچنے والے
اپنی جان پر ظلم سہتے گئے جیسے تیسے بیرونی امداد لے کر اندرونی ایندھن جلا
جلا کر ساحل پر لے ہی آئے اور پاکستان میں ایک جمہوری مزاج کی داغ بیل
ڈالنے کی کوشش کا عملی مظاہرہ دیکھنے میں آیا۔ اب ایک انتہائی غور طلب بات
یہ ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کو اپنے انتخابی
عمل کا حصہ بنائے گی اور جنوبی پنجاب کے لوگوں کی ظاہری ہمدردی جو شائد صرف
۲۵ جولائی تک کے لئے ہی کیوں نا ہو چاہئے اس کے برعکس سندھ میں جنوبی سندھ
کو صوبہ نا بنانے کی بات کرکے اندرونے سندھ میں سیاست کا کھیل رچائے گی ۔
کسی بھی سیاسی جماعت کا اتناواضح دوہرا میعار کیا عوام قبول کر لے گی ۔
اگلے تین ماہ میں پاکستان پیپلز پارٹی ہمیں یہی سب کرتی دیکھائی دے رہی ہے
اگر انکا اگلا سیاسی منشور کچھ ایسا ہی ہے تو پھر انکو شکست سے کوئی نہیں
روک سکتا۔ قوی امکان ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی مخلوط یا پھر سیاسی
اور مفاداتی گٹھ جوڑ کی بدولت ترتیب پائینگے جسکی وجہ سے وفاق کمزور رہے گا۔
وفاق کی کمزوری کا مطلب ہے کہ ملک میں کوئی بڑا کام نہیں ہوسکے گاجیسا کہ
جنوبی پنجاب اور سندھ کے صوبے یا پھر اور مختلف صوبے۔ اب یہ کہنا قبل از
وقت تو ہے کہ لیکن قوی امکان ہے پاکستان تحریک انصاف اکثریت میں تو ایوان
میں پہنچ جائے لیکن جیساکہ پہلے کہا گیا کہ واضح اکثریت کا ملنا اس لئے رد
نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ہمارے یہاں کام کرنے والوں کو پسند نہیں کیا جاتا
انکے حق میں نعرے بھی لگائے جاتے ہیں محفلوں میں انکی اچھائیوں کے تذکرے
بھی کئے جاتے ہیں اور جہاں ضرورت پڑے تو واہ واہ بھی کی جاتی ہے لیکن جب
وقت آتا ہے ووٹ کا تو ووٹ مخصوص نشانوں پر ہی لگائے جاتے ہیں جیسا کہ ماضی
میں ہوتا رہا ہے ۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہونی چاہئے کہ عمران خان نے
پاکستانی عوام کو جنجھوڑ کے رکھ دیا ہے لیکن کیا یہ قوم حقیقت کو تسلیم
کرتے ہوئے اپنے آبائی اور جدی پشتی ذہنیت سے نکلنے کے قابل بھی ہوگئی ہے یا
پھر صرف اور صرف اپنے مفادات کے حصول کیلئے جاگی ہے۔ ہمیں ایک بات اور اچھی
طرح سے ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ ملک کا ہر قلیدی ادارہ صحیح سمت میں پیش
قدمی کرے یا آسان الفاظ میں ٹھیک ٹھیک کام کرے تو کسی دوسرے ادارے کو کیا
ضرورت پڑی ہے کہ وہ کسی ادارے کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کرے۔ ایوان
اپنا کام احسن طریقے سے کر کے دیکھائے اور ایوان میں بیٹھنے والے اپنی اپنی
حدوں کا تعین کریں اور غیر ضروری دخل اندازی سے گریز کریں۔ عدالتوں اور
دیگر اداروں پر سیاسی دباؤ سے گریز کیا جائے تو ناصرف ادارے مضبوط ہونگے
بلکہ ملک میں بھی معاشی استحکام کی داغ بیل ڈلے گی۔ پاکستان کا بچہ بچہ
سیاسی ہے کوئی بھی کسی کو گالی دینے سے گریز نہیں کرتاایسے معاشرے سے
اچھائی توقع رکھنا بہت مشکل کام ہے ۔ معاشرے میں ایسی صورتحال بھی سیاسی
عدم استحکام کا ہی نتیجہ ہے اور سیاسی لوگوں نے پاکستان سے علم کا جنازہ
نکا ل دیا ہے ۔ پانی یہاں نہیں ہے ، بجلی کے لئے لوگ مر رہے ہیں، گیس کبھی
ہے تو کبھی نہیں ہے، سڑکوں پر بچوں کی پیدائش ہورہی ہے ، وی آئی پی ڈیوٹیوں
کے چکر میں انسانی زندگی ٹریفک میں پھنس کر تو کبھی ہسپتالوں میں بھاگ دوڑ
کر جان سے ہی گزر رہی ہیں، سڑکوں پر بھیک مانگنے والوں کی اسقدر بہتات
ہوگئی ہے کہ دیکھ کراللہ کے عذاب سے خوف آتا ہے ۔ یہ موسموں کی تلخی کی
کوئی تو وجہ ہوگی ۔ عام آدمی مر تا ہی چلا جا رہا ہے ، تقریریں ہورہی ہیں
اور صرف اپنی مظلومیت ثابت کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ عوام کا کیا حال ہے
کیا ہوتا جا رہا ہے کسی کو فکر ہی نہیں ہے۔
پورے ملک کے انتخابات ایک طرف ہیں تو ایک طرف صرف کراچی کے انتخابات ہیں
کیونکہ گزشتہ ۵ عام انتخابات میں ایم کیوایم نے کسی سیاسی و مذہبی جماعت کو
کراچی میں پیر جمانے نہیں دئیے اور بھرپور عوامی جماعت ہونے کا تاثر قائم
رکھا لیکن اب کراچی کے حالات یکسر تبدیل ہوچکے ہیں اور سب سے بڑھ کر ایم
کیو ایم بھی اب مختلف دھڑوں کا شکار ہوچکی ہے بلکہ ٹوٹ پھوٹ کا بھی شکار
ہوچکی ہے ۔ ایک نئی سیاسی جماعت سید مصطفی کمال کی قیادت میں جنم لے چکی ہے
جس میں اکثریت تو ایم کیو ایم سے آئے ہوئے لوگوں کی ہے لیکن دیگر جماعتوں
سے بھی لوگ اس جماعت کا حصہ بن رہے ہیں۔ ان کا دعوی ہے کہ یہ ملک سے نفرت
کا بیج اکھاڑ پھینکینگے ۔ ایم کیوایم کے کمزور ہونے سے دیگر سیاسی جماعتوں
جن میں سندھ کی نمائندہ جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی کراچی سے جیتنے
کیلئے پر عزم دیکھائی دے رہی ہے اور جلسے اور جلوسوں کی صورت میں کراچی میں
دیکھائی بھی دے رہی ہے ۔ پاکستان تحریک انصاف ۲۰۱۳ کے انتخابات میں ایم کیو
ایم کے بہت قریب قریب رہی یعنی ووٹوں کی گنتی میں بہت کم فاصلہ رہا لیکن اب
یہ دیکھنا ہے کہ کیا موجودہ ایم کیوایم پچھلے انتخابات کیطرح اس بار بھی
اپنے ناقدین کا منہ بند کرنے میں کامیاب ہوسکے گی۔ جماعت اسلامی جوکہ اب
متحدہ مجلس عمل کا حصہ ہے ایم کیوایم کیخلاف تحریک انصاف سے الحاق کر رسکتی
تھی لیکن اب صورتحال کچھ مختلف دیکھائی دے رہی ہے۔ یہ بات بھی خارج از
امکان نہیں رکھی جاسکتی کہ انتخابات کے نتائج کے بعد پاکستان تحریک انصاف
اور متحدہ مجلس عمل ایک ہوجائیں۔
یوں تو پچھلے پورے پانچ سال سیاسی گہماگہمی میں گزرے ہیں لیکن یہ تین مہینے
ملک کی تاریخ بدلنے میں اپنا اہم کردار ادا کرنے جا رہے ہیں۔ جلسے جلوسوں
کا بھرپور موسم آنے والا ہے ، عہدوپیماں کا موسم آنے والا ہے ، ہم اس ماہ
مبارک سے گزر کر انتخابات کے عمل کی طرف جا رہے ہیں ہمیں صحیح فیصلہ کرنا
ہے ہمیں ملک کیلئے اور ملک کے حق میں فیصلہ کرنا ہے ہمیں ، ایوانوں میں
بیٹھے ایسے لوگوں کو رد کردینا چاہئے جو سال ہا سال سے وہا ں بیٹھے ہیں
لیکن کبھی ہمارے مسائل پر دھیان تک نہیں دیا ہے ۔ اگر اپنی قسمت کو بدلنا
ہے تو ملک کو بدلنا ہوگا ملک میں چلنے والے نظام کو بدلنا ہوگا اور اس میں
کوئی شک نہیں ہے کہ حق اور سچ صرف اور صرف رہنے کیلئے ہے۔ اس ملک میں پانی
بھی برابر تقسیم کیا جائے تو سب کو مل جائے گا اور چھوٹے چھوٹے دیم بنائیں
تو اس مسلئے سے بھی جان چھڑائی جا سکتی ہے ، جس سے بجلی بھی بنائی جاسکتی
ہے لیکن ان سب کیلئے مخلص قیادت چاہئے جس کا اپنا کوئی ذاتی یا خاندانی
مفاد نا ہو۔تو تمام پاکستانی ہوشیار ہوجائیں اگلے تین ماہ کیلئے پاکستان کے
سارے سیاستدان انتہائی مخلص اور وطن پرست ہونے والے ہیں۔اب ہماری اور وطن
کی ذمہ داری ہمارے ہاتھ میں ہے۔ گزارش ہے کہ مضمون کی پہلی دو سطریں پھر
پڑھ لیں بلکہ پڑھ پڑھ کر یاد کرلیں شائد فیصلہ کرنا آسان ہوجائے۔ |