سیاسی پس منظر کا تجزیاتی خاکہ

پارلیمنٹ کے اپنا دوسرا دورانیہ مکمل کرنے کے بعد مرکزی اور صوبائی عبوری حکومتیں اپنے قیام کے مراحل میں ہیں۔ اگلے الیکشن شیڈول پا چکے ہیں ۔ سیاسی جماعتں اپنی اپنی حکمت عملی کے تحت بھر پور کمپین کے لئے کوشاں ہیں۔

اب یہاں پر ہم بڑی سیاسی پارٹیوں کا موجودہ سیاسی پس منظر میں ان کی کارکردگی اور حکمت عملی کی بنیاد پر خاکہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں۔

تحریک انصاف کو چونکہ اکثریتی میڈیا کی طرف سے مقبول ترین اور واحد نجات دہندہ جماعت کے طور پر پیش کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ اور پاکستان مسلم لیگ نواز کو مرکزی اور سب سے بڑے صوبے پنجاب میں حکومت میں ہونے کی بنیاد پر سب سے زیادہ تنقید اور احتساب کا سامنا ہے جسے وہ اپنے ساتھ امتیازسلوک بھی گردانتے ہیں جس کا انہیں ہمدردی کی شکل میں فائدہ بھی مل رہا ہے۔

پی ٹی آئی نے سیاست کو ہمیشہ کھیل کے طور پر لیا ہے اور اسطرح وہ فن ، تفریح مہیا کرتے ہوئے عوامی پزیرائی حاصل کرنے میں کافی حد تک کامیاب بھی ہوگئے۔ کچھ حلقوں نے سمجھا کہ شاید وہ پاکستانی سیاست میں پیدا ہونے والے خلا کو پورا کر سکیں گے اور ان پر امیدیں وابسطہ کر بیٹھے ۔ مختلف سیاسی کرداروں نے سرمایہ کاری بھی کی اس طرح بڑھتی ہوئی پزیرائی دیکھ کر عوام بھی نجات دہندہ سمجھ بیٹھے کہ شاید سیاسی کمیاں اور کمزوریاں پوری ہو جائیں ۔

پزیرائی کو دیکھ کر کئی سیاسی انجینئرز بھی جماعت میں شامل ہوگئے اور اپنے سیاسی جوہر دکھانے کی کوشش میں لگ گئے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی کے مختلف زرائع سے عوامی رائے کو ہموار کرنے کے لئے سیاسی نعرے بلند کئے گئے اور عوام نے کافی حد تک جماعت کو حکومت میں شامل ہوکر عوامی خدمت کا موقع بھی فراہم کر دیا۔

مگر جماعت نے اپنی فن اور تفریح کے زریعہ پزیرائی کو ہی اپنی کامیاب حکمت عملی سمجھتے ہوئے عوام کے جذبات سے کھیلنے کا سلسلہ جاری رکھا۔

بجائے اس کے کہ عملی خدمت کے زریعہ عوام کو ایک ماڈل پیش کرتے اور اپنی مقبولیت کے کے گراف کو اوپر لے جاتے انہوں نے مقبولیت کی خوش فہمی میں شارٹ کٹ ڈھونڈنے کی کوشش کی اور اس طرح مفاد پرست ٹولوں نے ان کو اپنا مہرہ بنانے کی کوشش کی ۔وہ ایسا کرنے میں کامیاب تو ہوگئے مگر ان کے غیر سنجیدہ انداز سیاست سے مایوس بھی ہوئے۔

سنجیدہ اور تجربہ کے حامل محب وطن حلقوں نے ان کو تجاویز بھی دیں کہ ملکی ترقی کے عمل کو آگے چلنے دیں اور آپ بھی اس میں مثبت کردار ادا کریں۔

مگر انہوں نے اپنی حکمت عملی کو نہ بدلا اور محض نعروں کے زریعہ مقبولیت کے سفر کو ہی غنیمت جانا اور اس طرح قیمتی وقت کو فن اور تفریح میں ضائع کردیا۔ سنجیدہ حلقوں کو مایوسی ہوئی اور انہوں نے اپنی امیدیں کھو دیں بلکہ کچھ ساتھ چلنے والوں نے اپنی راہیں بھی علیحدہ کر لیں۔

دھرنوں اور احتجاج کی سیاست زیادہ دیر نہ چل سکی اور ناکامی کو دیکھتے ہوئے اداروں کو سیاست میں ملوث کرنے کی کوشش کی گئی جس سے بظاہر ریلیف تو ملا لیکن ترقی کے عمل کو بری طرح متاثر ہونے کے علاوہ کچھ حاصل نہ ہوا بلکہ ان منفی ہتھ کنڈوں سے مسلم لیگ نواز کی مقبولیت میں اور اضافہ ہوتا گیا ۔ وہ رکاوٹوں اور مشکلات کے باوجود اپنے آئینی دورانئے کو پورا کرنے میں کامیاب ہوگئے اور تحریک انصاف والے حکومت کے ختم ہونے کے سراب میں نہ تو کچھ خاطر خواہ ڈلیور کرسکے اور نہ ہی اپنا کارکردگی کی بنیاد پر مقبولیت کا خواب پورا کر سکے۔

غیر سیاسی اور جمھوریت دشمن قوتوں کی شاید آجکل کسی بھی سیاسی جماعت کو اتنی اشیرباد نہیں ملی جتنی تحریک انصاف کو ملی اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے مگر اس سب کچھ کے باوجود خفیہ رپورٹس سے بد دلی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔

کھوکھلے نعروں کی سیاست آخر کب تک چل سکتی ہے۔ اب الیکشن سر پر ہیں مگر تحریک انصاف کے پاس دکھانے کے لئے تو کچھ ہے نہیں لہذا عوامی سامنا کرنے سے ہچکچاہٹ تو لازمی امر ہے اور اسی بوکھلاہٹ میں اپنے غیر سنجیدہ رویہ کا حسب عادت اور معمول مظاہرہ کرتے ہوئے غلطیوں پہ غلطیاں کرتے جا رہے ہیں ۔ اپنے ہی فیصلوں پر خود ہی یو ٹرن لے کر سیاسی مذاق بنتے جارہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخواہ میں مکمل اقتدار اور پنجاب میں مضبوط حزب اختلاف ہوتے ہوئے انہوں نے جن بے وقوفیوں کا مظاہرہ کیا ہے وہ ان کی سیاسی موت سے کسی طرح بھی کم نہیں ہیں۔

وہ جماعت جو پچھلے پانچ سالوں سےاپنی مقبولیت کے دعوے اور نئے الیکشن کے مطالبے کرتی آرہی ہے اب الیکشن کو اپنی زبان اور عمل کے زریعہ ملتوی کرانے کے درپے ہے۔ یہی اشارے انکی ناکام ذہنی عکاسی اور بوکھلاہٹ کی تصویر کشی کر رہے ہیں۔

مسلم لیگ اپنی کارکردگی کی بناد پر عوامی رائے کو اپنے حق میں ہموار کر کے پزیرائی کی بلند ترین سطح پر ہے اور تحریک انصاف اپنے گزرے ہوئے وقت اور حکمت عملی پر خود کشی کرنے کے موڑ پر آن کھڑی ہوئی ہے۔

جو ظاہری کچھ بھل بھلا قائم ہے اس کی بنیاد پر کشش محسوس کرتے ہوئے مفاد پرست عناصر تو آرہے ہیں مگر دوسری طرف کتنے کارکن اور ہمدرد ، ایسے لوگوں کے شامل ہونے سے نالاں بھی ہیں جس کا احساس الیکشن کے نتائج پر ہوگا۔

اگر الیکشن وقت پر غیر جانبدارانہ اورشفاف قائم ہو جاتے ہیں ، جس کی امید بھی ہے تو میرے خیال میں ایک دفعہ پھر سے تحریک انصاف کو اور کچھ ملا یہ نہ ملا مگر اپنی روائیتی غیر سنجیدہ اور تفریحی سیاست کے موقعہ کی گراونڈز ضرور مل جائیں گی۔

موجودہ صورتحال میں مسلم لیگ اپنی سنجیدہ ، مثبت اور کارکردگی کی بنیاد پر حکمت عملی کے پیش نظر برتری کی پوزیشن میں لگ رہی ہے۔ اور تحریک انصاف کسی دوسری واضح اکثریتی جماعت نہ ہونے اور غیر سیاسی ریاستی اداروں کی ہمدردیوں کے پیش نظر دوسرے نمبر پر دکھائی دے رہی ہے۔ جب کہ دوسری جماعتوں میں پیپلز پارٹی تھوڑی سی تنزلی کے ساتھ تحریک انصاف کے آگے پیچھے نظر آرہی ہے۔ جماعت اسلامی اور جمیعت علماء اسلام اگر ان کا اتحاد قائم رہتا بھی ہے تو اپنی مجموعی صورتحال بھی پہلے سے بہتر دکھانے کی پوزیشن میں نہیں لگ رہیں۔

یہاں میں نے تحریک انصاف کو اپنے تجزیہ میں زیادہ فوکس کیا ہے کیونکہ اس جماعت کو میڈیا اور کئی اور حربوں سے مقبول ترین جماعت کا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ جس کا تفصیلی جائزہ ضروری تھا۔

جمھوری عمل کو اگر بغیر کسی رکاوٹ کے چلنے دیا جائے تو کچھ نہ ڈلیور کرنے والی سیاسی جماعتیں خود ہی مقبولیت کھونا شروع ہو جاتی ہیں جس کی مثال پیپلز پارٹی کی موجودہ صورتحال ہے۔

تحریک انصاف بھی اگر دھرنہ احتجاج کی بجائے کارکردگی اور مثبت تنقید کی بنیاد پر پچھلے پانچ سال سیاست کرتی تو آج کی صورتحال ایک مثبت تقابلی سیاست ، جمھوریت کو تقویت دیتے ہوئے وطن عزیز کو تیزی سےترقی کی راہ پر گامزن ہونے کی تصویر پیش کر رہی ہوتی۔

Dr Ch Abrar Majid
About the Author: Dr Ch Abrar Majid Read More Articles by Dr Ch Abrar Majid: 92 Articles with 114730 views By profession I am Lawyer and serving social development sector for last one decade. currently serving Sheikh Trust for Human Development as Executive.. View More