اس کرہِ ارض پر بسنے والی ساری
اقوام اپنے اپنے مفادت کی اسیر ہیں۔ انکی دوستی اور دشمنی کے سارے سوتے
انکے قومی مفا دات سے جنم لیتے ہیں اور اول و آخر اسی پر اختتام پذیر ہو جا
تے ہیں۔ مفادا ت بکھر جا ئیں تو دوستی بھی طوفانی موجوں سے پیدا ہو نے والے
بھنور میں غرق ہو جا تی ہے اور دوست کے چہرے کو پہچا ننے سے انکار کر دیا
جا تا ہے۔ہر قوم کو اپنے مفاد ات عزیز ہو تے ہیں اور انکا حصول ان کا مطمعِ
نظر۔ مختلف اقوام میں جب تک مفاد مشترک رہتا ہے دوستی کا پودا ہرا بھرا اور
تنا ور رہتا ہے لیکن جیسے ہی مفادات کے آبگینے کو ٹھیس لگتی ہے دوستی کا
محل چکنا چور ہو جا تا ہے اور اسکے سنگ ریزے دونوں اقوام کے عوام کے دلوں
کو زخمی کر دیتے ہیں۔ آج کے دوست کل کے دشمن موجودہ دور کی ا یسی کڑوی سچا
ئی ہے جس سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا یہ ہمارا ذاتی مشاہدہ بھی ہے اور
تاریخِ عالم اس کی تصدیق بھی کرتی ہے ۔سیاست کی لغت میں کو ئی دوستی مستقل
اور پائیدار نہیں ہو تی اور نہ کسی سے دشمنی مستقل اور دا ئمی ہو تی ہے
دوستی اور دشمنی کا پیمانہ قومی مفادات ہو تے ہیں لہٰذا جب تک مفادت کا
کھیل حسبِ منشا چلتا رہتا ہے قومیں با نہوں میں با نہیں ڈالے دوستی کی
شاہراہ پر بڑی شان و شوکت اور محبت سے چلتی رہتی ہیں اور دوستی کی عظمتوں
کے قصیدے پڑھتی جا تی ہیں ایک دوسرے کو باور کرا نے کی کوشش میں جٹی رہتی
ہیں کہ ہم ہر حال میں ایک دوسرے کے دوست رہیں گے اور آزما ئش کی گھڑیوں میں
ایک دوسرے کو تنہا نہیں چھو ڑیں گے لیکن یہ ایک دوسرے کو بیوقوف بنا نے اور
اپنے مفادت کو بہتر انداز میں حاصل کرنے کی ایک چال ہو تی ہے اور اس میں
چند اقوام ا کثر و بیشتر کامیا بی سے ہمکنار بھی ہو جا تی ہیں جب کہ کچھ
اقوام اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے نقصان بھی اٹھا تی ہیں کیونکہ وہ ایک ایسے
مفروضے پر یقین کر رہی ہو تی ہیں جسکا کو ئی وجود نہیں ہو تا ۔
۴۱ اگست ۷۴۹۱ کو پاکستان دنیا کے تقشے پر ایک آزاد اور خود مختار ملک کی
حیثیت سے ابھرا لیکن بھارت کو اس کا وجود ایک آنکھ نہیں بھا تا تھا کیونکہ
بھا رت کے بقول پاکستان کی تشکیل بھارت ماتا کے ٹکرے کرنے کے مترادف تھی
لہٰذا بھارت نے روزِ اول سے پاکستان کے وجود کو مٹانے کی مکروہ کوششوں کا
آغاز کر دیا۔ پاکستان کے حصے کے فنڈز روک لئے گئے اور اس کے اثا ثوں کو
منجمند کر دیا تا کہ یہ ملک مالی لخاط سے دیوا لیہ ہو کر خود ہی ختم ہو جا
ئے اور یوں بھا رتی حکمرا نو ں کو اپنے اکھنڈ بھارت کے دیرینہ خواب میں رنگ
بھرنے میں کو ئی چیز مانع نہ ہو سکے۔ کشمیر میں بھا رت نے اپنی فوجیں ا تار
کر کشمیر پر بزورِ قوت قبضہ کر کے تقسیمِ ہند کے معا ہدے کی دھجیاں بکھیر
دیں ۔ کشمیر پر بھارت کا غاصبا نہ قبضہ اس کے توسیع پسندانہ عزائم کا آئینہ
دار ہے۔ بھارتی وزیرِ اعظم پنڈت جو ہر لعل نہرو نے اس وقت کی سپر پاور سو و
یت روس سے دوستی اور محبت کا رشتہ جوڑ لیا تا کہ با ہمی اتحاد و قوت سے
پاکستان کے وجود پر کاری ضر ب لگا ئی جا سکے اور جلد یا بدیر اس کے حصے
بخرے کر کے اپنی قلمرو رو میں شامل کر لئے جا ئیں با لکل ویسے ہی جیسے
کشمیر کو اپنی مملکت میں شامل کیا تھا ۔ پاکستان کی اس وقت کی دانشمند
قیادت بھارتی حکمرا نوں کی نفسیات کو بڑی اچھی طرح سے سمجھتی تھی اور ا ن
کے سارے ہتھکنڈوں سے بخو بی واقف تھی لہٰذا وہ انکی عیا رانہ چا لوں سے
نپٹنا جا نتی تھی لہٰذا با لکل پریشان نہیں تھی ۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ قوم جس
نے لا کھوں انسانوں کی قربا نیوں سے مملکتِ خداداد کی بنیاد رکھی تھی و ہ
اسکی سالمیت اور بقا کرنا بھی جا نتی تھی لہٰذا اس حوصلہ شکن صورتِ حال سے
نپٹنے کے لئے پاکستانی قیادت نے امریکہ سے دوستی کا آ غا ز کیا تاکہ بھا رت
کی دریدہ د ر ہنی کو لگام دی جا سکے، علاقے میں اپنی پو زیشن کو مستحکم کیا
جا سکے اور دنیا کو بنا دیا جا ئے کہ پاکستان تنہا نہیں ہے۔
قائدِ اعظم کی شدید خواہش تھی کہ امریکہ سے تعلقات کو ٹھوس بنیا دوں پر
استوار کیا جا ئے تا کہ پاکستان ا پنی بقا کی جنگ بہتر انداز میں لڑ سکے۔
اس وقت کے وزا رتِ خارجہ کے تمام افراد نے اس ضمن میں بے انتہا کو ششیں کیں
تب کہیں جا کر امریکہ سے دوستی کی راہ ہموار ہو ئی۔ طاقتور کی اپنی شرا ئط
ہو تی ہیں اور ضرورت مند کی اپنی مجبو ریاں لہٰذا یہ دوستی افہا م و تفہیم
کی اسی ڈگر پر محوِ سفر رہی۔ پاکستان کو سیٹو اور سینٹو معاہدات کا پابند
ہو نا پڑا۔ جس نے عرب دنیا کے چند مما لک سے ہما رے تعلقات میں غلط فہمیوں
کو جنم دیا اور ہمیں ان سے دور کرنے میں بنیا دی کردار ادا کیا جو آج تک
اپنے اثرات دکھا رہا ہے۔ ایوب خان نے امریکہ کی شہ پر جمہو ری حکو متوں کی
بساط لپیٹ کر ملک پر ما رشل لاء نا فذ کر دیا۔ امریکہ نے ایوب خان کی فوجی
حکومت کو تسلیم کر کے پاکستان کی اقتصادی امداد کے لئے اقدا مات اٹھا نے
شروع کئے۔
امریکہ نے فوجی سازو سامان اور صنعتی ترقی میں پاکستان کی معاونت کا آغاز
کیا اور یوں ساٹھ کے عشرے میں پاکستان کی شرحِ نمود ( گروتھ ریٹ) آٹھ فیصد
کی حدوں کو چھو نے لگی ۔ ملک میں صنعتوں کا جال بچھا دیا گیا اسکی مالی
پوزیشن انتہا ئی مستحکم ہو گئی تھی ۔اسکی افواج جدید اسلحے سے لیس ہو کر
بھارت کے لئے ایک چیلنج کی صورت میں دنیا بھر میں اپنی اہمیت اجا گر کر رہی
تھی ۔ پا کستان ایشین ٹا ئیگر کے نام سے ہر سو اپنی دھاک بٹھا رہا تھا اور
اسکی صنعتی ترقی سب کےلئے مثا لی روپ اختیار کئے ہو ئے تھی۔ مغربی دنیا کی
خصوصی عنا یات کی بدولت پاکستان میں سرما یہ دا را نہ نظام کے اثر ات اور
خدو خال ظاہر ہو نا شروع ہو ئے اور ملک دھیرے دھیرے سرما یہ داروں کی گرفت
میں سرکتا چلا گیا۔ بیس گھرا نے پاکستانی معیشت اور اسکے سارے وسائل پر قا
بض ہو گئے جس نے عوام کے اندر بے چینی کی کیفیت پیدا کر دی۔ قائدِ عوام
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں لوگ جمہو ری نظام کے قیام اور ایوب خان کی
آمریت کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور دیکھتے ہی دیکھتے ایوب خان کی مضبوط
اور آہنی حکومت عوامی طوفان میں بہہ گئی اور اسے اقتدار جنرل یحیی کے حوا
لے کر کے رخصت ہو نا پڑا۔عوامی شاعر حبیب جا لب نے اس دور کی کیفیت کو بڑے
دل نشین انداز میں اپنے اشعار کے قالب میں ڈھا لا ہے آپ بھی اس دور کی عبرت
انگیز تصویر دیکھئیے ۔
بیس گھرا نے ہیں آباد۔۔ اور کروڑوں ہیں نا شاد۔۔صدر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پہ جاری ہے۔۔ کالی صدیوں کی بیداد۔۔صدر ایوب زندہ باد
میں جس زمانے کی بات کر رہا ہوں وہ سو شلزم کی د ہا ئی تھی اور سو شلزم کی
مقبو لیت اور سحر انگیزی پو ری تا با نیوں سے دیکھی اور محسوس کی جا سکتی
تھی۔سر ما یہ داری، جا گیر داری اور سرداری نظام سے نفرت اور بیس گھرا نوں
کی پاکستان کے وسائل کے قبضے نے عوام کو جذباتی بنا رکھا تھا وہ عوام کو
ملکی وسائل پر قابض دیکھنا چا ہتے تھے اور انھیں اسکے ثمرات سے بہرہ ور
ہوتا ہو ا دیکھنا چا ہتے تھے وہ ایک ایسے عوامی اندازِ سیاست کی امیدیں لگا
ئے بیٹھے تھے جس میں انکی بنیا دی ضرورتوں کا تحفظ کیا جائے اور انھیں ملکی
خزا نوں کا وارث بنا یا جا ئے وہ ترقی کے ثمرات سے خود کو آسودہ حال دیکھنا
چا ہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا بلکہ ایوب خان کی نوا زشیں ایک مخصوص ٹو لے
کے ساتھ تھیں اور یہیں سے عوامی نفرت نے جنم لیا جو سب کچھ اپنے ساتھ بہا
لے گئی۔ آج کی سرمایہ پرست فضا سے اس دور کا موازنہ نہیں کیا جا سکتا
کیونکہ اس وقت فکر و عمل کے معیار دوسرے تھے سوچ اور اندازِ سیاست جدا تھا
۔آج پاکستان میں جاگیر داروں اور سرما یہ داروں نے سارے نظامِ حکومت کو
اپنی گرفت میں لے کر یر غمال بنا رکھا ہے اور غیر اعلانیہ اپنی حکو مت قائم
کر رکھی ہے اور غریب عوام کا جینا دو بھر کر رکھا ہے لیکن اسکے با وجود بھی
عوام میں سرما یہ داروں اور جا گیر داروں کے خلاف نفرت کا وہ پیما نہ نہیں
جو ساٹھ اور ستر کی د ہا ئیوں میں ہم نے دیکھا تھا۔آج چونکہ دولت نئے الہ
کا روپ اختیار کر چکی ہے لہٰذا ہر کو ئی اسکے سامنے زا نوئے تلمذ کئے ہو ئے
ہے جسکی وجہ سے ہما رے جذبات میں نفرت کی بجا ئے دولت سے محبت کا عنصر زیا
دہ غالب آتا جا رہا ہے جو انقلاب کی راہ میں حقیقی ر کاوٹ ہے۔
ایک طرف تو اندرونِ خانہ یہ صو رتِ حال تھی اور دوسری طرف بھارت اور روس
میں دوستی کی پینگیں دن بدن مضبوط ہو رہی تھیں اور وہ پور ے جنو بی ایشیا
کو اپنے زیرِ نگیں ر کھنے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ روس اور امریکہ میں اس
زمانے میں غیر اعلانہ جنگ جا ری تھی اور دونوں اپنی اپنی حاکمیت اور بر تری
کی جنگ میں سب کچھ جھونک رہے تھے۔ بھارت اس وقت روس کے ساتھ کھڑا تھا اور
اس کی آشیرواد پر پاکستان کو سبق سکھا نے کا منصوبہ بنا رہا تھا ۔ چین کے
بھی بھارت کے ساتھ بڑے دو ستا نہ تعلقات تھے اور ہند چینی بھا ئی بھا ئی کے
نعرے ہر سو سنا ئی دیتے تھے۔پاکستان کے سارے ہمسا ئے اپنی اپنی مجبو ریوں
کے تحت پاکستان سے بغض رکھتے تھے۔دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے سامنے
وہ خود کو بہت چھوٹا اور کمزور محسوس کر رہے تھے لہٰذا اپنی بے بسی اور
کمزوری کو وہ پاکستان کے ساتھ معاندانہ سوچ سے پر کرنے کی کوشش کر رہے تھے
جس کی کو ئی حیثیت اور اہمیت نہیں تھی یہ ایک نفسیا تی جنگ تھی جو پاکستان
کے ہمسا یوں اور پاکستان کے درمیاں خاموشی سے جا ری تھی کو ئی بلو چستان پر
اپنا حق جتا رہا تھا تو کوئی عظیم تر پختو نستان کا نعرہ بلند کر کے اپنے
ملک کی سرحدوں کو اٹک کے پل تک لے جا نے کی دھمکی دے رہا تھا۔پاکستان اس
گھمبیر صورتِ حال میں امریکہ کا ہاتھ نہ تھا متا تو شا ئد ا س کا جینا دو
بھر کر دیا جا تا اور پاکستان کا اپنا وجود خطرے سے دوچار ہو جاتا۔ انسان ا
پنی منصوبہ بندی کرتا ہے اور قد رت اپنی چا لیں چلتی رہتی ہے جو دنیا میں
ایک توازن کی فضا قائم رکھتی ہے وگرنہ طاقتور ممالک غریب اقوام کا جینا دو
بھر کر د یتے ۔چاروں طرف سے دشمنوں اور دشمن نما دوستوں میں گھرا ہو ا
پاکستان آگے بڑھنا چاہتا تھا لیکن اس کے ہمسا ئے اسے مسائل میں الجھا کر
اسکی ترقی اور خوشحا لی کو روکنا چا ہتے تھے۔ وہ پاکستان کو پھلتا پھو لتا
اور ترقی کرتا نہیں دیکھ سکتے تھے کیو نکہ اس سے ان کے اپنے وقار اور حیثیت
پر ضرب لگتی تھی۔ یہ تھے وہ حالات جس میں ۲۶۹۱ میں ہند چینی بھا ئی بھا ئی
کے نغمے گا نی وا لی دونوں قومیں ایک سرحدی تنا زعے کی وجہ سے ایک دوسرے کے
سامنے صف آرا ہو گئیں اور انکی دوستی کا خوبصورت غبارہ بیچ ہوا میں پھٹ
گیا۔ وہ ایک دوسرے کے وجود کی دشمن ہو گئیں اور یوں پاکستان کو اپنی سرحدوں
پر ایک نئے دوست کا ہیو لہ ابھرتا ہوا محسوس ہو جسے دنیا چین کے نام سے
پکارتی ہے لیکن پاکستانی قوم اسے دوست اور بھائی کہنے میں فخر محسوس کرتی
ہے اور اس کی دوستی پر ناز کرتی ہے۔۔ |