کہاں گئی دس ہزار میگاواٹ بجلی ؟

کسی نے کیا خوب کہاہے کہ عید کے بعد تنبہ پھونکنا ہے ۔ بجلی کی سب سے زیادہ ضرورت گرمیوں میں ہوتی ہے۔ اگر گرمیوں کے موسم میں ہی بجلی میسر نہ ہو تو عوام لعنت بھیجتے ہیں تمام حکومتی دعوؤں پر ۔ شاہد خاقان عباسی فرماتے ہیں بجلی اب ہمارے پاس وافر مقدارہے ا ب ہمیشہ کے لیے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کردیا ہے ۔سرتاج عزیر فرماتے ہیں ہم نے پانچ سالوں میں 10 ہزار میگاواٹ بجلی قومی گرڈ میں شامل کی۔ نواز شریف اور شہباز شریف بھی اٹھتے بیٹھتے بجلی کا بحران ختم کرنے کے مسلسل دعوی کررہے ہیں ۔ ابھی تین دن پہلے کی بات ہے ۔ شاہد خاقان عباسی کراچی میں منعقدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ ملک میں کہیں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہورہی ۔ ایک طرف یہ حکومتی دعوے تو دوسرے جانب گوجر خان سے ایک مسلم لیگی دوست حفیظ طاہر کا ایس ایم ایس ۔ گوجر خان میں ایک گھنٹہ بجلی آتی ہے تو تین گھنٹے بند رہتی ہے ۔مجھ سے مخاطب ہوکر وہ کہنے لگے اب آپ ہی بتائیں کہ ہم لیگی رہنماؤں پر یقین کریں یا لوڈشیڈنگ سے تنگ آکر زندہ قبر میں اترجائیں ۔ہماری تو زندگی ہی عذاب بن چکی ہے ۔ گرمیوں کی شدت اور سورج جب سے سوا نیزے پر آیا روزے کوبرقرار رکھنا انتہائی مشکل ہو چکا ہے اس پر جب لوڈشیڈنگ کا عذاب نازل ہوتا ہے تو دل کرتا ہے کہ دعوے کرنے والوں سمیت سب کو آگ لگا دوں۔ ایسی ہی ایک درخواست پر لاہور کورٹ نے وفاق سے جواب طلب کرلیا کہ حکومتی دعوؤں کے باوجود سحراور افطار میں بھی کیوں لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے ۔ عوام کو نہ دن میں سکون ہے اور نہ رات کو ۔ وہ جائیں توجائیں کہاں ۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا مسلم لیگی حکومت نے پانچ سالوں میں لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا وعدہ کیا اب لوڈشیڈنگ کے ساتھ ساتھ غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ بھی شروع ہوچکی ہے ۔ حکومت نے ڈیموں میں جمع شدہ پانی وقت سے پہلے ہی ختم کرلیا جس کی وجہ سے بجلی کی تنصیبات بار بار ٹریپ کرجاتی ہیں ۔900 ارب روپے کے گردشی قرضوں کی وجہ سے تھرمل پاور ہاوسز بند پڑ ے ہیں جس سے شارٹ فال مزید بڑھتا جارہا ہے ۔یہ تو عدالت میں ہونے والی کاروائی تھی لیکن انتظامی اداروں کی جانب سے یہ اعلان بار بار کیا جارہا تھا کہ جن علاقوں میں لائن لاسز زیادہ ہیں یعنی بجلی چوری ہورہی ہے وہاں لوڈ شیڈنگ بھی زیادہ کی جارہی ہے ۔ بجلی کی چوری کے حوالے سے اہم ترین رپورٹ کا ذکر کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں جو حقیقت حال کی آئینہ دار ہے۔ مشرف دور میں جرمنی سے ایک الیکٹریکل انجینئر (فرینک شمیڈٹ ) کو میں کراچی میں بجلی چوری پکڑنے کے لیے بطور خاص بلایا گیا اس الیکٹریکل انجینئر نے چھ ماہ کے بعدایک رپورٹ مرتب کی جس کے مطابق 50 فیصد بجلی حکومتی ادارے ‘ چالیس فیصد بجلی صنعت کار اور کاروباری افراد چوری کرتے ہیں جبکہ کچی آبادیوں کے لوگ دس فیصد بجلی چوری کرنے کے مرتکب پائے گئے ۔ مشرف حکومت نے جرمن انجینئر کوحکم دیا کہ پہلے دس فیصد بجلی چوری کرنے والوں کو گرفت میں لا یاجائے ۔جرمن انجینئر نے اپنا سامان سمیٹا اور یہ کہتے ہوئے جرمن واپس چلا گیا کہ 90 فیصد بجلی چوروں کو چھوڑ کر بنیادی سہولتوں سے محروم لوگوں کے خلاف میں کارروائی کرنا نہایت بددیانتی کے مترادف ہے۔لیسکو اتھارٹی کے ایک واقف کار سے ملاقات ہوئی تو اس نے بھی حیران کن انکشافات کیے ۔ اس نے بتایا کہ پنجاب ‘سندھ ‘ بلوچستان اور کے پی کے میں ایسے علاقے بھی موجود ہیں جہاں ایس ڈی او جانے سے گریز کرتے ہیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے ایم این اے اور ایم پی اے اور مقامی جاگیردار اور سردار سب سے بڑے بجلی چوری ہیں ۔ ایم این اے کی بات تو چھوڑیں بھینسوں کو چارہ ڈالنے والے نوکر بھی حکم عدولی پر ایس ڈی او کی ٹانگیں توڑ دیتے ہیں ۔ایسے خطرناک علاقوں سے کتنے ہی ایس ڈی او ٹانگیں تڑوا کے ہیڈ کوارٹر واپس آچکے ہیں ۔ اس نے مزید بتایا کہ جتنے بھی سیاسی جلسے ہوتے ہیں ہر جگہ اورہر مقام پرچوری کی بجلی استعمال کی جاتی ہے ۔ یہ سب کچھ انتظامی اداروں کے علم میں ہے وہ اس لیے خاموش ہیں کہ جس پر بھی ہاتھ ڈالتے ہیں وہی ان کو نوکری سے نکلوانے پر تل جاتاہے ایسے طاقتور عناصر کی پہنچ حکومتی ایوانوں تک ہے۔ اس کھینچا تانی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے عوام ہیں جن کو چوری کی جانے والی بجلی کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے اور لوڈشیڈنگ کا عذا ب بھی برداشت کرنا پڑتا ہے۔ میں نے کہا کہ مسلم لیگی حکمران دس ہزار میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل کرنے کا جو دعوی کررہے ہیں اس کی حقیقت کیاہے ۔؟ لیسکو اتھارٹی کے ملازم نے بتایا کہ دس ہزار میگاواٹ کے پاور یونٹ لگائے ضرور گئے ہیں لیکن وہ تمام یونٹ اپنی استعداد سے بہت کم بجلی پیدا کررہے ہیں ۔ان کو پوری استطاعت کے مطابق کیوں نہیں چلایا جارہا ‘اس کے بارے میں اعلی عہدیدار ہی جانتے ہیں ۔ یہ وہ حقائق ہیں جو عوام سے یقینا مخفی ہیں ۔ بجلی سپلائی کرنے والی کمپنیوں کے ترجمان کہتے ہیں کہ ملک شدید ترین گرمی کی لپیٹ میں ہے جس کی وجہ سے استعمال دوگنا ہوگیا ہے لوگ اپنی سہولت کے لیے ائیر کولر اور ائیر کنڈیشنڈ زیادہ استعمال کررہے ہیں جس سے بجلی کے استعمال میں مسلسل اضافہ ہو رہاہے جبکہ سپلائی سسٹم بھی زیادہ بجلی کا بوجھ برداشت نہیں پارہا اور بار بار ٹریپ کرجاتا ہے ۔ ابھی ایک فیڈر ٹھیک نہیں ہوتا کہ دوسرا ٹریپ کرجاتاہے۔ یوں ہر شہر اور ہر گاؤں میں بجلی کی آنکھ مچولی جاری ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ پاکستانی قوم ہر سبز باغ دکھانے والے کے پیچھے بھاگ پڑتی ہے ۔ یہ تو مسلم لیگ ن حکومت کی کارکردگی ہے جس نے دس ہزار میگاواٹ بجلی پیدا کرنے والے پاور جنریشن یونٹ واقعی لگائے ہیں ۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی حکومتوں کے چہرے ان سے بھی بدتر ہیں جنہوں نے بجلی پیدا کرنے کے یونٹ لگانا ضروری ہی نہیں سمجھا ۔ نگران وزیر اعظم جسٹس (ر) ناصر الملک کا تعلق عدلیہ اور خیبر پختونخوا کے دور افتادہ علاقے سوات سے ہے۔ وہ پاکستانی قوم کے مسائل کو بخوبی جانتے ہیں ۔انہیں چاہیئے کہ بطور خاص بجلی کے سسٹم کی بار بار ٹرپنگ کو روکنے اور بند پاور جنریشن پلانٹ کو پوری استعداد کے مطابق چلانے کا حکم سب سے پہلے جاری کریں تاکہ عوام کو سکھ کا سانس آسکے ۔پانی کی قلت کا سدباب کرنے کے لیے کالا باغ ڈیم سمیت ہر وہ ڈیم بنانے کا حکم جاری کرنا چاہیئے جہاں جہاں سیلابی پانی تباہی پھیلاتا ہے اور زراعت کے لیے پانی میسر نہیں ہوتا۔

Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 663326 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.