گزشتہ کچھ دنوں سے مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے
میرے مہربان، مجھ سے مولانا مینگل کی متنازعہ گفتگو کے بارے میں تسلسل کے
ساتھ کچھ سوال پوچھ رہے ہیں اس حوالے سے فون کالز کا ختم نہ ہونے والا
سلسلہ آج تک جاری ہے اس لئے میں اس حوالے کچھ الفاظ لکھنے کا قصد کیا ہے
گزشتہ کچھ دنوں میں وٹس اپ پر جو ویڈیوز موصول ہوئیں ان میں معروف عالم دین
مولانا منظور مینگل صاحب کی دوران درس تفسیر قرآن کی ایک ویڈیو شامل ہے جسے
اتنی بار مجھے وٹس اپ کیا گیا کہ میرے ٹیلی فون کا حافظہ جواب دے گیا اسی
لئے مجھے مجبورا آج قلم اٹھانا پڑا ہے تا کہ اس حوالے سے کچھ عرائض پیش
کروں۔
میں نے اپنے انتہائی مصروف شیڈول سے ٹائم نکال کر اس ویڈیو کو دیکھا اور
سنا ہے اس ویڈیومیں کیا ہے میں اس تفصیل میں نہیں جانا چاہتا اس لئے کہ
میری طرح آپ سب لوگ بھی اس ویڈیو کو دیکھ چکے ہیں اسی لئے ہی آپ میں سے بہت
سے لوگ اس حوالے سے میرا موقف جاننا چاہتے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر
غلط بات کوئی بھی کرے وہ غلط ہی ہوتی ہے ایسا نہیں ہے کہ کوئی عام شخص کسی
ٖغطی کا ارتکاب کرے تو وہ غلط ہو گی بلکہ یہی غلطی اگر میں یا کوئی بھی بڑی
شخصیت حتی عالم دین بھی کرے تو وہ غلط ہی ہو گی۔مولانا منظور مینگل صاحب نے
جس طرح کی گفتگو کی ہے میں بڑے احترام کے ساتھ ان کی خدمت میں عرض کروں گا
کہ آپ کی اس گفتگو کا بالکل بھی دفاع نہیں کیا جاسکتا۔
ساتھ ہی میں ان سے یہ بھی امید کروں گا کہ وہ آیندہ اس حوالے سے احتیاط کا
مظاہرہ کریں۔
مجھے ذاتی طور پر اس ویڈیو کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا اس لئے کہ مولانا نے
جس اندازمیں ہوسٹلز میں رہائش پذیر اسٹوڈنٹس کی تذلیل کی ہے اس پر جتنا بھی
افسوس کا اظہار کیا جائے کم ہے۔اس لئے کہ جماعت اسلامی کے مختلف اداروں سے
تعلق رکھنے والی میری بہنوں اور بیٹیوں کی ایک بڑی تعداد ہاسٹلز میں رہائش
پذیر ہے مولانا مینگل کی اس گفتگو سے ہر اس خاتون کی دل آزای اور تذلیل
ہوئی ہے جو ہوسٹلز میں رہائش پذیر ہے۔
مولانا مینگل کی اس گفتگو کا سب سے تکلیف دہ اور قابل افسوس پہلو یہ ہے کہ
جب وہ ایسی گفتگو کر رہے تھے تو قرآن مجید جیسی مقدس کتاب ان کے سامنے
تھی۔اس لئے میں یہ مطالبہ کرنے میں حق بجانب ہوں کہ مولانا اپنی اس غلطی پر
معافی مانگیں اس لئے کہ ایک طرف انہوں نے قوم کی بیٹیوں کی تذلیل کی ہے تو
دوسری طرف ن کی گفتگو علمائے حق کے وقار کو نقصان پہنچانے کا بھی موجب بنی
ہے پاکستان بھر میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کے لئے علما کام کر رہے ہیں جب
کوئی ایسی بات کی جاتی ہے تو اس پورے طبقہ کو نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے
مولانا منظور صاحب کی اس گفتگو کے بعد علما کا پورا طبقہ سیکولر اور لبرل
سوچ رکھنے والے بے دین لوگوں کے نشانے پر ہے اس صورت حال میں علما کی ذمہ
داری ہے کہ اگر اس طبقے کا کوئی ایک فرد کوئی غلط بات کرتا ہے تو پورا طبقہ
مل کر اس کے غلط اقدام کی تعریف کرنے کی بجائے اس کی مذمت کرے تا کہ پورا
علما کا طبقہ بدنام نہ ہو۔
مولانا مینگل کی انتہائی متنازعہ گفتگو کے بعد ان کے حامی علما ناصرف ان کی
گفتگو کا دفاع کر رہے ہیں بلکہ اس بات پر بضد ہیں کہ مولانا نے جن چیزوں کی
نشان دہی کی ہے وہ ہمارے معاشرے میں موجود ہے ایسے علما سے میری دست بستہ
گزارش ہے کہ اگر ایساہے بھی تو کیا اس مسئلے پر بات کرنے کا یہی انداز
اپنانا چاہیئے جو مولانا مینگل نے اپنایا؟ |